درابو۔۔۔۔قربانی کابکرا

0
85

روفیسرشہاب عنایت ملک

رابطہ نمبر:94191-81351

  • 12مارچ 2018کوریاستی سیاست میں اُس وقت ایک بڑی کھلبلی مچی جب ریاست کی وزیر اعلیٰ محترمہ محبوبہ مفتی نے کابینہ کے سب سے زیادہ ہائی پروفائل وزیرجناب حسیب درابو کوبرطرف کرکے پوری ریاست کے عوام کوحیرت زدہ کردیا۔حسیب درابوکابینہ سے برطرف ہوں گے کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کیوں کہ درابو کاشمارپی ڈی پی کے اُن لیڈروں میں ہوتاہے جنھیں برا ہ راست ماضی میں جناب مفتی محمدسعید کادست شفقت حاصل ہونے کاشرف حاصل رہا۔ حسیب درابو اُس وقت سیاسی اُفق پرزوروشورسے نمودار ہوئے جب مفتی محمدسعیدنے انہیں اپنی حکومت کامعاشی صلاحکار تعینات کیا۔ اس کے بعد وہ جموں کشمیربنک کے چیئرمین کے عہدے پرتعینات رہے ۔بعدمیں اُن کاشمارمفتی صاحب کے قریب ترین ساتھیوں میں ہونے لگا۔سیلف رول کی دستاویزتیار کرنے میں درابوپیش پیش رہے جس کے صلے میں مفتی صاحب نے انہیں راجپورہ پلوامہ سے ایم ایل اے کاٹکٹ دے کراپنے پارٹی کے سینئرساتھی سعید بشیرکی ناراضگی بھی مول لی۔ بی جے پی ۔پی ڈی پی ایجنڈا آف الائنس کرنے میں مفتی سعیدنے درابو پرہی اعتبارکیا۔ ایجنڈاآف ایلائنس جب طے ہوا تو مفتی محمدسعید دوسری دفعہ ریاست جموں وکشمیرکے وزیراعلیٰ بنے اوراُن کی کابینہ میں درابوکووزیرخزانہ کاقلم دان سونپاگیا۔ بعدمیں مفتی سعیدکے انتقال کے بعد محبوبہ مفتی کی کابینہ میں بھی حسیب درابو وزیرخزانہ ہی رہے اوراس عہدے پررہ کر انہوں نے بعض قابل قدرکام بھی کئے ۔ اب یہاں سوال پیداہوتاہے کہ محبوبہ مفتی نے اتنابڑا فیصلہ کیوں لیا اورکیوں انہیں درابوجیسے دانشورکوبرطرف کرناپڑا۔ کہاجاتاہے کہ چندروز پہلے دہلی کی ایک تقریب میں مسئلہ کشمیرکوماننے سے انکار کردیااوراس مسئلے کوسیاسی نہ مانتے ہوئے اسے سماجی قراردیا۔جوپی ڈی پی کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے اورپارٹی کاہمیشہ یہ موقف رہاہے کہ کشمیرایک سیاسی مسئلہ ہے جس کاحل ہوناباقی ہے۔ دہلی کی اس تقریب کی خبرجب اخبارات میں شائع ہوئی توآناً فاناً ریاست میں ایک وبال مچ گیا ۔مین اسٹریم جماعتوں سے لے کرعلیحدگی پسندوں تک نے حسیب درابوکے اس بیان کی پرزورالفاظ میں مذمت کی۔یہاں تک کہ یاسین ملک نے یہاں تک کہہ دیاکہ درابونے ان سے دہلی میں مل کرجے کے ایل ایف میں شمولیت کی درخواست بھی کی تھی۔ حکومت جب ہرطرف دبائومیں آئی تو وزیراعلیٰ کویہ بڑافیصلہ لیناپڑا۔ پارٹی ذرائع کے مطابق فیصلہ لینے سے پہلے درابوکوان کے بیان سے متعلق صفائی دینے کے لیے کہابھی گیالیکن جب اُن کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیاتووزیراعلیٰ نے یہ فیصلہ لے لیا۔ ادھرحسیب درابوکاکہنا ہے کہ انہیں اس طرح کاکوئی خط نہیں ملاالبتہ ان کے علم میں یہ بات آئی توانہوں نے جناب عبدالرحمن ویری سے فون پربات کرکے اپنی صفائی بھی پیش کی۔ ویری جوپارٹی Displinary Committee کے چیئرمین بھی ہیں نے انہیں وزیراعلیٰ سے بات کرنے کوکہااوربقول درابوانہوں نے اُسی وقت وزیراعلیٰ کودہلی فون کیالیکن وہاں سے انہیں بتایاگیا کہ وزیراعلیٰ مصروف ہیں وہ خودہی یہاں سے فون کریں گی لیکن ان کا وہ فون ابھی تک آیاہی نہیں۔ حسیب درابو کایہ بھی کہناہے کہ ان کے بیان کوغلط معنوں میں لیاگیا۔ سیلف رول کی دستاویزتیار کرنے والے سے  کس طرح اس قسم کابیان جاری ہو سکتاہے ۔سیاسی پنڈتوں کاکہناہے کہ چوں کہ کشمیرمیں پی ڈی پی اپنی ساکھ تقریباً پوری طرح کھوچکی ہے اس لیے اس ساکھ کوبچانے اور ووٹوں کافائدہ لینے کے لیے حسیب درابو کو قربانی کابکرابنایاگیا ۔ان کامزیدکہناہے کہ پی ڈی پی کومسئلہ کشمیرسے کیا مسئلہ کشمیرپر ان کی پارٹی کاموقف اُسی وقت ختم ہوچکاہے جب انہوں نے بھارتیہ جنتاپارٹی سے اتحاد کرکے ریاست میں کرسی کی خاطرعوام کے ووٹوں کاسودہ کردیااورگزشتہ تین سال کی مخلوط سرکارنے ریاست کوتباہی کے دہانے پرلاکھڑا کردیاہے۔ان سیاسی پنڈتوں کے مطابق جس ایجنڈاآف ایلائنس کے تحت سرکاروجودمیں آئی تھی اُس پر کسی طرح سے آج تک کام ہواہی نہیں جس کی وجہ سے ریاست انتشارکاشکارہوکررہ گئی ہے۔ کشمیر میں آئے دن خون خرابہ ہورہاہے جبکہ جموں میں فرقہ وارانہ ذہنیت اپنے شباب پرہے ۔آصفہ قتل اورعصمت ریزی کیس کو جس طرح مذہبی رنگ دیاجارہاہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔محبوبہ مفتی کے کابینہ کے دووزرا ء جس طرح کھلے عام فرقہ پرستی کی حمایت کررہے ہیں وہ خبریں بھی آئے دن اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔آٹھ سالہ آصفہ کی جس طرح سے عصمت ریزی کی گئی اورپھراُسے بے رحمی سے قتل کیاگیا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ملزموں کے حق میں جلوسوں کاانعقاد کرنا اس بات کوثابت کرتاہے کہ بی جے پی کے دوکابینہ کے وزیرکتنے طاقتورہیں کہ وزیراعلیٰ ان کو لگام نہیں دے پارہی ہیں۔ حسیب درابوکوبرطرف کرنے سے پہلے اگرچندرپرکاش گنگا اورلال سنگھ کوبرطرف کیاہوتاتو کتنااچھاپیغام فرقہ پرست طاقتوں کوجاتا۔اس سے شائد آصفہ کی روح کوسکون بھی ملتا۔اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ حسیب درابو صرف ایک معروف دانشو رہی نہیں بلکہ معاشیات پربھی انہیں خاصی دسترس حاصل ہے۔ بطوروزیرخزانہ انہوں نے بعض اچھے کام بھی کئے جن کااعتراف نئے وزیرخزانہ جناب الطاف بخاری نے بھی کیا۔یہ سب ہونے کے باوجودحسیب ایک مغرور انسان بھی ہیں۔ پارٹی میں وہ زمینی سطح کے آدمی نہیں ہیں۔بطوروزیرانہوں نے پارٹی کے سرکردہ لیڈروں کوبھی گھاس ہی نہیں ڈالی۔وہ رام مادھوکے آدمی کہلائے جانے لگے۔ ان کے اسمبلی حلقہ کے لوگ بھی انہیں ملنے کے لیے ترستے ہی رہے۔اسی طرح کے آسمانی سطح کے لوگ دوسرے بھی ہیں جوطرح طرح سے پارٹی کے عوامی لیڈروں سے متعلق وزیراعلیٰ کوبھڑکاتے بھی ہیں۔ عوامی سطح کے یہ تمام لیڈرہمیشہ درابوکے مخالف ہی رہے بعض دفعہ انہوں نے حسیب درابوکے خلاف آوازبھی بلند کی جس کی مثال ہم پارٹی کے سینئر لیڈرجناب مظفرحسین بیگ سے بھی دے سکتے ہیں۔ عوامی سطح کے یہ مقبول لیڈر کسی موقعہ کی تلاش میں تھے اورانہیں یہ موقعہ اُس وقت حسیب درابونے خودفراہم کیاجب دہلی کی ایک تقریب میں انہوں نے ایک متضاد بیان دیا۔ پارٹی کے ان بنیادگذاروں نے بھی حسیب درابوکوچلتاکرنے میں اہم کردارادا کیا۔ بہرحال حسیب درابو اب کابینہ کے وزیرنہیں رہے ممکن ہے کہ انہیں پارٹی کی بنیادی ممبرشپ سے بھی بے دخل کیاجائے ۔وزیراعلیٰ کوچاہیئے کہ ان تمام آسمانی سطح کے لوگوں پربھی نظررکھیں جنھیں پارٹی پرکسی نہ کسی وجہ سے تھوپاگیاہے۔ آسمانی سطح کے یہ لیڈرزمینی حالات کومدنظرنہ رکھتے ہوئے کہیں ایسی اناپ شناپ باتیں کہہ دیتے ہیں کہ پارٹی کوعوام کے سامنے شرمندگی ہی اُٹھانی پڑتی ہے۔۰۰۰

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا