خاکی گیدڑبھیڑئے!

0
62
  • صوبہ جموں کوصدیوں سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کاگہوارہ رہاہے،دن بدن صورتحال بدترین رُخ اختیارکرتی جارہی ہے،مختلف فرقوں کے مابین نفرت اورخلیج ایک بھیانک رُخ اختیارکرتی جارہی ہے،کٹھوعہ نفرت کی اس آندھی کادارالخلافہ بنتاجارہاہے، یہاں کی سیاسی اوردوسری انتہاپسندتنظیمیں نوجوان نسل کے ذہنوں کونفرت کے زہرسے آلودہ کرنے میں کوئی کسرباقی نہیں چھوڑرہی ہیں تاکہ ان کی سیاست چمکتی رہے اوران کاسیاسی مستقبل سنورتاچلاجائے، رسانہ معاملہ ابھی عدالت میں ہے، نفرت کے بیج بونے والے دِن رات ایک کررہے ہیں، اِسی نفرت کے نتیجے میں ااقلیتی طبقہ کے یک اورنوجوان کاقتل اکثریتی طبقہ کے شرپسندوںنے قتل کردیا،نفرت کی گہرائی کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ جھگڑامعمولی سے بات پرہوا،لیکن عدم تحمل کی تمام حدیں پارکرتے ہوئے ان غنڈہ ذہنیت عناصرنے اُس شخص کوچاقوئوں سے گوددیاجوجھگڑاچھڑانے بیچ میں آیاتھا، اصل لڑائی جن نوجوانوں کے درمیان ہوئی وہ بھی کوئی بڑامسئلہ نہ تھابلکہ محض 500روپے کی بات تھی، اقلیتی طبقہ کے نوجوان نے اکثریتی طبقہ کے اپنے جان پہچان کے ایک نوجوان کو کبھی500روپے اُسکی ضرورت پریامانگنے پردئیے ہونگے، کافی عرصے بعداچانک ملاقات ہونے پراُسے وہ پانچ سوروپے واپس لوٹانے کامطالبہ کرتاہے توجیسے اُس نے کوئی گناہ کردیاہے، آگے سے اُسے ماردینے کی دھمکی دی جاتی ہے، جس سے اس بات کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ آج کی نوجوان نسل کے دِل میں نفرت کازہرکتناپھیلایاجاچکاہے،نفرت اورغفلت کاسلسلہ یہیں نہیں تھما، افسوسناک ، شرمناک اورحیران کن رویہ خاکی وردی پہننے والوں کاہے، جن کاکام عوام کو جرائم پیشہ افراد سے محفوظ رکھنااور سماج کو جرائم سے پاک ماحول مہیاکراناہے، لیکن یہاں لیاقت علی نامی شخص کے قتل کی دن دھاڑے پیش آئی واردات میں پولیس مکمل طورپراپنی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے ذمہ دارہے، عینی شاہدین کے مطابق جب شرپسندی پہ آمادہ نوجوانوں نے عابد نامی ایک طالب علم کو جب مارنے کی دھمکی دی جس نے 500روپے لوٹانے کیلئے کہاتھا‘توپولیس کوطلب کیاگیا، پولیس اہلکار موقع پرپہنچے، جان سے ماردینے کی دھمکی دینے والے نوجوان وقتی طورپروہاں سے رفوچکرہوگئے لیکن پولیس نے ان کی تلا ش کے بجائے انتہائی غیرسنجیدگی کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنی مجرمانہ غفلت اورپیشہ ورانہ نااہلی کاثبوت پیش کرتے ہوئے نوجوان کو گاڑی میں گھماکرایک چکرلگانے کے بعد وہیں چھوڑدیااورواپس تھانے چلے گئے، ان کے جاتے ہی ایک گاڑی میں سوارقریب چارلوگ وہاں پھرنمودارہوگئے اورپوری تیاری کیساتھ تیزدھارہتھیارلاٹھیاں اورڈنڈے لیکرآئے،اورآتے ہی عابدنامی طالب علم کومارناپیٹناشروع کردیا، اس بیچ لیاقت علی نامی نوجوان جووہیں دُکان چلاتاتھا،انہیں لڑائی سے منع کرنے اوربات چیت سے تنازعہ حل کرنے کی صلاح دینے لگے ، اس بیچ ہاتھاپائی کی نوبت آئی اور شرپسندعناصرنے نفرت کی آگ بجھانے کیلئے اِسی لیاقت علی پروارکردیاجولڑائی جھگڑانہ کرنے کی تلقین کررہاتھا،شدیدزخمی حالت میں چھوڑکرتمام حملہ آورفرارہوگئے اوربعد ازاں مقامی اسپتال میں پہنچائے گئے لیاقت علی کو گورنمنٹ میڈیکل کالج اسپتال بخشی نگر منتقل کیاگیالیکن وہ راستے میں ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ بیٹھااور نفرت کی آندھی نے ایک اورچراغ بجھادیا،رسانہ معاملے میں پولیس نے اپنامذموم چہرہ دکھایا، اِسی پولیس کی خای وردی پہننے والوں نے نہ صرف ننھی بچی کیساتھ درندگی کی بلکہ ثبوت مٹانے اورقاتلوں کوبچانے میں بھی کوئی کسرباقی نہ چھوڑی، اب بلاورمیں لیاقت علی کے قتل کی واردات میں بھی پولیس براہ راست ذمہ دارہے، پولیس نے اگرپہلی شکایت اوروہاں پہنچنے کے بعدحملہ آوریاقتل کی دھمکی دینے والوں کو گرفتار کیاہوتا، ان کی تلاش کی ہوتی تویقیناان نوجوانوں کاجھگڑاصلاح مشورے وآپسی گفت وشنیدسے حل ہوگیاہوتا، لیکن پولیس اہلکار رسم نبھانے آئے اورچلے گئے جیسے کٹھوعہ کی ننھی بچی کی گمشدگی کی رپورٹ کے بعد ایک چکرلگانے گائوں آئے اورچلے گئے، ویسے ہی لیاقت علی کے معاملے میں بھی پولیس نے غفلت برتی اور ایک شہری کاقتل ہوگیا، پولیس سربراہ کوخاکی وردی پہنے گیدڑوں وبھیڑئیوں کواورکالی بھیڑوں کوپہچان کرباہرکرناچاہئے،پولیس کی اس نااہلی پرکم از کم ایک تویٹ توکرلیناچاہئے کیونکہ وہ ٹویٹ کرتے ہیں، پولیس نے ملزمان کو گرفتار کیالیکن کیابہترہوتااگرانہیں قتل کی واردات انجام دینے سے پہلے گرفتاری کاموقع ملنے کے باوجودگرفتار کرلیاہوتا۔ایسی پولیس گیری پرافسوس اورانتہائی شرمناک نااہلی وغفلت سماج کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا