حسنین ساحر کی نظم ’’دو چہرگی‘‘ کا سماجی سیاق

0
244

۰۰۰
(از سعدیہ عاشق)
۰۰۰
ایک انسان کے تین چہرے ہوتے ہیں۔ اس کا ایک چہرہ اپنے گھر والوں کے لیے ہوتا ہے، دوسراگھر سے باہر دکھانے کے لیے جب کہ تیسرا وہ چہرہ ہوتا ہے جووہ کسی کو نہیں دکھاتا۔ یہی تیسرا چہرہ اس کا حقیقی چہرہ ہوتا ہے۔ ہم اپنے اطراف میں دیکھتے ہیں کہ ہر کوئی اپنا مثبت عکس دکھاتا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ان کے دلوں میں زہر ہوتا ہے لیکن زبان پر مٹھاس ہوتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اچھے برے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ سبھی برے نہیں ہوتے۔ لیکن فی زمانہ اکثریت کے ظاہر و باطن میں تضاد ہے۔ اسی تضاد نے معاشرے کو حسن و قبیح میں بانٹ رکھا ہے۔انسان اشرف المخلوقات ہے مگر اس نے اپنے چہرے پر مصنوعی خول چڑھا کر اپنے کردار کو اپنے شایانِ شان لانا چھوڑ دیا ہے۔ ہر دور میں انسان منافق رہا ہے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی منافقین سامنے آتے رہے اور اس کی ایک مثال مسجدِ ضرار ہے۔ اور یہی منافقت ہی تو تھی جس کے لیے اقبال نے فرمایا: اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ دیگر بہت سے شعرا نے بھی بہروپی انسان کو موضوع بنایا۔ اسی سلسلے میں ایک نام ’’حسنین ساحر‘‘ کا بھی ہے، جنھوں نے متعدد مقامات پر اس موضوع کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔ انھوںنے معاشرے کی اس برائی کو بہت عمدگی سے موضوع بنایا ہے: جھوٹ نے پہنے ہوئے ہیں سچ کے شاہانہ لباس دیکھتی ہے آنکھ ساحر کیسے کیسے شعبدے انسان سچائی اور جھوٹ کا ایسا لباس پہنے ہوئے ہے کہ جس کو پہچاننا مشکل ہو چکا ہے۔ حسنین ساحر کے مطابق: کیسے کیسے چہرے ہیں انسان کے چہرے کے پیچھے نیا چہرہ ملا اسی طرح حسنین ساحر کی ایک مشہور نظم ’’دوچہرگی‘‘ میں وہ انسان کے دو چہروں کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کی نظم شروع ہی حسرت سے ہوتی ہے اور وہ حسرت کا اظہار ان الفاظ میں کرتے دکھائی دیتے ہیں: کوئی تو ایسا ہو جو کچھ ایسی کہانی لکھے کہ جس کہانی میں خود ولن ہو حسنین ساحر ایک حقیقت پسند انسان ہیں اور اسی لیے وہ یہ خواہش کرتے ہیں کہ کاش کوئی ایسا ہو جو حقیقت کو پوری سچائی اور دیانت داری سے بیان کرے کیوں کہ یہاں ہر لکھاری خود کو ہیرو قرار دیتا ہے۔ اس نظم کو آگے بڑھاتے ہوئے آپ مزید لکھتیہیں: وہ اپنا کردار اس طرح سے بیاں کرے کہ نہ با وفا ہو،نہ پارسا ہو کوئی تو ایسا ہو جو کچھ ایسا دکھائے جیسے وہ اصل میں ہے کوئی تو ایسا بھی ہو جو اپنی کثافتوں کو قلم کی فیاض ندرتوں کے سپرد کر دے سبھی کی اپنی کہانیاں ہیں کوئی بھی اپنی کہانیوں میں ولن نہیں ہے سبھی ہیں اچھے، سبھی ہیں سچے یہاں کوئی بھی برا نہیں ہے نہ کوئی جھوٹا، نہ بے وفا ہے نہ کوئی خائن ، نہ کج ادا ہے نہ کوئی غاصب ، نہ راہزن ہے مبالغوں کا یہاں چلن ہے سبھی نے اپنی کہانیاں یوں گھڑی ہوئی ہیں کہ ہر کہانی میں دوسروں کو ولن بنا کر دکھا رہے ہیں سبھی کی اپنی کہانیاں ہیں کوئی بھی خود کو ولن بنا کر نہیں دکھاتا کوئی بھی اندر کی اپنی کا لک نہیں بتاتا سچائی میں بہت طاقت ہے اور کسی بھی معاشرے میں بگاڑ یا سدھار سچائی کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔ حسنین ساحرنے بھی اپنی اس نظم میں یہ کہنے کی سعی کی ہیکہ کاش انسان حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اپنے کردار کو ویسے ہی پیش کرے جیسے وہ حقیقت میں ہے۔ اگر وہ ہیرو نہیں ہے اور ولن ہے تو وہ اپنا کردار ویسے ہی سامنے لائے۔ حسنین ساحر خواہش کرتے ہیں کہ انسان جب اپنا کردار پیش کرے تو نہ خود کو باوفا کہے نہ پارسا کہے بس جو جتنا زنگ آلود ہے ویسا ہی خود کو پیش کرے۔ ورنہ کہانیوں میں دوچہرگی کی وجہ سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہاں کوئی جھوٹا ، بے وفا ، بد نیت ، بے مروت
، غاصب و خائننہیں ہے تو پھر برا کون ہے؟ ولن کون ہے؟ ہر ایک کی اپنی من گھڑت کہانی ہے جو اصل کہانی پر پردہ ڈالے ہوئے ہے، کوئی بھی خود اپنی سچائی کو من و عن بیان نہیں کرتا اور کوئی بھی اپنے اندر کی سیاہی نہیں دکھاتا۔ یہ حسنین ساحرتمنا کرتے ہیں کہ انسان کا باطن اور ظاہر ایک سا ہو۔ اس کے داخل و خارج میں تضاد نہ ہو۔ دو چہروں کی وجہ سے انسان کی حقیقی شناخت ناممکن ہے۔ اس انسان کو کیسے پہچانا جا سکتا ہے جس نے خود پر ایک مصنوعی لبادہ اڑھ رکھا ہو۔ اس نے اپنے آپ کو باوفا، باکردار، پارسا، نیک ،متقی اور پرہیزگار بنا کر سامنے لایا ہو اور اس نے اپنے اندر کی کوئی بھی برائی سامنے نہیں لائی تو کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے کردار کو بیان کرنے کے لیے غیر جانبداری کا مظاہرہ کر رہا ہے؟ حسنین ساحرنے بہت خوب صورتی سے انسان کو اپنا محاصبہ کرنے اور اپنی اندر کی سیاہی کو تسلیم کرتیہوئے اس کو دور کرنے پر اْکسایا ہے کہ اس میں انسان کی اصل شناخت اور حقیقت کی بنیاد نیک نیتی اور سچائی ہے۔ فنی اعتبار سے بات کریں تو حسنین ساحر نے اپنی اس نظم میں جس خوب صورتی سے اپنے الفاظ کو پرویا ہے وہ یقینا داد کے مستحق ہیں۔ انھوں نے لفظ ’’ولن‘‘ کا استعمال کیا ہے لیکنکہیں بھی لفظ ’’ہیرو‘‘ کا استعمال نہیں کیا۔ لیکن یہ نظم پڑھتے ہی غیر محسوس انداز میں ہیرو کا کردار ولن کے متوازی چلتادکھائی دیتا ہے۔ حسنین ساحر نے اس نظم میں ہیرو اور ولن دونوں کی کردار واضح ہے۔ اس نظم میں باوفا ،پارسا، اچھے اور سچے جیسے الفاظ استعمال کیے گئے جب کہ ولن کے لیے کثافت، جھوٹا، بے وفا،خائن، کج ادا، غاصب اور راہزن کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اور پھر حسنین ساحر نے اپنی اس نظم کا اختتام کرتے ہوئے آخری مصرعے کو اس نظم کے حاصل کے طور پر اٹھاتے ہوئے ان الفاظ میں بات مکمل کی: ’’کوئی بھی اندر کی اپنی کالک نہیں بتاتا

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا