تعلیمی معیارآج بھی ایک چیلنج

0
82

ہمارے یہاں کا تعلیمی نظام محتاج تعارف نہیں ہے ۔ یہاں جب جو بھی حکومتیں آئی ہر طرف جموں وکشمیر کو اونچائی پر پہنچانے کی کوشش کی گئی لیکن صرف سرکاری تعلیمی نظام کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے دعوے بستر مرگ پر رہے ہیں ۔ سرکاری تعلیمی نظام اس قدر خستہ حالی کا آج بھی شکار ہے کہ درجنوںکی تعداد میں آج بھی جموں وکشمیر کے طول و عرض میں ایسے اسکول ہیں جن میں ایک بھی بچہ انرول نہیں ہے ۔تعلیم انسان کو اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لاتی ہے۔عالمی سطح پر تعلیم کے سلسلے میں کاوشیں کی جا رہی ہیں۔وطن عزیز میں نئی تعلیمی پالیسی کو لاگو کرنے کی کوشش جاری ہے جس کیلئے سرکاری سطح پر کئی اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ تعلیم کے سلسلے میں کئی ساری اسکیمیں بھی شروع کی گئی ہیں تاکہ تعلیم سے کوئی بھی محروم نہ رہے۔ لیکن دنیا بھر میں لاکھوں بچے ایسے ہیں جو اسکول نہیں جاتے اور تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم ہیں۔ ہمارے ملک کے مختلف علاقوں میں بھی کم شرح خواندگی ایک مسئلہ ہے جس کی ایک بڑی وجہ تعلیم اور اس کی اہمیت کے بارے میں اگاہی نہ ہونا اور ناقص تعلیمی نظام بھی ہے۔ اگر چہ جموں و کشمیر میں بھی تعلیم کے سلسلے میں کئی اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں لیکن اج بھی کئی ایسے اسکول ہیں جو چھت کے منتظر ہیں جو بنیادی سہولیات کے فقدان کا سامنا کررہے ہیں۔شرح خواندگی بڑھانے کے لیے تعلیمی سلسلے کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ خواندہ افراد کی کارکردگی ہی ہر شعبے میں بہتر ہوتی ہے۔اگر خواندگی میں بہتری نہ ائی تونسلوں کو اسکا خمیازہ بگتنا پڑھے گا۔جہاں اس نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے وہیں نجی تعلیمی ادارون میں اصطلاحات کی ضرورت ہے جموں وکشمیر میں اسکولوں کا ایک جال بچھا ہے لیکن کہی صرف عمارت ہے اساتذہ نہیں ہیں اور کہی اساتذہ ہیں اور طلبہ کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبو ر ہیں ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا