اپوزیشن اتحاد کو عوامی اعتماد اور طاقت حاصل مودی کو ہرانے کے لئے درکار تعداد میں نشستوں پر ’’انڈیا‘‘ کی کامیابی یقینی : کھرگے

0
45

 

 

انٹرویو کنڑا سے اُردو ترجمہ
حامد اکمل گلبرگہ( کرناٹک)
9449439509

ملک کے عوام مودی حکومت کے خلاف ہیں ، مودی کو اقتدار سے دور رکھنے اور ان کی حکومت کو ہرانے کے لئے لوک سبھا میں جتنی نشستوں کی ضرورت ہے ، اُتنی نشستیں انڈیا اتحاد کو ملنے والی ہیں اور انڈیا اتحاد شاندار کامیابی حاصل کرنے والا ہے ۔ اس اعتماد کا اظہار صدر اے آئی سی سی ملیکارجن کھرگے نے ایک بڑے کنڑا روزنامے کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔
انھوں نے کہاکہ اس بار کرناٹک میں بھی پارٹی قابل ذکر کامیابی حاصل کرے گی ۔ بی جے پی کا یہ دعویٰ بوگس ہے کہ وہ ریاست کی تمام 28نشستوں پر کامیاب ہوگی ۔ کانگریس کا بھی اپے بارے میں یہ اندازہ ہے کہ وہ 15تا20نشستیں حاصل کرے گی ۔
کھرگے کے انٹرویو کے اہم اقتباسات درج ذیل ہیں ۔
سوال : اس الیکشن میں جمہوریت کی حفاظت کیجئے ، دستور کو بچایئے کے ساتھ ساتھ کانگریس کو بچانے کی بھی اپیل نہیں کی گئی ہے ؟
جواب: کانگریس کو بچائیے ، یہ اپیل ہم نے کبھی نہیں کی ۔ گذشتہ 139برسوں سے کانگریس پارٹی قائم ہے ۔ پارٹی کی تنظیم اور الیکشن دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ الیکشن کے موقع پر تمام دستوری اداروں اور خود مختار تنظیموں سے عوام کا اعتماد اُٹھ گیا ہے۔ ان اداروں کے سربراہوں کی نامزدگی انتخابی کمیٹی کی جانب سے ہوتی ہے ۔ بہتر نامزدگی کے سلسلے میں اپوزیشن قائدین کی رائے کی اہمیت تھی ، اب یہ بات نہیں ہے ۔ انفارمیشن کمشنر ، سی بی آئی ڈائرکٹر وغیرہ جیسے اہم عہدوں کو وزیر اعظم نے اپنے ہاتھوں میں لے لیاہے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد عوام اس بات کو سمجھیں گے ۔
سوال : یعنی خود مختار وں کے سربراہ مودی کے ہاتھوں میں گڑیا کی طرح ہیں ؟
جواب: 100فیصد عہدہ داروں کو وزیراعظم ہی نامزد کرتے ہیں ۔ اگر کوئی اس کی مخالفت کرتا ہے تو وزیر اعظم اس سے استعفیٰ طلب کرلیتے ہیں یا اسے نکال پھینکتے ہیں یا اس کی ترقی رک جاتی ہے ۔ الیکشن کمیشن ، آر بی آئی گورنر کیس دائر کرنے کی دھمکی دے کر کانگریس پارٹی سمیت تمام پارٹیوں کے 444؍ارکانِ اسمبلی کو انھوں نے اپنی حمایت میں لے لیا ہے ۔ لوک سبھا کے ارکان ، راجیہ سبھا کے ارکان کو طاقت کے مظاہرے سے خوفزدہ کرکے انھیں اپنی طرف کرلیا ہے۔ عوام کی جانب سے منتخبہ راجستھان ، کرناٹک ، مہاراشٹرا ، مدھیہ پردیش ، اُترا کھنڈ اور گوا کی حکومتیں توڑنے میں وہ کامیاب ہوگئے ہیں ۔ جمہوریت انھیں نہیں چاہیئے ، یہ آمرانہ انداز آج نہیں ، کل مضر ثابت ہوگا۔
سوال : 2019؍ اور اس بار کے انتخابات میں کیا فرق ہے ؟
جواب : کئی جھوٹے وعدے کرکے 2014؍ اور 2019کے انتخابات میں وہ برسر اقتدار آگئے ۔ 2کروڑ افراد کو ملازمتیں مل رہی ہیں ، ہر ایک کے اکائونٹ میں 15 لاکھ روپئے کہاں ہیں ۔ کسانوں کی آمدنی دگنی ہونے والی ہے ۔ کیا یہ تمام مودی کی گیارینٹیاں نہیں ہیں ۔ یو پی اے حکومت نے کیا کیا منیریگا ، غذائی اجناس ، دیہی صحت کی مہم ، لازمی تعلیم جیسے حقوق یو پی اے ے دیئے ۔ تمام پر جی ایس ٹی ، حکومت کا کارنامہ ہے ۔ دوسری طرف بڑے پیمانے پر سیسل وصول کرتے ہیں ، لیکن اس میں ریاستوں کا حصہ نہیں ہے اور وفاقی حکومت اسے آپ ہی قرار دیتے ہیں ۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے اس وقت مودی نے ہمارا ٹیکس ہمارے ساتھ کہا تھا ۔ وہی نعرہ اپوزیشن والے لگا رہے ہیں تو آپ کو اس سے کیوں تکلیف ہورہی ہے ۔
سوال : جن ریاستوں میں آپ کی پارٹی برسر اقتدار ہے وہاں گیارینٹی اسکیموں کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب: ہم اپنے وعدوں پر عمل پیرا ہیں ۔ کرناٹک ، تلنگانہ ، ہماچل پردیش میں گیارینٹی وعدوں کو روبہ عمل لایا ہے، ان باتوں کو چھوڑ کر حالات کو اپنی تقدیر سے جوڑنے والے اب مودی کی گیارینٹی شروع کرچکے ہیں ۔ وہ اب اسے بی جے پی کا پروگرام کہہ رہے ہیں ۔ مودی کہیں بھی پارٹی کا نام نہیں لیتے ۔ ہر کام اور ہر پروگرام کو مودی کا نام دینے والے مودی ، اسے شروع کرنے والے مودی قرار دیتے ہیں ۔ پارٹی کا نام یہ لوگ بھول کو بھی نہیں لیتے۔
سوال : تو کیا یہ مودی کی مقبولیت نہیں ؟
جواب : مود ی اپنے آپ کی اپنے نام کی تشہیر کرتے ہیں ، ہر چیز کو اپنے نام سے مشہور کرتے ہیں ۔ اس طرح مودی مودی چل پڑا ہے ۔ آج وہ ہمارے ساتھ ہیں ،اس طرح سچائی سے لوگ واقف ہورہے ہیں ۔ مودی نے کیا کیا ہے لوگوں کے پیٹ بھرنے کے لئے انھوں نے کوئی اسکیم بنائی ہے ۔ عوام نے اگر ایسی کوئی غلط فہمی پالی ہے تو مستقبل میں اس کے لئے وہ خود ذمہ دار ہوں گے ۔
سوال : انڈیا اتحاد اگر اب وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدوار کے نام کا اعلان کرے تو کیا مناسب ہوگا؟
جواب : آپ کو پتہ ہے ہم نے مفاہمت کی ہے ، پہلے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ہے ۔ بعد میں وزیر اعظم کا انتخاب کرنا ہے ، عوام مودی حکومت کے خلاف ہیں ۔ مودی اور ان کی حکومت کو گرانے کے لئے کتنی تعداد درکار ہے ، اُتنی تعداد نشستیں ہم جیتنے والے ہیں ۔
سوال : دوست پارٹیوں میں کیا نیا اتحاد یا مفاہمت ممکن ہے ؟
جواب : یقینا ۔ ایک دو جگہ چھوٹے موٹے مسائل ہیں ، مغربی بنگال میں اختلاف تھا ، یہ سب کو معلوم ہے ۔ ممتا اتحاد میں شامل ہوں گی ۔ اروند کیجریوال دور تھے ، اب وہ ہمارے ساتھ ہیں ۔ اس طرح مفاہمت اور دوستی مضبوط ہوئی ہے ۔ باہمی اتحاد اور اعتماد میں اضافہ ہوا ہے ، ہم سب تعاون اور اعتماد کے ساتھ رہیں گے ۔
سوال : کرناٹک میں آپ کی کیا اُمیدیں ہیں ؟
جواب : اس بار ہم نتائج دکھائیں گے ، قابل لحاظ حد تک نشستوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ ریاستی قائدین نے نشستوں کی تعداد مقرر کی ہے ۔ میرے اندازے سے بی جے پی کا صد فیسڈ نشستیں حاصل کرنے کا دعویٰ غلط ہے ، ہم 15تا20نشستیں جیت لیں گے۔
سوال : بی جے پی کی شکست کو آپ کس بنیاد پر یقینی قرار دیتے ہیں ؟
جواب : ہم تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں ۔ مودی لہر نہیں ہے ۔ اس سے سب لوگ واقف ہیں ۔ مودی پہلے کہیں تقریر کرکے چلے جاتے تھے ، آج گلی گلی محلہ محلہ ریالی کرتے ہیں ۔ اس حد تک ان کی مقبولیت نہیں ہے ۔
سوال : الیکشن کے بعد کرناٹک کی کانگریس حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا، یہ دعویٰ بی جے پی قائدین کررہے ہیں ؟
جواب : یہ ممکن ہی نہیں ۔ یہ ایک مضبوط حکومت ہے ، کوئی بھی آئے ، یہ حکومت برقرار رہے گی ۔ یہ حکومت اچھے کام کررہی ہے ، انھیں وہ آگے بھی برقرار رکھے گی ۔
سوال :کرپٹ لوگ بی جے پی میں شامل ہوتے ہیں ، اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟
جواب : 25بڑے بڑے گتہ دار ، کارپوریٹ شعبے کے سی ای او ، ای ڈی مقدمات کا سامنا کررہے ہیں ،ایسے مقدمات میں ملوث لوگوں کو بی جے پی عہدے دے رہی ہے۔ بد کردار کرپٹ لوگوں کو چھوڑوں گا نہیں کے وعدے کی تقریر کرکے انھیں جیل بھجوانے کا وعدہ کرنے والے امیت شاہ نے ایک واشنگ مشن رکھی ہے ۔ مودی کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا