تین افسانچے

0
64

۰۰۰
ش۔شکیل
اورنگ آباد (مہاراشڑ)
9529077971
۰۰۰
(۱)آرادھناکا سکون
راکیش راجیش سے پوچھا ’’کہاں جارہے ہو؟‘‘راجیش بولا ۔’’کہیں بھی نہیں۔۔بس مندر تک جارہا ہوں۔‘‘ راکیش حیرت سے پوچھا ۔’’یہاں کہاں مندر؟‘‘اس پر راجیش بولا۔’’یہاں سے تھوڑی دوری پر ایک نیا مندر بنوایا گیا ہے‘بس وہیں جارہا ہوں۔۔۔وہاں مندر کے آس پاس یا سیڑھیوںپر بیٹھنے سے بڑا سکون ملتا ہے ۔۔۔اس لیے وہاں جارہا ہوں۔‘‘راکیش بولا۔’’ارے یا د آیا۔۔۔مسلم سماج کا پراتھنا استھل تھانا !اُسے توڑ کر ہم لوگوں نے مندر بنوایاہے وہی مندر نا؟‘‘راجیش لمبی سانس لیتا ہوا بولا۔’’وہی مندر۔۔۔پہلے جہاں نیر وکار بھگوان کی آرادھنا ہوتی تھی‘اب آکار مان بھگوان کی آرادھنا کی جارہی ہے۔‘‘راکیش کچھ سوچھتا ہوا بولا۔’’ اس مندر میں ہی سکون کیوں ملتا ہے؟دوسرے مندروں میں کیوں نہیں ملتا؟حالانکہ دوسرے مندر بھی رام کے ہی ہیں۔‘‘راجیش راکیش پر ایک نظر ڈالتا ہوا بولا۔’’ایسا لگتا ہے ہم بھگوان رام کی آرادھنا کررہے ہیں‘لیکن اصل میں ہم مسلم سماج کے ایک ہی بھگوان اللہ کی آرادھنا کر رہے ہیں ‘اس لیے ہمیں آرام و سکون مل رہا ہے۔‘‘
(۲)بھگوان کی مورتی
مندر کے لیے بھگوان رام کی مورتی بنانے کے لیے مشہور مورتی تراش لوگوں کو بُلوا کر کہا گیا۔’’بھگوان رام کی مورتی ایسی ہوجس میں پندرہ سالہ بھگوان رام مسکراتے نظر آئیں۔ایسے اسکیچ ہمیں دیں‘جس کا اسکیچ پاس ہوگا ہم اُسے بھگوان رام کی مورتی بنانے کا آڈر دے دنگے ۔‘‘ بہت سارے مورتی تراش نے اپنا اپنا اسکیچ مندر والوں کے پاس بھیج دیا۔اُس میں ایک اسکیچ پاس ہو گیااور اُسے بھگوان رام کی مورتی تراش نے کا آڈر دے دیا گیا۔مورتی تراشنے والے کو خطیر رقم بطور انعام دی گئی۔اُس رقم میںسے کچھ رقم مورتی تراش نے ایک مسلم نوجوان کو دے دی ۔کیونکہ بھگوان رام کا مسکراتا ہوااسکیچ وہ مسلم نوجوان نے اپنے خوبصورت بیٹے کو جو کہ مسکراتا بھی بہت خوبصورت تھا اُسے دیکھ کر بنایا تھا۔ بھگوان رام کی مورتی تراشنے میں بھی اُسی نے مدد کی تھی۔ادھر دونوں دوست ا یک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔اُدھر مندر میں بھگوان رام مسکرا تے کھڑے تھے۔چاروں میں حقیقی بھگوان رام کون ہے‘اب بھی سوال اپنی جگہ مسکراتا کھڑا ہے۔
(۳)سالگرہ
’’تیرے واڑ دیوس پر میں اس سال پچاس ہزار روپئے خرچ کرونگا۔‘‘چندر شیکر اپنے بیٹے رام کو مخاطب ہو کر بولے۔ ’’واہ بابا واہ۔۔۔‘‘لیکن رام کچھ سوچتا ہوا بولا۔ ’’ بابا کیا آپ مجھے پچاس ہزار روپئے دے سکتے ہیں؟‘‘ چندر شیکر مسکراتے ہوئے بولے۔’’کیوں۔۔۔تو پچاس ہزار روپئے لے کر کیا کرے گا؟‘‘رام اپنے باپ کی طرف دیکھکر کہا۔’’بابا ۔۔میرے دو دوست ہیں ۔بہت غریب ہیں۔کالج کی فیس بھی بھرنے کے لیے اُن کے پاس روپئے نہیں ہیں۔دونوں دوست کے بابا مر گئے ہیں اُن کی آئی گھر گھر جاکر کام کرتی ہے۔وہ دونوں بھی رات میں پارٹ ٹائم کام کرکے اپنا اپنا جیسے تیسے گھر چلا رہے ہیں۔اگر میں پچیس پچیس ہزار اُن کو دے دیا تو اُن کی مدد ہوگی۔ویسے باباایک بات کہوں۔۔۔۲۲جنوری کو میرا واڑ دیوس ہے۔اُس دن رام مندر کا اُتگھاٹن ہونے جارہا ۔۔۔۔پورا بھارت پٹاخے ‘پھول جھڑیاں چھوڑے گاایک دوسرے کو لڈو پیڑے دے نگے کھلائے نگے‘موبتیاں جلائے نگے۔۔۔اس طرح میں سمجھونگا میرا واڑ دیوس پورا بھارت منا رہا ہے۔۔۔کہو با با آپ کا کیا خیال ہے۔‘‘چندر شیکر رام کی مورتی بنے اپنے بیٹے رام کو دیکھتے رہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا