تصدق مفتی کا دورہ خطہ پیر پنجال ایک تاریخ اپنے والد کی روایت کو دھرایا گیا 

0
41

ایڈوکیٹ تعظیم ڈار

راجوری9419182313

  • قارئین کرام  خطہ پیر پنچال اپنی تاریخ،ثقافت، تہذیب وتمدن اور جیوگرافی کے لحاظ سے اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے یہاں کی عوام اگرچہ دو تین بولیاں بولتے ہیں مگر ان میں تہذیبی وتمدنی رشتہ صدیوں سے چلا آرہاہے ۔ جس کی مثال ریاست جموں وکشمیر کا کوئی دوسرا خطہ نہیں بن سکاہے۔ اسی تہذیبی وثقافتی میل جول اور بھائی چارے نے یہاں کی عوام کو ترقی کے راستے پر لایا ، محنت ومشقت کرکے اپنی زندگی گزارنے والی یہ قوم ہر دور میں کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی منافقانہ رویے کا شکار ہوتی رہی لیکن ایک جماعت ایسی بھی رہی ہے جس نے اس خطہ کو منظر عام پر لانے کے لئے اپنے حکومتی دور میں ہرممکنہ  کوشش کی اوراس خطے کو ایک وجود بخشا وہ جماعت کوئی اور نہیں بلکہ پیلزڈیموکریٹک پارٹی ہے ۔ جیساکہ ہم سبھی جانتے ہیں اس جماعت کا وجود میں آنا اس وقت لازمی ہوگیا تھا جب ریاست جموں وکشمیر تاریخ کے سنگین حالات سے دو چار تھی اور ریاستی عوام کے پاس کوئی متبادل جماعت موجود ہی نہیں تھی۔ اُسی دور میں ریاستی عوام کوایک مسیحا  کے صورت میںمرحوم مفتی محمد سعید صاحب ملے جنہوں نے اس کی بنیاد ڈالی۔ اور عوام کو پرُ افشاں اور خون آشرم حالات سے نکالا۔ اپنی اعلیٰ سیاسی اور مدابرانہ صلاحیتوں سے مرحوم مفتی صاحب نے نہ صرف عوام کو سکون وراحت کی سانس دلائی بلکہ کئی تعمیر وترقی کے کام بھی کئے ۔ خطہ پیر پنجال سیاسی لحاظ سے جموں کے حکمرانوں کے رحم وکرم پہ چھودیا گیا تھا۔ جس سے یہاں کی عوام کی اپنی سیاسی فکر ہمیشہ کے لئے ختم کردی گئی ۔ اور ہمیشہ جموں کے حکمرانوں کے ہرفیصلہ کو یہاں کی عوام کو مجبوراً قبول کرنا پڑا تھا۔ یہاں کے مسائل مختلف سرکاروں کے دیئے گئے وسائل سے ہمیشہ زیادہ ہوتے رہے ہیں جس سے یہاں کی عوام کے اندر ایک عجیب طرح کاجمود وتعطل پیدا ہوگیا اورناخواندگی کی شرح حد سے تجاوز کرگئی۔ لیکن مرحوم مفتی محمد سعید صاحب کی کاوشوں اور خصوصی توجہ نے یہاںکی عوام کو ایک نئے دور سے متعارف کروایا ۔ترقی کے لئے مختلف پالیسیاں وضع کی گئیں اور عوام الناس کو ان کے حقوق دلائے گئے  بلکہ عوام خاص کر نوجوانوں کے اندر سیاسی پیداری بھی لانے میں ان کا ایک اہم کردار رہا ہے ۔ خطہ پیرپنجال میں کئی تعمیراتی کاموں کے لئے یہاں کی عوام کو POTAجیسے انسانیت سو ز قانون سے چھٹکارا دلایا جس کی بدولت  یہاں کی عوام نے سکون کی سانس لی۔ مرحوم مفتی صاحب نے دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح اپنی جماعت کو خطہ پیرپنچال میں ذات ، پات ، مذہب اور طبقے تک محدود نہیں رکھا بلکہ پوری عوام کو ساتھ لے کر چلے ۔ انہوں نے اپنے دور قیادت میں خطہ پیر پنچال کے کئی دورے کئے یہاں کی عوام کی زبانی ان کے مسائل سُنے خطہ پیر پنچال میں مغل روڈ کو از سر نو تعمیر کروایا اور عوام کو وادی سے جوڑا ۔ راجوری میں بابا غلام شاہ بادشاہ  ؒکے نام سے ایک یونیورسٹی بنوائی ۔ ریاست میں بے روزگار عوام کو روزگار مہیا کیا اور پڑھے لکھے طبقے کونوکریاں دی، لیکن بدقسمتی سے زندگی ان کا زیادہ دیر تک ساتھ نہ نبھا سکی اور وہ آخر اپنے دیرینہ خوابوں کے ساتھ داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے ۔ ان کی وفات کے بعد ان کی اعلیٰ ریاستی سوچ کی حامل دختر آج کی ریاستی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی صاحبہ نے ریاستی قیادت سنبھالی ۔ اور جب سے وہ ریاستی وزیراعلیٰ بنی ہیں تب سے ریاستی تعمیر وترقی کی خاطر کئی اقدامات اٹھائے گئے جن میں سے اکثر اپنے آخری مرحلے میں ہیں۔ خصوصی طورپر ملازمت کے سلسلے میں انہوں نے کئی اسامیاں مختلف شعبۂ جات میں نکالی ہیں۔ اب جب سے ان کے بھائی محترم جناب تصدق مفتی صاحب عملی سیاست میں آئے ہیں تب سے وہ بھی کافی متحرک دکھائی دے رہے ہیں۔ جن کے سیاست میں آنے کی وجہ سے نوجوانوں کے اندر ایک چاہت جاگ اٹھی ہے جو ریاست کی نشونما کے لئے اپنا کردار اور اپنی صلاحیتی بروئے کار لاکر ریاست جموں وکشمیر کو ایک نئی ڈگر دینے کے متلاشی ہیں ۔چونکہ اُن کا تعلق سیاحت سے  رہا ہے اس لئے ریاستی سیاحت کو فروغ دینے میں ان کی خصوصی توجہ رہے گی۔ حال ہی میں جس طرح کا ریاستی بجٹ تیار کیا گیا ہے اور پاس بھی کیا گیا ہے اس بات کی دلیل دیتا ہے کہ موجودہ سرکار ریاستی خوشحالی اور تعمیر وترقی کی خاطر کتنی متحرک اور وعدہ بند ہے۔  قارئین کرام  تصدق مفتی صاحب نے خطہ پیر پنچال کا دور کرکے اس روایت کو پھر سے برقرار کیا جس کومرحوم مفتی محمد سعید صاحب نے قائم کیا تھا ۔ان کی وفات کے بعد خلاء سا پیدا ہوگیا تھا لیکن تصدق مفتی صاحب کے دورے نے اُسے پھر زندہ کردیاہے اور نوجوانوں نے اس بات کی ستائش بھی کی ہے ۔گذشتہ ہفتے انہوں نے خطہ پیر پنجال کا دورہ کرکے وہاں کے سیاحتی مقامات کا مشاہدہ کیا اور ساتھ ساتھ میں کچھ نئے مقامات کی نشاندہی بھی کی ۔ تصدق مفتی صاحب نے شاہدرہ شریف میں رات گزاری اور وہاں کی سیاحتی فضا کو مزید جاذبِ نظر بنانے کے لئے نئے اقدامات اٹھانے کی طرف توجہ بھی دلائی ۔ انہوں نے سیاحتی مقامات پہ صفائی برتنے کی طرف لوگوں کی خصوصی توجہ دلائی خاص طورپر جب وہ دیرہ گلی پہنچنے انہوں نے وہاں کی انتظامیہ اورقرب وجوار میں بسنے والی عوام کو دیرہ گلی کو صاف وشفاف رکھنے کی تلقین بھی کی باوجود اس کے  انہیں ریاستی سرکار میں اعلیٰ عہدے پہ فائز کیا گیا ہے لیکن انہوں نے تمام چیزوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے خود وہاں پڑے کچرے کو اٹھانا شروع کردیا جو ان کی عاجزانہ اورمدّبرانہ صلاحیتوں کی روشن دلیل ہے۔ اس کے بعد انہوں نے پونچھ کی طرف رُخ کیا وہاں کے تمام سیاحتی مقامات کو امپاور کرنے کی خاطر انتظامیہ اور عوام کو تنبیہ کیا ۔ تصدق مفتی صاحب کا یہ دورہ خطہ پیر پنچال کے لئے کئی لحاظ سے اہمیت کاحامل ہے چونکہ پچھلے ستر سالوں سے خطہ پیر پنچال کو سیاحتی زمرے میں شامل نہیں کیا گیا لیکن اس بار ان کے اس دورے سے بہت ساری امیدیں وابستہ تھیں جو یقینا پوری ہوں گی۔ سیاحتی مقامات کی ترقی خطہ پیر پنچال کو اقتصادی سطح یہ کافی اونچا لے جاسکتاہے اورساتھ ساتھ میں بیرونِ ریاست یا پھر دوسرے ممالک کے سیاحتوں کی توجہ کا مرکز بھی بنے گا ۔ چونکہ تصدق مفتی صاحب کا تعلق نو جوان سیاسی فکر رکھنے والے رہنماؤں میں کیا جاتا ہے اس لئے جدید عہد کے تقاضوں کے مطابق وہ خطہ پیر پنچال ہی نہیں بلکہ پوری ریاست کو کافی آگے لے جائیں گے ۔ ان کاخصوصی طورپر  عوام سے یہ خطاب رہاہے کہ ہمیں اپنے ماحول کو صاف رکھنا ہے اس بات کو انہوں نے پیغمبر اکبرؐ کے اقوال سے عوام کو سمجھانے کی کوشش بھی کی ۔پیغمبراکرمؐ کی حیات ِ مبارک کو انہوں نے عوام کو اپنی زندگی میں لانے کی تلقین بھی کی اور ساتھ ساتھ میں ذہنی وجسمانی تزکیے کے ساتھ ساتھ ماحول کو صاف رکھنے پہ بھی آمادہ کیا اور یہ بتایا کہ قدرتی وسائل کوصاف ستھرا رکھنا ہمارے ایمان کی پختہ دلیل ہے اس لئے ہمیں پانی کو صحیح استعمال اورصاف رکھنا چاہئے ۔میری خطہ پیر  پنچال کی پوری عوام سے گذارش ہے کہ وہ ذات برادری کے اختلاف سے اوپر اٹھ کر خطہ کی تعمیر وترقی میں تعاون کریں تاکہ ہمارے  تمام مسائل حل ہوسکیں۔ موجودہ سرکار خطہ پیر پنچال کو ہر لحاظ سے آگے لے جانا چاہتی ہے اس لئے عوام کے تعاون کی ضرورت ہے۔ میری ایک گذارش یہ بھی ہے کہ ہمارے خطہ میں بہت ساری قدیم عمارتین کھنڈروں میں تبدیل ہورہی ان کے تحفظ کے لئے کئی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ خصوصی طورپر بادشاہوں کے عہد کی بنی عمارتیں جنہیں ہم ذاتی جاگیریں سمجھ کہ تباہ کررہے یہ ہمارا قیمتی سرمایہ ہے ۔ ان سے تاریخ کے روشن پہلو وابستہ ہیں ان کا تحفظ ہماری قدیم تاریخ کے تحفظ کے مترادف ہے محکمہ آثار قدیمہ سے بھی گذارش ہے کہ وہ ان  کھنڈوں میں بدلتی قدیم عمارتوں کی مرمت کرے تاکہ یہ ہماری قیمتی اثاثہ قائم رہ سکے ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا