باز گشت

0
68

 

 

 

سبزار احمد بٹ
اویل نورآباد

رات کے دس بجنے کو تھے اندھیرے نے اپنا بسیرا ڈالا تھا۔ ہم سب گاڑی میں تھے اور ایک دوسرے سے گاڑی رکنے کی وجہ ہوچھ رہے تھے اتنے میں گاڑی کا کنڈیکٹر گاڑی میں چڑھا اور سواریوں سے کہنے لگے۔جناب گاڑی اچانک خراب ہو گئی ہے۔ مستری کو بھلایا ہے۔ ٹھیک ہونے میں دوگھنٹے لگیں گے۔ میں گاڑی سے نیچے اترا اور سگریٹ سلگا کر ٹہلنے لگا۔ بہار کا موسم تھا اور ہوا کافی خوشگوار تھی۔ کچھ دوری پر مجھے بجلی کے قمقمے جگمگاتے ہوئے نظر ائے۔ جیسے تاروں کا جھرمٹ جگمگا رہا ہو۔ میں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ اس روشنی کی طرف بڑھا۔ قریب پہنچا تو پتہ چلا کہ یہ سینٹرل جیل ہے۔ باہری دیوار پر ٹکٹکی باندھ پر جیل خانے کی طرف دیکھنے لگا کیونکہ اس جیل خانے سے میرا پرانا رشتہ تھا جب آج سے پندرہ سال پہلے یہاں پر میری پوسٹنگ ہوئی تھی اور میرا کام قیدیوں سے ملاقات کے لئے آنے والوں کو صدر دروازے سے قیدی تک پہنچانا اور پھر واپس صدر دروازے تک چھوڑ آنا تھا۔ میں کافی خوش ہوا تھا مجھے لگا کہ بس ملاقات کے لیے آنے والوں کو ملاقات کرانی ہے اور واپس صدر دروازے تک چھوڑ آنا ہے۔ میں چاک و وچوبند ہو کر صدر دروازے پر حاضر ہوا تھا دروازہ کھول کر دیکھا تو کچھ لوگ پہلے سے باہر انتظار کر رہے تھے۔ اتنے میں انہیں کاونٹر پر بلایا گیا جہاں پر شناختی کارڈ چک کئے جارہے تھے۔ پہلا ہی نمبر ایک بزرگ خاتون کا تھا جس کے ساتھ ایک پانچ سال کا بچہ تھا اور ایک خوبصورت اور حسین و جمیل لڑکی تھی۔ کاونٹر پر بیٹھی ایک ملازمہ اس خاتون سے مخاطب ہوئیں
ماں جی کس سے ملنا ہے آپ کو ؟
جی مجھے اپنے بیٹے سے ملنا ہے۔
اور یہ دونوں کون ہیں آپ کے ساتھ؟
یہ میری بہو ہے اور یہ میرا پوتا۔
بزرگ خاتون نے ان دونوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
کتنے عرصے سے بند ہے آپ کا بیٹا؟
چار سال سے
کبھی ملی ہو اس سے پہلے؟
جی نہیں۔محترمہ نے یہ سب اپنی ڈائری پر نوٹ کیا اور انہیں انتظار کرنے کے لئے کہا۔چند منٹ بعد ماں جی کو بلایا گیا۔ میں ان تینوں کے ساتھ گیا۔ ایک کمرے میں ان کے فوٹوگراف لئے گئے۔ اور ان تینوں کے ہاتھ میں ایک ایک فارم تھما دیا گیا۔۔۔ اتنے میں ایک لیڑی آفیسر آئی اور ان کی سر سے لے کر پاؤں تک تلاشی لی۔ اور انہیں کہا گیا کہ چار نمبر والے کمرے میں اپنے سامان کی جانچ کرائیں۔ میں چار نمبر والے کمرے میں انہیں لے گیا۔ اس بزرگ خاتون نے اپنا تھیلا کھولا جس میں چند روٹیاں تھی، ایک خالی برتن تھا اور دو تین پکے ہوئے مرغ تھے۔وہاں پر موجود آفیسر نے جوں ہی پکے ہوئے مرغ دیکھے۔ تو بڑے تیش میں اس بزرگ خاتون سے مخاطب ہوئے۔ کتنی بار آپ سے کہیں گے کہ پکائی ہوئی کوئی بھی چیز آپ اندر نہیں لے جاسکتے۔۔اور non veg تو بالکل بھی نہیں بزرگ ماں سہم سی گئیساتھ میں آئی ہوئی پھول سی لڑکی نے کہا۔ جناب ہم پہلی بار آئی ہیں ہمیں پتہ نہیں تھا۔ ساتھ میں بیٹھے آفیسر نے کہا۔ ٹھیک ہے یہ سالن باہر پھینک کر آؤ۔ اور خالی بوٹیاں اندر لانا۔ اس لڑکی نے بناہ کچھ کہے۔ مرغ کا سارا سالن باہر نچوڑ دیا۔ اور پھر سے اندر آئی۔ اب آفیسر روٹیوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ تب تک دوسرے آفیسر نے ایک ایک بوٹی لفافے سے نکال کر دوسرے پالتھین میں بھر دی۔ اس کے بعد ان تینوں کے گلے میں کارڑ لٹکایا گیا اور آگے جانے کے لئے کہا گیا۔ مجھے لگا کہ اب تلاشی وغیرہ کا کام ختم ہوا۔ لیکن کہاں۔ ہم تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ پھر تلاشی شروع ہوئی۔ شاید کوئی دوسری اجنسی اب یہ کام سر انجام رہی تھی۔ ایک ایک پیس (piece )کو پھر ایک لفافے سے دوسرے لفافے میں منتقل کیا گیا۔ اس دوران گوشت تقریباً تقریباً گر گیا مرغ کی بوٹیوں سے۔ فقط ہڈیاں رہ گئیں۔ ایک ایک بوٹی کو اس طرح نچوڑا گیا جیسے ان میں ہتھیار چھپے ہوئے ہوں. یہ منظر دیکھ کر ماں جی ہاتھ ملنے لگی۔ اس کا جگر چھلنی ہو گیا کہ اب بیٹے کے لئے کیا لے گی۔ دائیں جانب دو آفیسر چائے کی گرم گرم چسکیاں لے رہے تھے ساتھ ساتھ کچھ لکھ بھی رہے تھے اور تلاشی کے اس منظر سے بھی لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ان میں ایک تو اس لڑکی کو ہوس بھری نظروں سے گورتا جارہا تھا۔ اور جب روٹیوں کی باری آئی تو اس آفیسر نے لڑکی سے کہا۔ اے لڑکی دو روٹیاں ادھر لاؤ۔ ٹیسٹ کرنا ہے کہیں ان میں زہر تو نہیں ہے۔ لڑکی خاموش رہی اور یہ آفیسر پھر اونچی آواز میں گرجا سنا نہیں تم نے؟؟
بادل نخواستہ اس لڑکی نے دو روٹیاں لیں اور ان صاحب کے سامنے رکھ دیں۔
ارے واہ ….۔ کافی مزیدار روٹیاں ہیں۔ یہ کہتے ہوئے دو روٹیاں دونوں صاحبان نے مزے لے لے کر کھا لیں. اب تین روٹیاں رہ گئی۔ تلاشی ملکمل ہونے کے بعد ایک سپاہی نے ماں جی سے پوچھا یہ خالی برتن کس لئیاس میں میرا بیٹا کھانا کھاتا تھا۔ اسی لئے لائی ہوں۔ یہ سن کر سب زور زور سے ہنسنے لگے۔ اچھا تو پچھلے چار سال سے آپ کے بیٹے نے کچھ نہیں کھایا ہوگا۔ جیسے اْسے اسی برتن کا انتظار تھا۔۔ ان سب کا ہنسنا مجھے بالکل اچھا نہیں لگا۔ لیکن میں خاموش رہا۔ ہاں میں سوچنے لگا کہ شاید ان لوگوں کا ضمیر مر چکا ہے۔لیکن ساتھ ہی خیال آیا کہ کہیں ایک دن میرا ضمیر بھی تو نہیں مرے گا ؟؟؟۔جب مجھے دوسروں کی بے بسی پر ہنسنا اچھا لگے گا۔ میں ان ہی سوچوں میں تھا کہ چائے پینے والے آفیسر مجھ سے گویا ہوئے۔کھڑے کھڑے تماشہ کیا دیکھ رہے ہو۔ لے جاؤ ان کو قیدی کے پاس۔ اس لڑکی نے جوں ہی تھیلا اٹھانا چاہا۔ ایک سپاہی نے روک کر کہا۔ اسے رہنے دیجئے یہ ہم خود پہنچائیں گے۔ جائیے آپ ملاقات کیجئے۔ میں ان کو دوسرے راستے سے لے گیا۔ ہم ایک کمرے میں پہنچ گئے۔ جہاں ہم قیدی کا انتظار کرنے لگے۔ دوسری طرف سے قیدی آنے والا تھا بیچ میں ایک موٹے شیشے اور لوہے کی دیوار تھی۔ چند منٹوں کے انتظار کے بعد ایک خوبصورت اور نوجوان لڑکا شیشے کے اس پار نمودار ہوا۔ اور بزرگ ماں بے ساختہ شیشے سے لپٹ گئ۔وہ بیٹے کے گلے لگنا چاہتی تھی۔ بیٹے کو دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ اور یہ حسین و جمیل لڑکی بھی ٹکٹکی باندھے اس نوجوان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ماں زور زور سے اپنے بیٹے سے باتیں کرنے لگی۔ اتنی میں ایک اور نوجوان جو نہ جانے اپنے کس پیارے سے ملاقات کی غرض سے آیا تھا۔ ماں جی کی طرف گیا اور اسے سمجھایا کہ آپ کا بیٹا آپ کی باتیں نہیں سنتا ہے۔ اس شیشے کے آر پار فقط نظر جاتی آواز نہیں۔ یہ ٹیلی فون اٹھاو اور اپنے بیٹے سے بات کرو۔دوسری طرف سے آپ کا بیٹا فون اٹھائے گا۔ یہ منظر دیکھ کر میرا کلیجہ منہ کو آگیا۔ سارے جسم میں کپکپی طاری ہو گئی۔ چھوٹا بچا اپنی ماں کے آنسو پونچھ رہا تھا میں فقط اس ماں کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ تقریباً بیس منٹ تک باتیں کرنے کے بعد ماں جی نے فون اس لڑکی کے ہاتھ میں دیا جو اس لڑکے کی بیوی تھی۔ ہائے دونوں طرف سے آنسوں کے دریا بہائے جا رہے تھے۔ میں دروازے پر یہ منظر بڑی بے بسی سے دیکھ رہا تھا۔ اور سوچ رہا تھا کہ اس بوڑھی ماں نے جس محبت سے اپنے بیٹے کے لئے یہ مرغ بنا کر لائے تھے۔ اور یہاں ان کا کیا حال ہو گیا۔اور ایک ظالم تو روٹیاں بھی کھا گیا۔ اور وہ بے ضمیر انسان اس لڑکی کی بے بسی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اسے ہوس بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ملاقات کے لئے ایک گھنٹے کا وقت دیا گیا تھا۔ وقت ختم ہونے کے بعد جب ہم اس کمرے سے نکل رہے تھے تو میں نے پوچھا۔ماں جی آپ کا بیٹا کس جرم میں بند ہے۔ بیٹا میرے بیٹے نے کوئی جرم نہیں کیا ہے اسے پھنسایا گیا ہے۔ یہ ایک لمبی داستان ہے۔
لیکن آج تک کیوں نہیں ملی اپنے بیٹے سے ؟ بیٹا جونہی میرے بیٹے کی جیل ہوئی۔ ان ہی دنوں میرے شوہر کی اچانک موت ہوئی۔پھر میں اکیلی رہ گئی۔ در در کی ٹھوکریں کھاتی رہی۔ایک سال تک وکیل کے آفس اور گھر کے چکر کاٹ رہی ہوں۔ اس کے پاؤں پکڑے لیکن وہ بات سننے کے لئے بھی تیار نہیں تھا۔ زمین کے چند مرلے تھے جو اب اونے پونے داموں بیچ دئیے ہیں اور وکیل کی فیس ادا کی۔
تب جا کر اسی نے بیٹے سے ملنے کی راہ نکالی ہے۔ ماں جی کسی نے آپ کی مدد نہیں کی کیا؟ بیٹا کیا بتاؤں۔ شوہر کی موت کے بعد سب لوگ داد رسی کے لئے آئے۔ لیکن پھر ایسے غائب ہوئے جیسے گنجے کے سر سے بال۔
یہ بزرگ ماں مجھ سے باتیں بھی کرتی تھی، خوب روتی بھی تھی اور بار بار مڑ کر اس کمرے کی طرف دیکھ رہی تھی۔ جہاں سے اپنے بیٹے سے ملاقات کر کے نکلی تھی۔اتنے میں ہم صدر دروازے پر پہنچ گئے۔ ماں جی اس کی بہو اور پوتا باہر نکلے اور میں نے صدر دروازہ بند کر دیا۔میں ان ہی خیالوں می گم تھا۔ پسینے میں شرابور تھا کہ پیچھے سے کسی نے آواز دی گاڑی ٹھیک ہو گئی ہے۔ چلئیے نکلتے ہیں۔ میری سوچوں کا تسلسل ٹوٹ گیا اور میں گاڑی کی طرف روانہ ہوا

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا