جھوٹ کی کھیتی زیادہ نہیں پھلتی پھولتی

0
73

۰۰۰
بینام گیلانی
۰۰۰
ارض ہندوستان کو سادھو سنتوں ،پیر و مرشد،بودھ اور مہاویر کی سرزمین کہا جاتا ہے۔متذکرہ بالا تمام اسمائے گرامی سے جو ایک بات ثابت ہوتی ہے۔وہ یہ ہے کہ مذکورہ سرزمین حق پسندوں اور حق گویوں کی رہی ہے۔یہی سبب ہے کہ آج صدیاں گزر جانے کے بعد بھی ان قدیم سادھو ،سنتوں ،پیروں موشدوں ، بدھ اور مہاویر کو نہ صرف یاد کیا جاتا ہے بلکہ ان کے تئیں عقیدت و احترام کا اظہار بھی کثرت سے ہوتا رہتا ہے۔گرچہ بدھزم اور جینزم کوئی مذہب نہیں ہے بلکہ ایک صاف و شفاف راہ حیات ہے۔اسلام ایک مذہب تو ہے لیکن اس نے سدا خیر کی مثبت بات کی ہے۔اس نے کبھی بھی شر کی یا منفی باتوں کا اظہار نہیں کیا۔نیز چونکہ یہاں وحدانیت کا تصور بہت مستحکم ہے اس لئے جنگ و جدال کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔علاوہ ازیں اسلام میں صرف ایک ہی جنم ہے لیکن بعد از مرگ بھی ایک نئی زندگی کا تصور ہے نیز بروز محشر حساب و کتاب کا یقین ہے۔ اس لئے کسی مسلمان کے ذریعہ اپنی خدائی کے دعوے کا کوئی اندیشہ بھی نہیں ہے۔اب کذب گوئی،مکر و فریب اور تشدد و استبداد و استحصال کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام ایک بیضرر مذہب ہے۔جس سے کسی کو کوئی خطرہ یا اندیشہ نہیں ہے۔یہ دنیا جانتی ہے کہ جہاں خیر کی باتیں ہوتی ہیں وہاں دام شر بھی پھیلا ہوتا ہے۔چنانچہ بودھ ،جین اور اسلام کی مخالفت بھی یہاں بہت بڑے پیمانے پر ہوتی رہی ہے۔بودھ اور جین کی تاریخ تو محض 3000 سال کی ہے لیکن اسلام کی تاریخ بہت قدیم ہے۔یوں تو اسلام کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ہوتا ہے لیکن جدید اسلام کو بھی قریب 1400 سال گزر گئے۔چنانچہ اسلام سے حسد اور جلن کی تاریخ بھی قدیم ہے۔یہ حق ہے کہ بدھزم اور جینزم کو ئی مذہب نہیں ہے۔بلکہ ایک راہ حیات(پنتھ) ہے۔جس پر چل کر انسان کے ذریعہ ایک پر سکون زندگی گزاری جا سکتی ہے۔یعنی یہاں جیو اور جینے دو والا معاملہ عمل پزیر ہوتا ہے۔جب تک اسلام،بدھزم اور مہاویر کے پنتھ پر لوگ گامزن رہے۔اقلیم ہند میں نہ مذہبی منافرت کا نام و نشان تھا اور نہ ہی عدم رواداری کا احساس۔بلکہ باہمی محبت،بھائی چارہ ،ہم آہنگی کو ہر مقام پر برتری و مقبولیت حاصل تھی۔۔چونکہ درج بالا انسانی صفات عالیہ اعلیٰ اقدار کی حاملین رہی ہیں۔اس لئے کچھ حاسدوں نے ان سے عناد رکھنا شروع کر دیا۔بلکہ ان اعلیٰ صفات جو اعلیٰ اقدار کی حاملین رہی ہیں ،ان کے حاملین کا قتال بھی حاسدوں نے بڑی ہی سفاکی و بیدردی سے کیا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے سفاک و بیدرد لوگ کون تھے۔یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے اپنی کذب گوئی کے بل پر محض ایک داستان کو دھرم کا روپ دے دیا اور اس دھرم کو اس لئے وجود بخشا کہ خود کو معاشرے میں افضل اور قابل احترام ثابت کیا جائے۔چونکہ داستان کی کہانیاں تخیلاتی ہوتی ہیں۔انہیں حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے۔چنانچہ اس داستان کی کہانی بھی تخیلاتی ہی ہے اور سارے کردار تصوراتی ہیں۔داستان نویسی کا مقصد صرف تفریح طبع ہوا کرتا تھا لیکن یہاں تفریح طبع نہیں بلکہ معاشرے کے بیشتر افراد پر غلبہ حاصل کر کے انہیں بیبس و محکوم و مجبور بنانا تھا چنانچہ اس داستان میں کوئی بھی ایسی بات نظر نہیں آتی جس سے عام انسانوں کی بھلائی ہو سکے۔اس داستان میں صرف برہمنوں اور سورنوں کے مفاد کا خیال رکھا گیا ہے۔دیگر ورنوں کو بذریعہ جبر و تشدد زیر رکھنے کی تلقین ہے۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ زیریں ورنوں کی بہو بیٹیوں کو بھی سورنوں کا کھلونا بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ایسے میں تو معاشرے کی بھلائی کا تصور بھی بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔سورن اور برہمن معاشرہ آج بھی اسی تخیلاتی و تصوراتی طرز معاشرت پر عمل پیرا ہے۔یوں تو ان برہمنوں اور سورنوں کا یہ رویہ صدیوں سے جاری ہے۔لیکن عہد مغلیہ میں اس پر کسی حد تک قدغن لگا تھا۔کیونکہ عہد مغلیہ میں سبھوں کے حقوق مساوی کر دئے تھے۔جبر و مظالم کو قابل تعزیر میں شامل کر لیا گیا تھا نیز بہو بیٹیوں کی عصمت و عفت کو یقینی بنایا گیا تھا۔معاصر دور میں بھی عدل جہانگیر بہت مشہور ہے جسے مٹانے کی کوشش میں وہی سورن اور برہمن مصروف ہی نہیں بلکہ سرگرداں و پریشاں ہیں۔
چلئے ماضی میں جو جھوٹ کا کار و بار چلا سو چلا۔جس کا خمیازہ سناتن سماج آج تک بھگت رہا ہے اور مستقبل قریب میں بھی اس سے نجات کی کوئی امید نظر نہیں آتی ہے۔ویسے تو قبل آزادء ہند بھی یہ موجود تھا۔لیکن چونکہ آزادی کے بعد اس موضوع پر ان فرقہ پرستوں کو کوئی روکنے اور ٹوکنے والا کوئی نہیں رہا۔اس وقت کا حکومتی طبقہ یعنی کانگریس کو بھی ووٹ کی پڑی تھی۔چنانچہ اس نے بھی کبھی فرقہ واریت کی مخالفت نہیں کی۔نتیجہ کے طور پر وطن عزیز میں مسلم کشی عمل پزیر ہوتی رہی اور حکومت وقت تماشائی بنی تماشا دیکھتی رہی۔ اس دور میں بھی کسی کو اس جرم کی پاداش میں کبھی کوئی سزا نہیں ہوئی۔اج وہی کانگریس سیکولرزم کی دہائی دے رہی ہے۔کبھی اس نے خود اپنے گریبان میں جھانکنا ضروری سمجھا ہی نہیں ہے۔یہ تو الگ بات ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ کانگریس کے عہد میں فرقہ واریت میں اس قدر شدت نہیں تھی۔جتنی کہ سن 2014 کے بعد اس میں شدت آئی ہے۔اس وقت بھی مذہبیت میں اس قدر شدت نہیں تھی جتنی شدت 2019 کے بعد نظر آئی۔اس مذہبی شدت پسندی سے تو وطن عزیز کے مسلمان و کرشچن متاثر ہوئے لیکن جو کذب گوئی کا دور 13 -2012 سے شروع ہوا اس کی زد میں سارا ہندوستان ہی اگیا۔قدم قدم پر جھوٹ اور جھوٹ بھی اتنا بڑا بڑا کہ عام انسان کو مجبوراً ان جھوٹوں پر یقین کرنا پڑا۔کیونکہ وہ جھوٹ تھے ہی بہت بڑے بڑے۔ان جھوٹ سے متوسط اور نچلے طبقے کی زندگی پر بہت ہی مثبت اثرات مرتب ہو سکتے تھے۔مثال کے طر پر ہر گھر کو پندرہ لاکھ رہئے دئے جائیں گے،گرانی کم کی جائے گی،کسانوں کی آمدنی میں دوگنا اضافہ کیا جائے گا،نوجوانوں کو ہر سال دو کروڑ نوکری دی جائے گے،ہندوستان کی معیشت کو تین ٹریلین کا کیا جائے گا۔درج بالا وعدوں کے پورا ہونے سے ہندوستان کی تصویر ہی بدل سکتی تھی۔لیکن افسوس متذکرہ بالا وعدہ کرنے والی سیاسی جماعت جب برسر اقتدار آئی تو یہ اپنے سارے وعدے فراموش کر گئی اور کہ دیا کہ وہ سب تو انتخابی جملے تھے۔اس ایک جھوٹ نے کتنوں کے خواب کو چکنا چور کر دیا۔اسے صرف یہ باتیں ذہن نشیں رہیں کہ کسی بھی طرح مسلمانوں کو برباد کرنا ہے۔معلوم نہیں ان سر پھروں کو مسلمانوں سے کیسی ازلی عداوت ہے کہ ان کی تباہی کے لئے انہوں نے تمام جمہوری اقدار اور اصول و ضوابط نیز آئین ہند کو بھی طاق پر رکھ دیا۔جس طرح ہجومی تشدد اور بلڈوزر سے مسلمانوں کے مکانات کے انہدام کا مظاہرہ کیا گیا۔ان کے مشاہدے سے یہ محسوس ہونے لگا گویا ہندوستان ایک غیر جمہوری ملک تو ہے ہی۔اسی کے باہم یہاں آئین نام کی کوئی شئے دستیاب نہیں ہے۔بس دو انسانوں نے مل کر پورے اقلیم ہند کو یرغمال بنا رکھا ہے۔جیسے یہ وطن ان دونوں ہی افراد کی زاتی جاگیر ہو۔ جس طرح سے مسلمانوں کی ایذا رسانی کی گئی ہے۔اس نے ایک تاریخ کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔افسوس کا مقام تو یہ کہ اس معاملے میں دوسری اقوام نے بھی خاموشی یوں اختیار کر رکھیں گویا کچھ ہو ہی نہیں رہا ہے۔ اس کا سبب یہ فہم میں آیا کہ مسلمانوں کی ایذارسانی کے لئے ہر بار ایک نیا جھوٹ ایجاد کیا گیا اور دوسرے اقوام کو ایک جھوٹا خواب دکھایا گیا۔یعنی حکومت حاضرہ نے جھوٹ کی بنیاد پر حکومت قائم کی حکومت کو دس سالوں تک برقرار رکھا اور پھر ایک دفعہ پانچ سالوں کے لئے حکومت کو برقرار رکھنے کے لئے ہر روز ایک نئے جھوٹ کی ایجاد مسلسل جاری ہے۔لیکن اس دفعہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ جھوٹ کا کار و بار کار گر نہیں ثابت ہونے جا رہا ہے۔اب حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں کو یہ یقین ہو گیا ہے کہ اگر یہ حکومت مزید برقرار رہی تو ان کا وجود برقرار رہنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جائیگا۔یہی سبب ہے کہ ساری حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں متحدہ طور پر اپنی پوری قوت کے ساتھ میدان جنگ میں اتری نظر آرہی ہیں۔اب ان میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ نظر آرہا ہے۔اس کے لئے یہ قربانی و ایثار کو بھی راہ دیتی نظر آتی ہیں اور مر مٹنے کے لئے تیار بھیہیں۔چنانچہ اس دفعہ کا نگریس کے رویہ میں نمایاں تبدیلی نظر آرہی ہے۔شاید حالات کے تقاضوں کے تحت اس کے احساس برتری کی شدت میں کافی کمی نظر آرہی ہے۔اس نے سیٹوں کی تقسیم میں بہت بڑا سمجھوتہ کیا ہے۔یہ ہر حال میں اس دفعہ یہ حکمران جماعت سے دو دو ہاتھ کرنے کا عہد کر رکھا ہے۔ہو بھی کیوں نہیں۔حکمران جماعت نے سب سے پہلے تو عوام کو دھرم کی کونین ایسا پلا ڈالا ہے کہ عوام کو اس سے نکالنا بہت مشکل ثابت ہو رہا تھا۔دوسری جانب کانگریس کے خلاف ایسی ایسی جھوٹی کہانی گڑھی گئی کہ کوئی بھی انسان اس سے متنفر ہو سکتا ہے۔پھر حکمران جماعت نے کانگریس سے مسلمانوں کو اس طرح وابستہ کر دیا کہ کانگریس ہندوستان کی تمام معیشت مسلمانوں کے حوالے کر دے گی۔اس کے لئے یہ ہندو خواتین کا منگل سوتر تک ان سے چھین کر مسلمانوں کے حوالے کر دیگی۔یہ سارا کھیل ذرائع ابلاغ کے ذریعے کھیلا جا رہا تھا۔
کانگریس کا جو مینوفیسٹو منظر عام پر آیا۔اسے پڑھ کر عوام حیرت زدہ رہ گئے کہ کانگریس نے تو اپنے مینوفیسٹو میں عوامی بھلائی اور ملکی ترقی کی بات کی ہے۔ اس میں مسلمانوں کی منہ بھرائی کی تو کوئی بات ہی نہیں ہے۔ تب سبھوں کے کان کھڑے ہوئے۔اب عوام اس جھوٹ اور مکر و فریب کا جواب اپنے حق رائے دہی کے ذریعہ دینے کے لئے کمر بستہ نظر آ رہے ہیں۔درج بالا تمام امور مسلم مگر حکمران طبقہ اپنے بیان و رجحان میں کسی تبدیلی کی جانب مائل نظر نہیں آ رہا ہے۔اس کا سبب اس کی حد سے زیادہ خود اعتمادی اور تمام آئینی اداروں میں براجمان ان کے ہم خیال ہی نہیں بلکہ زرخرید غلامان ہیں۔انہیں یہ یقین ہے کہ ان غلاموں کو جو اتنے بڑے بڑے عہدے سے نوازا گیا ہے۔ یہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیں گے کہ ہماری شکست بھی فتح میں تبدیل ہو جائے۔ اس سلسلے میں عوام نے ED اور CBI کا رویہ تو دیکھ ہی لیا ہے کہ کسی نہ کسی جھوٹے الزام کے تحت حزب مخالف کے لیڈران گرفتار کیا گیا۔ان میں تو کچھ حکمران جماعت کے ساتھ ہو لئے۔اب وہ بھی بالکل صاف و شفاف شبیہ والے بیداغ لیڈر ہو گئے۔اب ان کے خلاف جتنے بھی الزامات تھے سب خود بخود دھل گئے۔لیکن جنہوں نے حکمرانوں کے سامنے خود سپردگی نہیں کی وہ یا تو سلاخوں کے پیچھے ہیں یا پھر انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کی کوشش جاری ہے۔انتہا تو یہ ہے کہ ان کے حکم کی پابند پولس کے علاؤہ کسی حد تک عدلیہ بھی کر رہی ہے۔اب ایسے میں تو حکومت کی مخالفت سخت مشکل امر ہو کر گئی ہے۔
جہاں کسی نے مخالفت کی قومی تحفظ ایکٹ کے تحت اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اس ایکٹ میں تو ضمانت کا ضابطہ بھی نہیں ہے۔یعنی جو گیا وہ طویل مدت کے لئے گیا۔حیرت انگیز امر تو یہ ہے کہ اس شخص کی خطا قومی تحفظ ایکٹ کے تحت آتی ہی نہیں ہے چونکہ اس ایکٹ کے تحت گرفتاری کے لئے فوری طور پر کسی ثبوت کی ضرورت درپیش نہیں ہوتی ہے۔ بس الزام عائد کرو اور گرفتار کر لو۔چنانچہ اس ایکٹ کے تحت کتنے ہی ایسے لوگ گرفتار ہیں جن پر جھوٹ کا الزام عائد کیا گیا ہے۔بیچارے بیگناہی کی سزا جھیل رہے ہیں۔اللہ ہی رحم فرمائے ان بیگناہوں پر جنہیں جھوٹ کی بنیاد پر گناہگار قرار دیا جاچکا ہے۔ایسے میں حزب اختلاف کے لیڈران کے علاؤہ عام عوام کی بھی خیر نہیں ہے۔یعنی حکمران جماعت اب کھل کر نازی طرز عمل اختیار کئے ہے۔اس کی کوئی بھی بات حقیقت پر مبنی نہیں ہوتی ہے۔ایک جانب یہ نازیت اختیار کئے ہے تو دوسری جانب اہل فرنگ کی مانند پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کے اصول پر گامزن ہے۔اس حکمران طبقہ سے اگر ہندو مسلمان،ہندوستان پاکستان اور مندر مسجد جیسے موضوعات چھین لئے جائیں تو پھر اس طبقہ کے پاس کچھ کہنے کے لئے بچا ہی نہیں ہوگا۔کیونکہ گزشتہ دس سالوں میں اس نے وطن یا وطن کی معیشت کے فروغ کے لئے کچھ کیا ہی نہیں ہے۔اس کا سارا وقت تو ہندوستانی معاشرے کو تقسیم کرنے میں گزر گیا۔مذہبی منافرت کو فروغ دینے میں گزر گیا اور اقتصادی طور پر وطن عزیز کو کھو کھلا کر نے میں گزر گیا۔اج ہندوستان فی کس آمدنی کے معاملے میں بنگلہ دیش سے بھی بدتر ہے،عالمی ہنگر انڈیکس میں یہ 30 ویں نمبر سے 111ویں نمبر پر آ گیا۔
ڈالر کے مقابلے ہندوستانی روپئے کی قدر اس قدر کم ہو گئی ہے کہ کتنے ہی ممالک کے بینک ہندوستانی روپئے کو اپنے مقامی کرنسی سے تبدیل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔یہ ہے ہندوستان کے حکمران کا تین ٹریلین کی معیشت کے دعوے کی حقیقت۔مگر یہ لوگ آج بھی کذب گوئی سے باز نہیں آرہے ہیں۔اب عوام ان کے قول و فعل سے واقف ہو چکے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ اس دفعہ کے قومی انتخاب پر اس کا اثر مرتب ہوتا ہے یا نہیں۔
[email protected]
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا