عنوان: معاشی ترقی کا فتنہ: استہاکیت، عدم مساوات اور روحانی ابتری

0
84

۰۰۰
سید واصف اقبال گیلانی
۰۰۰
عالم اسلام میں، معاشیات کو ہمیشہ سے ہی ایک اخلاقی اور روحانی پہلو سے دیکھا گیا ہے۔ اسلام نہ صرف دولت کی کمائی اور تقسیم کے طریقوں کی ہدایات دیتا ہے، بلکہ اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ انسان اپنی معاشی سرگرمیوں میں انصاف، ہمدردی، اور قناعت کا مظاہرہ کرے۔ موجودہ دور میں، معاشی نظام تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور اس میں کئی نئے رجحانات سامنے آ رہے ہیں۔
ان میں سے دو اہم رجحانات ہیں خریداری کی طاقت (Purchasing Power) پر زور اور دو آمدنی والے خاندانوں کا بڑھتا ہوا رجحان۔ یہ مقالہ ان دو رجحانات کے اقتصادی اور سماجی نتائج کا ایک تنقیدی جائزہ پیش کرتا ہے، یہ جانچنے کے لیے کہ آیا وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں یا نہیں۔
محققین اور علماء اس پر کافی زور دیتے ہیں کہ معاشیات کا بڑا حجم پیمانے کی معیشت (Economies of scale) اور خریداری کی طاقت (Purchasing Power) پر زور سماجی انتشار اور روحانی سکون میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ ماضی میں، جب اکثر گھروں میں آمدنی کا ایک ہی ذریعہ ہوتا تھا، اس وقت لوگوں میں زیادہ اطمینان پایا جاتا تھا۔ آمدنی میں اضافے اور بڑھتی ہوئی مانگ کے ساتھ چلنے کے لیے آج کل خاندانوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس دوڑ میں، قناعت اور شکر کا فقدان ہو گیا، جو اسلامی تعلیمات کی اساس ہیں۔
یہ مادیت پرستی خاندانی نظام کو بھی متاثر کرتی ہے، کیونکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ایک خاص معیار زندگی برقرار رکھنے کے لیے خواتین کو ملازمت کرنا ضروری ہے۔ اس سے روایتی خاندانی نظام پر دباؤ پڑتا ہے اور گھر کی بنیادیں کمزور ہو جاتی ہیں۔ اس مقالے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم ترقی کی راہ پر چلنا چھوڑ دیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم اس ترقی کو ایک نئے زاویے سے دیکھیں۔ ہمیں ایسی ترقی کی ضرورت ہے جو مسلمانوں کے لیے فائدہ مند ہو اور معاشرے میں امن و خوشحالی لائے۔
ڈنک خاندانوں (DINK = Double Income, No Kids) کا رجحان اس معاشی دباؤ کی ایک علامت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ شادی کے بعد بچے پیدا نہ کرنے کا یہ رجحان، خواہ کسی بھی وجہ سے ہو، معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔ بچے نہ صرف والدین کی زندگی میں خوشی اور برکت کا باعث بنتے ہیں، بلکہ وہ مستقبل کی نسل بھی ہیں جو معاشرے کو چلاتے ہیں۔
اس کے علاوہ، کمپنیاں مصنوعی طلب پیدا کرکے اور مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے صارفین کے رجحانات کا غلط فائدہ اٹھاتی ہیں۔ اس مارکیٹنگ کی یلغار میں، افراد کو خود بھی "کاروبار” کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جن پر مسلسل زیادہ خرچ کرنے کا دباؤ ڈالا جاتا ہے، چاہے ان کی ضروریات پوری ہوں یا نہیں۔
مضمون اس بات پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ کیسے سود پر مبنی معاشی نظام معاشی عدم مساوات کو جنم دیتا ہے اور فتنے کو بڑھاتا ہے۔ قرآن مجید سورۃ البقرۃ میں سود کی صراحت مفسد (فساد کرنے والا) قرار دیتا ہے، کیونکہ یہ دولت کی منصفانہ تقسیم میں رکاوٹ ہے۔ سود خور نظام امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بناتا ہے، جس سے معاشرے میں تلخی اور بیچینی پیدا ہوتی ہے۔ اسلامی معاشی نظام، جو سود سے پاک ہے اور انصاف پر مبنی ہے، اس کے برعکس کام کرتا ہے۔ زکوٰۃ اور صدقہ جیسے اسلامی مالیاتی اصول دولت کی گردش کو یقینی بناتے ہیں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔
یہاں کلیدھی لفظ "تعاون” ہے، نہ کہ "مصنوعی طلب” پیدا کرنا۔ سورۃ الزخرف کی آیات (33-34) اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس دنیا میں اس لیے بھیجا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی خدمت کریں اور اس زمین کی آبادکاری کریں۔ لیکن، موجودہ معاشی نظام میں خدمت کا جذبہ کم ہوتا جا رہا ہے اور اس کی جگہ مقابلہ اور حرص لے رہی ہے۔
اگر ایک خاص طبقے کے لوگ اپنی خدمات فراہم کرنا بند کر دیں تو معاشرہ کیسے چلے گا؟ مثال کے طور پر، ڈاکٹرز، اساتذہ، اور کسان سبھی معاشرے کے اہم ستون ہیں۔ لیکن، اگر سب ڈاکٹر صرف سرجن بننے کی جستجو کریں تو پھر عام معالجین کون ہوں گے؟ یہی صورتحال دوسرے شعبوں میں بھی ہے۔ اس لیے، اللہ تعالیٰ نے ہر فرد کو الگ الگ صلاحیتیں اور ذوق عطا کیے ہیں تاکہ معاشرہ متوازن رہے۔ اس تنوع میں ہی خوبصورتی ہے اور یہی فطرت کا نظام ہے۔
اب ہم سورۃ الشوریٰ کا حوالہ دیتے ہیں، جو اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ایک جیسا نہیں بنایا ہے۔ اگر سب لوگ ایک جیسے ہوتے اور سب ہی ایک ہی کام سر انجام دیتے تو معاشرہ میں انتشار پھیل جاتا۔ ہر فرد کی اپنی صلاحیت ہے، اپنی پسند ہے، اور وہ اس شعبے میں زیادہ کارآمد ثابت ہو سکتا ہے جس کے لیے وہ پیدا ہوا ہے۔
اس سورۃ کی آیات (19-20) واضح طور پر بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہی فیصلہ کیا ہے کہ کون پیدا ہو گا اور کون مرے گا۔ اسی طرح، وہ یہ بھی فیصلہ کرتا ہے کہ کون کس شعبے میں کام کرے گا۔ یہ تقدیر کا نظام ہے، جس پر انسان کو اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان محنت اور کوشش نہ کرے۔ ہر فرد کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کارلانا چاہیے اور معاشرے کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے۔ لیکن، یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنی حدود کو پہچانے اور اللہ کی مشیت کے سامنے سر تسلیم خم کرے۔
اس بات کو سمجھنے کے لیے ہم فطرت کی طرف رخ کرتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں سورۃ النحل کی آیات (68-69) میں بیان کیا گیا ہے، شہد کی مکھیوں کی مثال پر غور کریں۔ ان کی کالونی میں ایک خاص نظام ہے، جہاں ہر مکھی کی اپنی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ملکہ مکھی، جو مادہ ہوتی ہے، کالونی کی سربراہ ہے اور انڈے دیتی ہے۔ اور دوسری مکھیاں، جو کارکن مکھیاں کہلاتی ہیں، وہ مختلف کاموں کو انجام دیتی ہیں جیسے شہد جمع کرنا، لاروا کی پرورش کرنا، اور چھتے کی صفائی کرنا۔
اسی طرح، حضرت سلیمان علیہ السلام کی کہانی بھی یاد کریں، جیسا کہ سورۃ النمل میں بیان کیا گیا ہے، جب انہوں نے چیونٹیوں کی فوج کو دیکھا۔ چیونٹیوں کی اس فوج میں بھی ایک خاص سلسلہ تھا، جہاں ہر چیونٹی اپنا کام کر رہی تھی۔ یہ فطری مثالیں ہمیں بتاتی ہیں کہ کردار کی تقسیم فطری ہے اور معاشرے کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے۔ مرد اور عورت دونوں ہی معاشرے کے اہم ستون ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو الگ الگ صلاحیتیں اور ذمہ داریاں عطا کی ہیں۔
اسلام میں، عورت کو گھر کی ملکہ سمجھا جاتا ہے اور اسے وہ ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں جو خاندان کی مضبوط بنیادوں کے لیے ضروری ہیں۔ بچوں کی پرورش اور ان کی تربیت ایک بہت ہی اہم کام ہے، جس کے لیے عورت فطری طور پر زیادہ موزوں ہے۔ اس کے علاوہ، گھر کا ماحول اور خاندانی رشتوں کو مضبوط بنانے میں عورت کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
لیکن، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورت معاشرے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی۔ اسلام خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اور باصلاحیت بننے کی ترغیب دیتا ہے۔ وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں، چاہے وہ ملازمت کر کے ہو یا سماجی خدمات سر انجام دے کر۔ تاہم، یہ فیصلہ خاندان کے حالات اور عورت کی ذمہ داریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے لیا جانا چاہیے۔ موجودہ معاشی نظام میں جہاں دونوں فریقوں کا کام کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے، وہاں خاندان کی بنیادیں کمزور پڑ جاتی ہیں اور بچوں کی پرورش متاثر ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ، سستے قرض کی فراوانی نے بھی معاشی فتنے کو بڑھا دیا ہے۔ کریڈٹ کارڈز اور سود پر مبنی قرضوں کا بے تحاشہ استعمال لوگوں کو اسراف کی طرف لے جاتا ہے اور وہ اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرنے لگتے ہیں۔ اس سے معاشی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے اور لوگ دائمی قرض کی پکڑ میں جکڑے جاتے ہیں۔
اس تمام تر بحث کے بعد، ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ موجودہ معاشی نظام مادیت پرستی، حرص، اور عدم مساوات کو فروغ دیتا ہے، جس سے معاشرے میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، اسلامی اقتصادی نظام انصاف، تعاون، اور قناعت پر مبنی ہے۔ زکوٰۃ، صدقہ، اور سود سے پاک معاملات جیسے اصول دولت کی منصفانہ گردش کو یقینی بناتے ہیں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔
اسلامی اقتصادی نظام میں، ہر فرد اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام کرتا ہے اور اللہ کی رضا کے لیے محنت کرتا ہے۔ اس نظام میں مصنوعی طلب اور اسراف کی بجائے سادگی اور کفایت شعاری کو فروغ دیا جاتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ معاشی ترقی ایک اہم مقصد ہے، لیکن اسے روحانی سکون اور اخلاقی اقدار پر قربان نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں ایسی معیشت کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے جو مادیت پرستی کے بجائے انصاف اور تعاون پر مبنی ہو۔
موجودہ معاشی نظام میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ فطری توازن کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ انسان کو لامحدود ترقی اور مسلسل ترقی کی دوڑ میں لگا دیا گیا ہے۔ اس بھاگ دوڑ میں، وہ فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کھو بیٹھتا ہے اور اپنی ذاتی ضروریات اور صلاحیتوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔
اسلامی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ انسان فطرت کا ایک اہم جزو ہے، اور اسے فطرت کے ساتھ ہم آہنگی سے رہنا چاہیے۔ ہمیں اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم لالچ اور حرص کی وجہ سے لامحدود دولت کمانے کی کوشش کریں۔
اس بات کو سمجھانے کے لیے، نبی اکرم نے یہ دعاء سکھای: "میں تجھ سے دولت اور غربت میں اعتدال کا سوال کرتا ہوں۔” (حصن المسلم) یعنی ” کفایت شعاری ہی غنی ہونے کے لیے کافی ہے”۔ اس دعائکا مطلوب یہ ہے کہ ضروریات پوری کرنے کے لیے جتنا کم خرچ کیا جائے، وہی بہتر ہے۔ اسراف اور فضول خرچی سے بچنا چاہیے، کیونکہ یہ نہ صرف معاشی مشکلات کا باعث بنتا ہے، بلکہ روحانی سکون کو بھی چھین لیتا ہے۔
اسلامی تعلیمات میں قناعت اور شکر کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ قناعت کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں پر راضی رہنا اور ان کی قدر کرنا۔ جب انسان قناعت کی زندگی گزارتا ہے، تو وہ حرص اور لالچ سے پاک ہوتا ہے، اور اسے اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح، شکر کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہر نعمت پر اس کا شکر ادا کرنا۔ شکر ادا کرنے سے اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں مزید بڑھتی ہیں۔
موجودہ معاشی نظام میں، مارکیٹنگ کی یلغار اور مصنوعی ضروریات پیدا کرکے لوگوں کو قناعت اور شکر سے دور کر دیا گیا ہے۔ لوگوں کو ہمیشہ یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان کے پاس کچھ کمی ہے، اور وہ زیادہ سے زیادہ خرچ کریں تاکہ خوشی حاصل کر سکیں۔ لیکن، یہ ایک فریب ہے. سچی خوشی مادیت میں نہیں، بلکہ اللہ کی رضا اور قناعت میں ہے۔
اس معاشی فتنے سے نجات پانے کے لیے، ہمیں تعلیم اور شعور کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو اسلامی اقتصادی نظام کے بارے میں سیکھنے کی ضرور ت ہے تاکہ وہ موجودہ نظام کے نقصانات کو سمجھ سکیں۔ اس کے علاوہ، ہمیں اپنی ذاتی زندگیوں میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اسراف اور فضول خرچی سے بچنا چاہیے اور سادہ زندگی اختیار کرنی چاہیے۔ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کفایت شعاری سے کام لینا چاہیے۔
اس تبدیلی کو خاندان کی سطح پر بھی شروع کیا جا سکتا ہے۔ بچوں کو بچپن ہی سے قناعت اور شکر کی اہمیت سکھانے کی ضرورت ہے۔ انہیں یہ بتانا چاہیے کہ خوشی مادی چیزوں میں نہیں، بلکہ اللہ کی رضا اور اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گزارنے میں ہے۔
یہ تبدیلی آسان نہیں ہو گی، لیکن یہ ضروری ہے۔ ہمیں اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ حقیقی ترقی وہ ہے جو ہمیں دنیا اور آخرت میں فلاح بخشے۔ ہمیں ایسی معیشت کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے جو انصاف، تعاون، اور روحانی اقدار پر مبنی ہو۔ یہ وہی راستہ ہے جو ہمیں سکون اور استحکام کی طرف لے جا سکتا ہے۔
اس جامع تجزیے کے اختتام پر، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ معاصر اقتصادی نظام ایک فتنہ ہے جو انسانوں کو مادیت پرستی، حرص، اور عدم مساوات کی طرف لے جا رہا ہے۔ اس نظام کے نتیجے میں سماجی انتشار، اخلاقی زوال، اور روحانی بیسکونی پیدا ہو رہی ہے۔
اس فتنے سے نجات پانے کے لیے، ہمیں اسلامی تعلیمات کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے، جو ہمیں قناعت، شکر، اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کی اہمیت سکھاتی ہیں۔ ہمیں اپنی ذاتی زندگیوں میں تبدیلی لا کر اور اسلامی اقتصادی نظام کو اپنا کر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کرنی چاہیے جو انصاف، تعاون، اور روحانی اقدار پر مبنی ہو۔
یہ تبدیلی راتوں رات نہیں آئے گی۔ اس میں وقت اور مسلسل کوششوں کی ضرورت ہے۔ لیکن، اگر ہم اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں اور اس کی راہ پر چلیں تو ضرور کامیاب ہوں گے۔ یہ مضمون ان تمام مسلمانوں کے لیے ایک بے ہوشی سے جاگنے کی گھنٹی (wake-up call) ہے جو موجودہ معاشی نظام کے منفی اثرات سے پریشان ہیں۔ یہ تبدیلی انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر ہونی چاہیے۔ ہم سب مل کر اس فتنے کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہو۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا