تاروں بھرے آسمان سے یہ مٹھی بھر تارے

0
158
image.png
از قلم  :  خواجہ کوثر حیات، اورنگ آباد (دکن)
Email : [email protected]
ادب زندگی کا عکاس اور ادب میں ہونے والی تبدیلیاں، آغاز، ارتقاء، تدریجی مراحل اور مختلف ادوار میں ان کی حیثیت اور اصناف پر کیا جانے والاتجزیہ ہی تنقید و تحقیق ہے۔ تنقید و  تحقیق جگر کاری و عرق ریزی سے کیا جانے والامستند کام ہے جو اصناف کے متعلق قاری کی سوچ اور تخیلات کی سمت کا تعین کرتا ہے۔ محقق اور نقاد کا کام نئی گرہیں دلائل کے ساتھ تشنگان علم و ادب کے روبرو کرنا ہوتا ہے ۔
ادب کی ترقی وترویج اور اشاعت میں تحقیق و تنقید کی بنیادی حیثیت ہے۔ اسی سے قومیں اپنی تاریخ کو محفوظ کرتی ہیں۔تنقید و  تحقیق میں نمایاں کارکردگی کرنے والوں کی طویل فہرست ہے جن میں چند ناموں کاذکر کررہی ہوں ۔ گوپی چند نارنگ  ‘ شمس الرحمن فاروقی‘ وارث علوی‘لطف الرحمن‘ ابوالکلام قاسمی‘ شمیم حنفی ‘ علی احمد فاطمی‘ قاضی افضال حسین‘ مہدی جعفر‘ ابوالفیض سحر‘ اختر الواسع‘ قمر رئیس‘ ناصر عباس نیئر‘ وہاب اشرفی ‘ شافع قدوائی ‘ قدوس جاوید‘ ضمیر علی بدایونی‘ ڈاکٹر عتیق اللہ ہی ناقدین میں شیخ عقیل احمد کا کام بھی نمایاں ہے جنھوں نے اپنے تنقیدی اور تحقیقی کاوشوں کے ذریعے ادب میں مزید مثبت اضافہ کیا ہے جن میں غزل کا عبوری دور‘ ،’مغیث الدین فریدی اور قطعات تاریخ‘ ،’تفہیمات اور ترجیحات‘،’فن تضمین نگاری ‘ اور ادب اسطور اور آفاق‘ شامل ہیں ۔ آپ کی نگرانی اور سرپرستی میں اردو کے مؤقر رسالہ جات ’فکر و تحقیق‘،’ اردو دنیا‘،’ خواتین دنیا‘ اور ’بچوں کی دنیا‘ تواتر سے خوبصورت ترتیب و تدوین سے شائع ہوکر قارئین تک پہنچ رہے ہیں۔مستقل غوروفکر اور مسلسل مطالعہ کے باعث اربابِ علم اور اہل ذوق میں عقیل احمد کا شمار ناقدین میں کیا جاتا ہے۔آپ کی تنقیدی بصیرت پر مبنی تصنیف عبوری دور کی غزلوں میں اساسی فکر کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے ۔ شیخ عقیل احمد کی پہلی تنقیدی و تحقیقی کاوش ’’غزل کا عبوری دور‘‘ میں غزل کا تعارف اہتمام سے کیا ہے ۔ اس میں انیسویں صدی کے آخر میں اردو غزل کے رنگ و آہنگ پر تفصیلی بات کی گئی ہے ۔ معتبر شعرأ داغ،امیر، منیر،ظہیر، مجروح، سالک، جلال اور حالی کی منتخب غزلوں کو فنی محاسن کے ساتھ قارئین کے روبرو کیا گیا ہے۔
آپ نے غزل کے امکانات پر بات کرتے ہوئے حاؔلی کے اس خوبصورت شعر کے اس مصرعہ کی مثال دی    ؎
حالی اب آؤ پیروی مغربی کریں
بس اقتدائے مصحفی و میر کر چکے
اس شعر میں حالی کے افکار کی تشریح اس طرح کی ہے ؛
’’حالی کے یہ دونوں شعر ان کی ذہنی کشمکش کے آئینہ دار ہیں۔ حالی غزل کے رسمی اور روایتی انداز سے بیزار تھے مگر ان کا ذوق سلیم غزل کے شاندار ماضی کے آئینے میں اس کے تابناک مستقبل کی جھلک دیکھ رہا ہے۔ وہ غزل کے مزاج کو زمانے کے تقاضے کے مطابق ڈھالنا چاہتے تھے ۔‘‘
عبوری دور کی غزلوں میں موجود تصوف کی چاشنی ، ظریفانہ عنصر ، اس کے سنجیدہ معیار، ان میں پنہاں فلسفہ اور حکمت کو آشکارا کیا ۔ غزل کے مزاج میں تغزل کی شیرینی بھی کشید کی ہے۔
شیخ عقیل احمد نے تصنع اور مبالغہ سے پاک و صاف غزلوں کی رعنائیوں اور دلکشی کو منتخب غزلوں سے پیش کیا ہے۔ غزلوں میں موجود زبان و بیان کی بندش اور اس میں موجود فکری عناصر پر روشنی ڈالی اورجہاں شاعری میں زندگی کی رعنائیوں کی رمق پیش کی وہیں ان میں ظاہر ہوتی دنیا کی بے ثباتی کو بھی بیان کیا ہے۔نئی ترکیبوں اور نئے الفاظ والے اشعار کو منتخب کرکے پیش کیاہے ۔اپنی تنقیدی بصیرت و تجزیاتی نقطۂ نظر سے اشعار کے اسلوب ، احساسات اور خیال آفرینی، افکار کی ندرت اور ان میں موجود روانی و نغمگی جیسے فنی محاکات کا احاطہ کیا ہے۔غزلوں میں واقعاتی عنصر کو تلاش کیا ان میں پوشیدہ قومی جذبات کی ترجمانی کے ساتھ اس میں محسوس ہونے والے تصورات اور پیش کیے ہوئے خیالات کی تشریح بھی کی ہے ۔
ادب میں تنقید و تحقیق کی اپنی مسلم حیثیت ہے ۔ جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ تخلیقی ادب کی منصفانہ تفہیم و تعبیر کے لئے تنقید ایک موثر ذریعہ ہے ۔ تنقید اصناف پر مزید گہرائی اور تجربہ کی روشنی میں کیا جانے والاجائزہ ہوتا ہے جو مختلف پہلوؤں سے تخلیق کے اسرار و رموز کو قارئین سے متعارف کروانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ نہ صرف نقطہ نظر میں تنقید سے وسعت پیدا ہوتی ہے ساتھ ہی سوچ کے مختلف زاویے بھی وا کرتی ہے ۔ادبی کاوشوں میں شیخ عقیل احمد کے نقد ونظر سے ان کی وسعتِ معلومات، طرزاستدلال، علمی متانت عیاں ہوتی ہے ۔
فن تضمین نگاری شیخ عقیل احمد کی وہ کا ش ہے جس کی پسندیدگی نے مبصرین، ناقدین اور قارئین کے مضامین اور تبصروں کے ذریعے نہ صرف ملک عزیز بلکہ عالمی سطح پر اسے متعارف کروایا ہے۔ فن تضمین نگاری کے متعلق اور ایک اقدام یہ رہا کہ جناب انجم عثمانی صاحب نے دوردرشن کے ادبی پروگرام میں اس کتاب پر کامیاب مذاکرہ بھی منعقد کیا ہے۔
یقیناً یہ تضمین نگاری پر ایک سیر حاصل کتاب ہے ۔آپ کی تحقیق دعوت فکر دیتی ہے ۔ ’’فن تضمین نگاری : تجزیہ و تنقید‘‘ کے شائع ہونے کے بعد تضمین کے موضوع پر نئی بحث کا آغاز ہواہے ۔ڈاکٹر شریف الدین سابق استاذ شعبہ اردو ۔ دہلی یونیورسٹی ۔ دہلی کتاب کے متعلق رقمطراز ہیں کہ
’’عقیل احمد صاحب مقالے کی زبان کو خواہ مخواہ بھاری بھرکم، بوجھل یا رنگین نہیں بناتے ۔ انھیں سادگی اور سلاست کے ساتھ بات کو پر اثر بناکر کہنے کا ڈھنگ آتا ہے ۔’’فن تضمین نگاری: تجزیہ و تنقید‘‘ سنجیدہ اور باذوق قارئین کے لیے معلومات اور بصیرت دونوں کا سامان رکھتی ہے ۔ ‘‘
ابتدا سے ہی شاعری شیخ عقیل احمد کے لئے دلچسپی کا باعث ہونے سے آپ کے مطالعہ کا مرکز رہا ہے ۔ ڈاکٹر مغیث الدین فریدی صاحب کے مجموعہ کلام ’’کفر تمنا‘‘کے مطالعہ کے دوران ان کی لکھی تضمین نے آپ کو بے حد متاثر کیا ۔ اس دلچسپی اور تضمین نگاری میں تفصیلی کام کی محسوس ہوتی کمی کو آپ نے تحقیقی کام سے تقویت بخشی ۔
اسی کتاب میں شیخ عقیل احمد لکھتے ہیں کہ
’’جس طرح اردو غزل فارسی سے اور فارسی غزل عربی سے ماخوذ ہے اسی طرح تضمین کی روایت فارسی سے اردو میں آئی ہے۔ فارسی کے متعدد کلاسیکی شعرا کے کلام کی تضمینیں فارسی میں ہوئی ہیں۔ شیخ سعدی کے کلام کی تضمینیں فارسی کے ہی ایک شاعر غلام حسین امیر خانی کی ہے جو ’’تضمین گلچین سعدی‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ دکنی شعرا کے کلام میں بھی فارسی غزلوں اور ہندی دوہوں کی تضمینیں ملتی ہیں ۔
اس میں تضمین کے فن کی تعریف اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے ۔ تضمین کی مختلف ہئیتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے واضح کیا ہے کہ تضمین کے لئے کسی خاص ہئیت کی قید نہیں ہے۔ منتخب اشعار کو پیش کرتے ہوئے آپ نے فارسی کے جن مصرعوں یا اشعار کی تضمین اردو کے شعرأ نے کی ہیں ۔ ان منتخب اشعار کو پیش کرتے ہوئے فارسی کے شعرأ کے اجمالی تعارف کے ساتھ ان کے مخصوص انداز فکر کا جائزہ لیا ہے ۔اس میں اٹھارویں صدی کے شعراء مثلاً میر، سودا ، درد، نظیر، مصحفی اور انشاء وغیرہ کی تضمین نگاری کا جائزہ شامل ہے ۔‘‘
شیخ عقیل احمد نے تفصیل سے واضح کیا کہ کس طرح اس صدی میں شعرأ نے فارسی کے کلام کی اثر آفرینی اور تہہ داری سے متاثر ہو کر فارسی کے اشعار کی تضمین اور ترجمے کیے گئےہیں۔اٹھارویں صدی میں تضمین نگاری کی معلومات فراہم کرتے ہوے آپ روشنی ڈالتے ہیں کہ
’’ شمالی ہند میں میر و سودا کا عہد اردو شاعری کا اہم ترین دور مانا گیا ہے۔ اس دور میں غزل ،قصیدہ اور مثنوی کا معیار متعین ہوا۔ میر نے غزل اور سودا نے قصیدہ کے نوک پلک کو اس طرح سنوارا کہ اردو غزل فارسی غزل سے آنکھ ملانے کے قابل ہو گئی اور قصیدہ فارسی کا حریف بننے لگا۔ فارسی اشعار کی تضمین اور فارسی اشعار کے ترجمے کا رجحان بڑھنے لگا۔‘‘
مزید اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’میر نے فارسی کے اشعار پر تضمین کر کے تضمین نگاری کے نت نئے پہلوؤں سے اردو شاعری کو آب و رنگ بخشا۔ فارسی اشعار کی کیفیات کی باز آفرینی ، غزل کی رمزیت اور تہ داری سے شعر کے مفہوم کی نئی توجیہ کر کے میر نے تضمین کے فن کو تخلیق کا بلند درجہ عطا کیا۔ انھوں نے تضمین کی روایت اور ہیئت ، (خمسہ یا تخمیس ) کے علاوہ اس فن کے امکانات کو بروئے کارلانے کے لیے مثلث کی ہیئت کو بھی بڑی کامیابی کے ساتھ برتا ہے لیکن اس سے بڑھ کر میر نے فارسی کے مطلع پر اردو کے مطلع کی تضمین کرکے اس فن کی نادرہ کاری کا بہت دلچسپ ثبوت دیا ہے ۔اس میں انیسویں صدی کے شعرأ کی تضمین نگاری پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔آپ نے واضح کیا کہ اس زمانے میں تضمین تو ہوئیں لیکن تضمین کی ہئیت میں نہ کوئی تبدیلی آئی اور نہ تنوع پیدا ہوا ۔ اس عہد میں تضمین کی روایت کو بڑھایا گیا ۔ غالب نے ظفر کی ایک غزل پر تضمین کی ۔‘‘
انیسویں صدی میں تضمین نگاری کے متعلق مزید معلومات بہم پہنچاتے ہوئے آپ لکھتے ہیں کہ
’’مومن خان مومن نے اپنے پسندیدہ فارسی شعراء کے کلام پر تضمین کی ہے۔ انھوں نے مخمس ، مثلث اور مسدس کی شکلوں میں فارسی اشعار کو تضمین کر کے میر، سودا اور نظیر کی روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ غزلوں کی تضمین کے علاوہ انھوں نے کہیں ایک شعر اور کہیں ایک مصرع پر کئی کئی بند تضمین کے لکھ کر اپنی جدت ادا کا جو ہر دکھایا ہے۔ ‘‘
آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کا غزلیہ کلام برصغیر ہندو پاک کے طول و عرض میں کافی مشہور رہا ہے۔ اردو کے کئی شعرأ نے ظفر کی غزلوں کی زمین میں بے شمار اشعاربھی تخلیق کئے ہیں۔ان کی ایک معروف ترین غزل کا زیر نظر مصرعہ آج بھی خاصا  مشہور ہے   ؎
لائق پابوس جاناں ، کیا حناتھی میں نہ تھا
راقم الحروف کے جد امجد سید امجد حسین خطیب صاحب نے بھی اس زمین میں ایک نعتیہ قصیدہ تحریر فرمایا جو ۱۶؍اشعار پرمشتمل ہے۔ اسی نعتیہ قصیدے کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں   ؎
لائق پابوس حضرت کفشِ پاتھی میں نہ تھا
ہائے کیا اس چرم کی قسمت رسا تھی میں نہ تھا
کیا سُبک کرتی ہے آمد ورفت روضے پرنسیم
شرف یابِ بوسہ گنبد صبا تھی میں نہ تھا
جسم خوشبو دار سے حضرت کے ہے فیضیاب
حلس تھا مرط مُرحل تھی ردا تھی میں نہ تھا
(حلس= ٹاٹ، مرط مرضل = کالی کملی، بردا = چادر )
کل پڑھے جاتے تھے امجد کے قصیدے بزم میں
چوطرف سے غُل غلِ صلّ علی تھی میں نہ تھا
تضمین نگاری مشکل فن ضرور ہے مگر شیخ عقیل احمد کے تنقیدی زاویے اس فن کو آسان اور عام فہم بناکر اپنے جانب متوجہ کرلیتے ہیں ۔تضمین کی تعریف اور اہمیت کے متعلق شیخ عقیل احمد لکھتے ہیں کہ
’’ تضمین کا فن بڑا نازک اور لطیف ہے ۔غزل کے شعرأ کے لیے شعر کہنا آسان کام ہے لیکن کسی دوسرے شاعر کے شعر پر تضمین کرنا مشکل ہے کیوں کہ غزل کے ہر شعر میں شاعر کی داخلی کیفیت، رنگ و آہنگ اور اس کی پوری شخصیت کے ارتعاشات موجود ہوتے ہیں ۔ تضمین نگار کواپنے مصرعوں کی تخلیق کرتے وقت ان سب باتوں کا خیال رکھتے ہوئے اپنی شخصیت کی سطح کو اس شاعر کی شخصیت کی سطح سے ہم آہنگ کرنا پڑتا ہے جس شاعر کے شعر یا مصرعے کی تضمین مقصود ہوتی ہے۔ صرف اتناہی نہیں وہ اصل شعر یا مصرعے کے مفہوم کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس کے کچھ نامکمل پہلوؤں کو تلاش کرتا ہے اور اپنے جذبات و خیالات سے ہم آہنگ کر کے ان کے مفہوم کو ایک نئی جہت عطا کرتا ہے۔ ‘‘
شیخ عقیل احمد نے تضمین نگاری کے فن کی مختلف ادوار میں مثالوں کے ذریعے وضاحت کی ہے۔آپ لکھتے ہیں کہ
’’ مومن ، نظیری نیشاپوری کی غزل کی تضمین میں بھی مطلع پر قاری کے مصرعے لگائے گئے اس غزل کی تضمین ہموار اور مربوط ہے۔ نظیری کے سب سے بہتر شعر پر مومن کی تضمین بھی قابل داد ہے۔ ‘‘
آنکھ پھڑ کی ہے کہ آتا ہے وہ زیب انجمن
شوق کہتا ہے کرو آرائش بیت الحزن
جب نہیں آیا تو کیا چلتا ہے جی کو تہ سخن
ساختن ممنونِ دیدار و بحسرت سوختن
از تصرف ہائے حرماں خدا داد من ست
مومن نے نظیری کے شعر کی نئی تعبیر پیش کی ہے اور اپنے شاعرانہ تخیل سے تضمین کو پرلطف بنا دیا ہے۔ نظیری کے
از تصرف ہائے حرماں خدا داد من ست
کی تشریح اور توجیہ کے لیے آنکھ پھڑکنے کے شگون سے محبوب کے آنے کی خوش فہمی سے بہتر کوئی پیرایہ بیان نہیں ہو سکتا تھا۔
ان کے افکار کی ندرت ، مطالعہ اور تحقیق کی گہرائی اس سے عیاں ہوتی ہے ۔کہ ان کے ہر پہلو کو مدلل انداز میں بیان کرکے اس کی نسبت سے مثالوں کو پیش کرکے اس کی مقصدیت کو بہت ہی سلیس زبان میں پیش کرکے قاری کے تحصیل علم کی تشنگی کو دور کرتے ہیں ۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں ؛
’’قدسی کی فارسی نعت بھی شیخ سعدی کے نعتیہ اشعار ( بلغ العلی بکمالہ ) کی طرح بے حد مقبول اور مشہور ہوئی۔ اردو فارسی میں اس نعت کے اشعار پر بے شمار شاعروں نے تضمین لکھی ہے اور ہر شاعر نے اس نعت کے اشعار پر تضمین کر کے رسالت ماب کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اور ان اشعار کے مصنف کے شاعرانہ کمال کا اعتراف کیا ہے ۔‘‘
فکر انگیزی اور خوش اسلوبی سے متن کا احاطہ ،اپنی بات کو پیش کرنے کے لئے اشعار کا انتخاب اور اس پر کی جانے والی مدلل گفتگو ان کی بات کو مبسوط و مستحکم بنادیتی ہے ۔ ملاحظہ کیجیے ؛
’’ بہادر شاہ ظفر نے ہر مقبول عام رائج الوقت صنف سخن میں اپنی طبع رسا کے جو ہر دکھائے ہیں۔ ظفر کی تضمین نگاری ان کے رنگ سخن کی آئینہ دار ہے۔ ‘‘
سادہ برجستہ اور پر اثر ظفر کے کلام میں تضمین کے خمسوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ میر کی دو غزلیں اور سودا کی ایک غزل ظفر کی تضمین سے آراستہ ہوئی ہیں۔ میر کی دونوں غزلیں میر کی نمائندہ غزلیں ہیں اور چھوٹی بحر میں ہیں۔ ظفر نے زبان کی سادگی اور بے تکلفی کے ساتھ تضمین کا حق ادا کیا ہے۔
جرم ثابت ہوا ہے کیا ہم پر
نہیں کھلتا یہ ماجرا ہم پر
روز اک ظلم ہے نیا ہم پر
اے بتو اس قدر خفا ہم پر
عاقبت بندِ خدا ہیں ہم پر
اس شعر کی تضمین میں ظفر کے تیسرے مصرعے نے میرؔ کے شعر کی تاثیر میں اضافہ کر دیا ہے۔ بڑی مربوط اور برجستہ تضمین ہوئی ہے۔ اس غزل کے مقطع کی تضمین اس اعتبار سے بہت دلچسپ ہے کہ ظفر اور میر دونوں کے تخلص تضمین کی یک رنگی اور ربط میں برابر کے شریک ہیں۔ ظفر کا تیسرا مصرع تضمین کی جان ہے      ؎
جیسا تھا شاعری میں اچھا میر
پاتا گر قدرداں بھی ایسا میر
اس طرح اے ظفر نہ کہتا میر
کوئی خواہاں نہیں ہمارا میر
گویا اک جنس ناروا ہیں ہم
بیسویں صدی میں بھی تضمین نگاری پر طبع آزمائی کی گئی ۔ معروف و معتبر شعراء نے بھی اسے اپنا شعار بنایا ۔ جس کا احاطہ شیخ عقیل احمد نے تنقید وتجزیہ کے لحاظ سے فنکارانہ انداز میں عمدگی سے کیا ہے ۔ آپ لکھتے ہیں کہ ؛
’’بیسویں صدی میں جدید اردو غزل کے ممتاز ترین شاعر حسرت موہانی نے بھی تضمین کے فن کی طرف توجہ کی۔ ان کی تضمین نگاری بھی ان کی غزل کی طرح کلا سکی روایت کے دائرے میں رہ کر سچے عاشقانہ جذبات ، صوفیانہ واردات اور بے تکلف اور برجستہ انداز بیان کی آئینہ دار ہے۔ حسرت نے فارسی کے مشہور اور منتخب اشعار پر تضمین کی ہے۔ تضمین کے لیے حسرت نے صرف ان اشعار کا انتخاب کیا ہے جو ان کی غزل کے مزاج کے مطابق ہیں۔ حافظ کی اس مشہور غزل کے پانچ اشعار پر اس فنکاری کے ساتھ تضمین کی ہے کہ حافظ کے عاشقانہ اشعار تضمین کے مصرعوں سے پیوست ہو کر منقبت کا رنگ اختیار کر گئے ہیں۔
وہ رنگیں گل گلشن رہنمائی
وہ سرمایۂ نازش مقتدائی
وہ زینبد مسند مصطفائی
سلامے چو بوئے خوش آشنائی
بداں مردم دیدہ روشنائی
بدرگا آں دلیر دلربایاں
جزیں بیچ نیاید زمانے نوایاں
دعائے یہ جو حسن تمنائے مایاں
درودے چو نور دل پارسایاں
بداں شمع خلوت گہ پارسائی
خبر دار اے میکش ناشکیبا
نہ کرنا نہیں ترک مے کا ارادہ
بر آنے کو ہے تیرے دل کی تمنا
زکوئے مغاں رو مگر داں کہ آنجا
آپ کے تجزیہ کی نمایاں خوبیوں میں شامل ہے کہ جہاں تضمین نگاری میں ہونے والی تبدیلیوں پر سیر حاصل بات کی گئی وہیں اس کے امکانات اور تجربہ کو بھی تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔تفصیلی تجزیہ کے بعد شیخ عقیل احمد تضمین نگاری کے طبع آزمائی کے امکانات سے پر امید ہیں اورانہیں توقع ہے کہ تضمین نگاری اپنی جگہ قائم رکھنے میں کامیاب رہے گی ۔آپ کا یقین ہے کہ ’’ہر دور میں ہیئت کے اعتبار سے تضمین میں وسعت پیدا ہوئی ہے اور ہر صنف سخن کو فن تضمین نے اپنی اثر آفرینی اور دلکشی سے خوبصورت اور پر لطف بنایا ہے۔ صرف اتناہی نہیں اس کی مقبولیت میں بھی اضافہ کیا ہے۔ مستقبل میں اگر کوئی صنف سخن وجود میں آئی تو تضمین اسے بھی آراستہ کرے گی اور اس کی دلکشی اور مقبولیت کو بڑھائے گی کیونکہ ہیئت کے اعتبار سے تضمین میں وسعت پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔‘‘
تنقید، تحقیق و تجزیہ ادب کا وہ سنگلاخ میدان ہے جس میں عقل و خرد کے گھوڑے دوڑانا جوئے شیر لانے کے مصداق ہے ۔ وسیع نکتہ نظر ، گہرا، باریک بین مشاہدہ، عمیق مطالعہ ، تجزیہ کی ماہرانہ صلاحیتیں، عرق ریزی سے دلائل کی حصول یابی اور تنقیدی غیر جانبدارانہ نقطہ نظر ان عوامل سے تنقید و تحقیق مکمل ہوتی ہے ۔ اور میں سمجھتی ہوں کہ شیخ عقیل احمد کے مزاج میں ان عوامل نے ہی ان سے وہ دستاویزی کام کروائے ہیں جو ارباب علم کو دعوت فکر دیتے ہیں ۔انہوںنے اپنا قلم ان اصناف پر اٹھایا جو یا تو دم توڑ رہی ہے یا یکسر ناپید ہوچکی ہے ۔ فن تضمین نگاری کی طرح، قطعہ تاریخ بھی ادب میں اپنا مخصوص مقام بنانے میں ناکام رہی ہے ۔
شیخ عقیل احمد کی کاوش ’’فن تظمین نگاری : تنقید و تجزیہ‘‘ کے علاوہ ’’مغیث الدین فریدی اور قطعات تاریخ ‘‘بھی ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہے ۔ چونکہ فن تاریخ گوئی ایک قدیم صنف ِسخن ہے ۔ یہ فن بھی اردو کی دیگرکئی اصناف کی طرح اردو میں فارسی سے آیا ہے۔اس فن کابڑا مقصد اہم واقعات کے سال کو محفوظ رکھنا ہے۔ جیسے ولادت، شادی، وفات ، کتابوں کی تصنیف، بادشاہوں کی تخت نشینی، فتوحات، خطاب یابی، منصب پر ماموریت اور عمارت کی تعمیر پر قطعات تاریخ لکھے جاتے ہیں ۔اس کے اعداد جوڑنے سے واقعے کا سال نکالاجاتاہے ۔تاریخ گوئی میں کسی واقعے کے سال وقوع کو حروف ابجد کے لحاظ سے نظم کیا جاتا ہے ۔ قطعہ تاریخ پر کمال رکھنے والی چنندہ شخصیات میں سے ہی مغیث الدین فریدی صاحب کا شمار ہوتا ہے جو کہ شیخ عقیل احمد کے استاد محترم تھے۔ جن کی طلسماتی شخصیت اور تخلیقی عظمتوں کے آپ ہمیشہ معترف رہے ۔مغیث الدین فریدی صاحب اپنی غزلوں کے لئے بہت مشہور ہوئے ۔ مگر قطعات تاریخ میں ان کا کام بہت زیادہ اور توجہ طلب ہے ۔ جسے بہت ہی محنت سے یکجا کرکے ان کی بہترین انداز میں ترتیب وتدوین کے ساتھ کتابی شکل میں لاکر انہوںنے فرض تلامیذ ادا کیا ہے۔
اس کتاب میں صاحب تحریر کے فن کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت پر بھر پور روشنی ڈالی گئی اور گفتگو کے ذریعے ان کی شخصیت کے رموز ، تربیت ، تدریجی مراحل اور فنکارانہ صلاحیتوں کے گوشے گوشے کو قلمبند کرکے پیش کیا گیا ۔شیخ عقیل احمد نے مغیث الدین فریدی صاحب سے انٹرویو لیتے ہوئے اپنے مدبرانہ سوالات کے ذریعے قارئین کے لئے فنی معلومات فراہم کی ہے ۔ جیسے اپنے ایک سوال میں غزل کے سلسلے میں فریدی صاحب کے نقطہ نظر پر بات کرتے ہیں جس کے جواب میں مغیث صاحب لکھتے ہیں کہ
’’ میں نے غزل کے ساتھ ساتھ نظم بھی کہی ہے اور طالب علمی کے زمانے میں شاید نظمیں، غزلوں سے زیادہ ہی کہی ہیں۔ میری نظمیں ’خیام‘ لاہور، ’عالمگیر ‘لاہور،’ مشہور‘ دہلی اور ’خاتون مشرق‘ دہلی میں شائع ہوتی تھیں۔ ۱۹۵۰ء میں نظموں کا مجموعہ منظر عام پر آنے والاتھا۔ کتابت ہو چکی تھی۔ یکا یک یہ خیال آیا کہ ان رومانی نظموں میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ یہ میری شاعرانہ شناخت کا ذریعہ نہیں ہیں۔ لہٰذا ان کی اشاعت کا ارادہ ترک کر دیا۔ کتابت شدہ اوراق کی جلد بندی کرا کے الماری میں بند کر دیا۔ اس وقت جو غزل کہہ رہا تھا اس کا مقطع شاید اسی فیصلہ کا ترجمان ہے      ؎
منکرِ فنِ غزل تھا جو فریدی اب تک
وہی اس جنبس گرامی کا خریدار بھی ہے
اس کے بعد سے غزل ہی کہہ رہا ہوں اور غیر شعوری طور پر غزل سے بڑھتی ہوئی دلچسپی کا اظہار غزل کے مقطع میں ہوتا رہا ہے         ؎
ہے فریدی تقاضائے رنگِ غزل
ذہن کی روشنی روح کی تازگی
شعلہ احساس کا پیکر حرف میں ڈھل کے نکھرے کسی شعلہ رو کی طرح
ہزار شیوے تھے گفتگو کے ہزار انداز تھے سخن کے
مگر یہ ایمائے دل فریدی، فدائے رنگِ غزل رہا ہے
تاریخ گوئی کے اس قدیم فن پر لکھنے والوں کے بہت کم نمایاں نام سامنے آتے ہیں ۔علاقہ دکن سے بزرگ خوش فکر شاعر شاہ حسین نہری صاحب کے لکھے ’قطعہ تاریخ‘ آج بھی کتابوں میں اہتمام سے شامل کیے جاتے ہیں۔درج ذیل قطعہ تاریخ  ملاحظہ فرمائیں ۔
اورنگ آباد (دکن) کے نشاۃ الثانیہ کے علمبردار ڈاکٹر رفیق زکریا کا دار فانی سے کوچ کر جانا ، ایک عظیم سانحے سے کم نہیں، جونہ صرف مدبر سیاسی رہنما تھے‘ بلکہ علم وادب کے مینار نور بھی تھے۔ رفیق غم رفیق کہنا اور اس سانحہ کو عظیم قراردے کر کمال شاعری کا بہترین نمونہ ہے ۔

اللَّھُمَّ اغْفِرْ لِرَفِيْقِ الْسعوَان
——————————
۲۰۰۵ (عیسوی)
——————————
غمِ رفیق ہے عظیم
سفیر راہِ ِسلم رفت
ہے سال انتقال شاہ!
’’رفیق و حبرِ علم رفت‘‘
——————————
۱۴۲۶ (ہجری)
——————————
شاہ حسین نہری صاحب کا اور ایک قطعہ تاریخ پیش خدمت ہے جو آپ نے اورنگ آباد (دکن)کے شاعر ، ادیب ، محقق و نقاد اسلم مرزا نے سچید انندن کے شعری مجموعہ کی اردو کے ترجمے کی اشاعت پر کہا ہے    ؎
’’ بمناسبت اشاعت کتاب الموسوم ’’لکنت ‘‘
شاعر :سچید انندن – مترجم شاعر : اسلم مرزا
لکنت آگاہ یہ کتاب بولتی ہے
——————————
۱۴۲۸ (ہجری)
——————————
سچیدانندن اور اے اسلم مرزا
یہ نظمیں یہ تراجم ، خوب سنگت ہے
ہے تاریخ اشاعت سال ہجری سے
’’فصاحت جی رہی ہے نام لکنت ہے“
——————————
۱۴۲۸ (ہجری)
——————————
اسی طرح علاقہ برار کے شہر اچل پور سے معروف نقاد غلام علی صاحب کے لکھے قطعات بھی کتبات کی زینت بنے ہیں۔ راقم الحروف کے جد امجد سید ابوالفتح ضیاء الدین سید امجد حسین خطیب کے مزار پر موجود کتبہ جس کا قطعہ تاریخ غلام علی صاحب نے لکھا ہے ۔
ولادت  ۱۲۴۸ ؍ہجری بمطابق ۱۸۳۲ عیسوی
وفات ۱۳۲۳ ؍ہجری بمطابق ۱۹۰۵ عیسوی
’’قطعہ تاریخ وفات پاک‘‘
——————————
۱۹۰۵ عیسوی
——————————
’’پاک داماں عزت مآب خطیب سید امجد حسین صاحب مرحوم ‘‘
’’ لازوال عاشق رسول آفتاب برا را امجد حسین ‘‘
——————————
۱۹۰۵ عیسوی
——————————
’’شاعرِ لاثانی و ادیب ماہِ کامل‘‘
——————————
۱۳۲۳ ؍ہجری
——————————
امجد حسین ہم سے ہوئے دور تا ابد
دنیا رہے گی درد سے رنجور تا ابد
ہاتف صدا لگائے کہ اُن کا مزار پاک
فیض حمیدِ حق سے ہو معمور تا ابد

(’’از مال اندیش سید غلام علی بیابانی اچلپور‘‘)
——————————
۲۰۱۷ عیسوی
——————————
مغیث الدین فریدی صاحب قطعہ تاریخ لکھنے میں منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ ان کے قطعات جو مختلف مواقعوں پر لکھے گئے جیسے صاحب جشن ، شخصیت کی آمد پر ، پیدائش پر، استقبالیہ، انتقال پر جن کا احاطہ شیخ عقیل احمد نے تفصیل کے ساتھ کمال ہنر سے کیا ہے ۔ وہ قطعات سے متعلق معلومات بھی فراہم کرتے ہیں ۔ان کی تاریخ گوئی کی شہرت جن قطعات سے ہوئی اس میں جوش صاحب کے خیر مقدم کے لئے ان کا لکھا قطعہ تاریخ جب حضرت جوش ملیح آبادی شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی میں آئے تھے اس وقت خیر مقدم میں یہ قطعۂ تاریخ لکھا تھا    ؎

صدائے قلقل مینا میں کس کا نام ہے ساقی
دل و دیدہ ہوئے جاتے ہیں فرش راہ میخانہ
جھکی مینا کی گردن خم ادب سے جام ہے ساقی
پئے تاریخ مصرع جوش کا پڑھ کر ”صبا“ نکلی
کہ یہ اپنی صدی کا حافظ و خیام ہے ساقی
تنقید ہی ادب میں نئے زاویے متعارف کرنے کا باعث بنتی ہے ۔ شیخ عقیل احمد کا تنقیدی نقطہ نظر ان کی سوچ کی رفعتوں کو نہ صرف ظاہر کرتا ہے بلکہ ان کے افکار کی بلندی کو بھی پیش کرتا ہے ۔ آپ لکھتے ہیں کہ
’’اس بات سے شاید ہی کسی کو انکار ہو کہ قدیم دور کے نادر و نایاب مجرب نسخے ہی بنیاد ہیں دور جدید کی ترقی یافتہ دواؤں کی۔ مجھے یہ کہنے کی بھی اجازت دیجیے کہ ہمارے ادب کی بہت سی نایاب اصناف آج کمیاب صرف اس لیے ہو گئیں کہ ہم حد سے زیادہ سہل پسند ہو گئے ہیں اور ہمارا یہ تساہل ہمیں عرق ریزی کے جوہر سے نا آشنا کر چکا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم ہر اس صنف سے گریز کرنے لگے جس صنف میں عرق دماغ کی آمیزش ناگزیر ہے۔‘‘
آپ کے یہ کلمات لکھنے والوں کی سوچ کا دائرہ وسیع کرنے کا باعث ہے جو اپنے آپ کو مخصوص صنف تک ہی محدود رکھ کر تخلیقی عمل انجام دے رہے ہیں ۔ اگر مختلف اصناف پر مسلسل طبع آزمائی کی جانے تو یقینا نتائج کی صورت میں قدیم اصناف کی بقاء ممکن ہوجائے گی ۔
یہ کتاب نہ صرف مغیث الدین فریدی صاحب کے قطعات ہمارے روبرو کرنے کافریضہ انجام دے رہی ہے بلکہ قطعہ تاریخ کی تاریخ ،اس میں حروف اور اعداد کے علم پر شیخ عقیل احمد کی مہارت سے روشنی ڈالنا ،تفصیلی وضاحت بھی پیش کی جو قطعہ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے رہنمائی ثابت ہو گی۔ وہ لکھتے ہیں کہ
’’اُردو تاریخ گوئی کی بنیاد عربی ابجد پر ہے جس میں ایک سے ہزار تک کے اعداد شامل ہیں جس کی مدد سے کسی بھی نظام تقویم میں تاریخ نکالی جاسکتی ہے خواہ وہ ہجری تاریخ ہو یا عیسوی یا فضلی یا بکرمی ۔ ابجد کی ترتیب میں آٹھ با معنی کلمے ہیں جن میں عربی کے تمام حروف شامل ہیں۔ مثلاً  ابجد ، ہس وز ، حطی ، کلمن ،سعفص، قرشت ،ثخذ اور ضظغ ۔‘‘
فن پر معہ دلائل تحقیقی اور تجزیاتی نکتہ نظر سے بات کرتے ہوئے شیخ عقیل احمد فنکار کی فنکارانہ صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہوئے ان کے فنی محاسن کو بھی کماحقہ انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ تضمین نگاری اور قطعہ تاریخ پر کمال مہارت رکھنے والی شخصیت کے لئے وہ لکھتے ہیں کہ
’’ ڈاکٹر مغیث الدین فریدی بھی اسی سلسلۃ الذھب کی ایک حسین کڑی ہیں اور ان کے قطعات تاریخ سے ان کی قدرت کلامی اور زبان و بیان پر مکمل عبور کا اندازہ ہوتا ہے۔ غزل گوئی میں اتنی دشواریاں نہیں ہوتیں جتنی کہ قطعات نگاری کے لیے مشکلوں اور صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے استحضار اور تنشیط اذہان نہایت ضروری ہیں اور ڈاکٹر مغیث الدین فریدی کے اندر یقینا یہ خوبی تھی کہ ان کا ذہن بہت ہی حاضر تھا اور ہمہ وقت تخلیقی طور پر فعال اور متحرک رہتا تھا۔ یہی ان کے معجز وفن کی نمود ہے۔‘‘
اس کتاب میں مغیث الدین فریدی کے لکھے مختلف قطعات تاریخ کو یکجا کیا گیا ہے جس میں صحت یابی کے موقع پر لکھے گئے قطعات کسی صدمے کے وقت، کسی کی آمد پر، مہمان نوازی پر، شادی کے موقع پر غرض مختلف اہم مواقع پر قطعہ تاریخ رقم کیے گئے جس کا حوالہ معہ قطعات تاریخ اس کتاب میں ملتا ہے ۔ڈاکٹر مثنی رضوی کے خط کے اقتباس سے شیخ عقیل احمد کی اس اہم کاوش کی اہمیت مزید واضح ہوتی ہے ؛
’’ مغیث الدین فریدی اور قطعات تاریخ فن تاریخ گوئی پر ایک محققانہ اور تنقیدی محاکمہ ہے۔ یہ مطالعہ انھوں نے مغیث الدین فریدی کی تخلیقات کے حوالہ سے کیا ہے۔ معلومات افزا انٹرویو اور یادوں پر مبنی مضمون کے ذریعہ مغیث الدین فریدی مرحوم کی ادبی اور شاعرانہ شخصیت کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ درجہ کی انسان دوست شخصیت کے نقوش اور خدو خال کو جس رچے ہوئے تخلیقی انداز میں اُبھارا ہے وہ کچھ اُنہی کا حصہ ہے۔‘‘
مغیث الدین فریدی اور قطعات تاریخ شیخ عقیل احمد کی ادبی خدمات کا اعلی نمونہ مانی جاسکتی ہے جس میں حروف علم الاعداد اور ہندسے کے وجود میں آنے سے متعلق تمام روایتوں کو تاریخی اور تحریری دلائل کی روشنی میں پیش کیا ہے۔ اعداد اور ابجد کی ابتدا، مشرق میں نمو پانے والے فن تاریخ کی روایت، الفاظ کے سہارے سے اعداد کا اخذ کیا جانا اور حافظہ میں محفوظ رکھنے کے لئے اشعار کے قالب میں ڈھالنا ۔ اردو تاریخ گوئی اور عربی ابجد اس کتاب میں تعارفی انداز میں پیش کی گئی ہے جسے قطعۂ تاریخ کے بہترین تعارف سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ڈاکٹر آفاق احمد آفاقی کے کتاب میں شامل اس اقتباس سے ادب میں کتاب کی فنی حیثیت کا ادراک ہوتا ہے ۔
’’ رخش فریدی میں تاریخ گوئی کی مشرقی روایت اور عہد بہ عہد اس کے ارتقاء کا عالمانہ جائزہ لیا گیا ہے ۔ فکری وفنی سطح پر فریدی کے تاریخی قطعات کا معروضی تجزیہ کیا گیا ہے۔ آخری باب میں تاریخی قطعات کا انتخاب زمانی اور موضوعی اعتبار سے درجہ بندی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور اس ضمن میں ضروری وضاحت بھی شامل ہے۔ اس اعتبار سے یہ کتاب تحقیقی نوعیت کی ہے اور تاریخ گوئی کی تاریخ میں اضافے کا درجہ رکھتی ہے۔‘‘
شیخ عقیل احمد کے تنقیدی زاویے اور تحقیقی امور کا جائزہ چند صفحات میں محدود کرنا ناانصافی ہوگی مگر راقم نے مختصر انداز میں آپ کی چند کاوشوں کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ امید ارباب علم و فن آپ کے تنقیدی بصیرت سے مستفید ہوکر ادب میں مزید اضافہ کریں گے ۔

………

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا