مسلمان ضدّی ہیں یا ملک کے حالات سے بے خبر

0
80

۰۰۰
مشرّف شمسی
۰۰۰
عید الفطر اپنے گاوں کھگریہ ،بہار میں منانے کے بعد کچھ دنوں تک علاقے کی انتخابی سرگرمیوں کو سمجھنے کے لئے گاوں میں ہی رک گیا تھا۔23 اپریل کی ٹکٹ سہرسہ – باندرہ ہمسفر ایکسپریس سے تتکال میں لیا۔گاوں سے ممبئی انے کے لئے میں پھر کسی طرح کی غلطی دہرانا نہیں چاہتا تھا۔خیر 23 اپریل کی شام 5 بجے گاوں جلورا سے کھگریا کے لئے نکل گیا جو دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔شام سات بجے ہمسفر ایکسپریس کا کھگریا جنکشن سے کھلنے کا وقت ہے۔میں 6 بجے کے قریب کھگریا جنکشن پہنچ چکا تھا اور چونکہ ٹرین کے انے میں کافی وقت تھا اسلئے میں اے سی ویٹنگ روم میں ٹرین کا انتظار کرنے چلا گیا۔ ویٹنگ روم میں اور بھی کئی مسافر تھے لیکن ویٹنگ روم کا اٹینڈنٹ ندارد تھا۔نصف گھنٹہ گزر جانے کے بعد وہ ایا اور بیٹھے مسافروں سے اے سی ٹکٹ دکھانے کا مطالبہ کرنے لگا۔لیکن ٹکٹ دکھانے سے پہلے میں نے ویٹنگ روم اٹینڈنٹ کو کہا کہ ویٹنگ روم کا اناونسمینٹ مائک نہیں چل رہا ہے۔اسلئے پلیٹ فارم پر کون سی ٹرین ا رہی ہے اور کون سی ٹرین تاخیر سے چل رہی ہے پتہ ہی نہیں چل رہا ہے۔اْسنے الیکٹریشن سے شکایت کرنے کے بجائے خود ہی مائک کو اوپر نیچے کرنے لگا لیکن مائک ٹھیک نہیں ہوا اور پھر وہ اٹینڈنٹ چلا گیا اور جب تک میں رہا وہ نہیں دکھا۔ ہمسفر ایکسپریس انے کے وقت میں جب دس منٹ بچے تو میں پلیٹ فارم پر اپنا سامان لے کر چلا گیا لیکن انڈیکیٹر پر اس وقت تک گاڑی انے کی کوئی خبر نہیں تھی۔حالانک سہرس سے کھگریا کی دوری محض ڈیڑھ گھنٹے کی ہے اسلئے گاڑی وقت پر ا?نے کی پوری اْمید رہتی ہے۔ وقت سیصرف پانچ منٹ پہلے ہمسفر ایکسپریس انے کی خبر ہوئی اور تب کوچ پوزیشن بھی نظر انے لگا۔ہمسفر ایکسپریس میں ایک ہی طرح کے کوچ ہوتے ہیں یعنی سلیپر کلاس یا اے سی سلیپر لیکن اس ٹرین میں ڈائنامک کرایہ ہوتا ہے۔میرا بی7 میں ریزرویشن تھا اسلئے جہاں میں کھڑا تھا وہاں سے میرا کوچ پوزیشن انجن کی جانب اٹھ کوچ اگے بتا رہا تھا۔ میں اپنا سامان لے کر اپنی بوگی کی جانب بڑھ گیا اور جہاں کوچ بی 7 دیکھا رہا تھا وہاں پہنچ کر بینچ پر بیٹھ گیا۔تبھی میری نظر ڈھیر سارے کرتا پائجامہ اور ٹوپی پہنے بچّے، نوجوان اور بڑوں پر پڑی۔ میں جہاں بیٹھا ہوا تھا وہاں سے تین بوگی اگے وہ لوگ کھڑے تھے۔ ہمسفر ایکسپریس میں کوئی جنرل ڈبہ نہیں ہوتا ہے اسلئے وہ بچے جنرل ڈبہ کے لئے انتظار نہیں کر رہے تھے۔
جب تک میں کچھ اگے سمجھ پاتا وہ پوری بھیڑ جو تقریباََ تین سو کے قریب ہونگے اپنا جھولا اور بیگ لیکر پیچھے کی جانب جانے لگے کیونکہ اْنکا ریزرویشن سلیپر میں تھا اور سلیپر ٹرین کیپیچھے کی جانب تھا۔گاڑی انے کا اعلان ہو چکا تھا۔مجھے نہیں لگ رہا تھا کہ یہ مدرسہ کے بچّے ٹرین پکڑ پائیں گے۔ خیر ٹرین انے میں کچھ منٹوں کی تاخیر ہوئی اور وہ لوگ اپنی بوگی کے سامنے ٹھیک سے پہنچ گئے۔مجھے لگا کہ یہ بچّے ممبئی کے کسی مدرسے میں پڑھتے ہونگے۔لیکن ٹرین میں جب چڑھا تو معلوم ہوا کہ اس ٹرین میں زیادہ تر لوگ گجرات جانے والے ہیں۔اْن مدارس کے بچوں کو دیکھ کر میں سہما سہما سا بھی تھا کیونکہ ابھی ایک ڈیڑھ سال کا واقعہ ہے کہ جلگاوں میں بہار سے اسی طرح جا رہے بچوں کو پکڑ لیا گیا تھا اور اْنہیں پولس اسٹیشن لے جایا گیا تھا۔کچھ مدرس پر ایف ائی ار بھی کیے گئے تھے۔صرف مہاراشٹر کے جلگاوں میں ہی نہیں ایک اور جگہ اسی طرح کا واقعہ ہو چکا ہے۔لیکن کھگریااسٹیشن پر ایک اور ہجوم میری بوگی کے بغل میں نظر ا رہا تھا۔ایک نوجوان شَخص پھول کا ہار پہنے ہوئے تھا اور کئی نوجوان اس کے ساتھ اور تھے۔ لوگ فوٹوگرافی بھی کر رہے تھے۔مجھے لگا کہ شاید شادی ہے۔خیر ٹرین ائی اور میں ٹرین کے اندر گیا۔ بوگی کے اندر گھستے ہی میرا تین نمبر برتھ تھا جو اوپر کا تھا۔
دو لوگ نیچے والی برتھ پر امنے سامنے بیٹھے تھے میں بھی اپنا سامان سیٹ کر کے بیٹھ گیا۔ادھے گھنٹے کے بعد بیگو سرائے اسٹیشن ایا۔وہاں بھی نوجوانوں کی بھیڑ نظر ائی اور وہ سبھی بھی بغل کے ڈبہ میں چلے گئے۔بغل کے ڈبہ میں یوں ہی گیا تو صرف نوجوان ہی نوجوان نظر ا رہے تھے۔مجھ سے رہا نہیں گیا اور ایک نوجوان سے پوچھ بیٹھا اپ لوگ کہاں جا رہے ہیں تو اْسنے کہا کہ ہم لوگوں کا ارمی میں سلیکشن ہو گیا ہے اور ہم سبھی ٹریننگ کے لئے جبلپور جا رہے ہیں۔میں نے کہا کہ اگنی ویر تو اْسنے ہاں میں سر ہلایا۔حالانکہ جب پورے ملک میں الیکشن چل رہے ہوں تو ایسے میں کسی بھی محکمہ میں تقرری انتخابی ضابطہ اخلاق کے خلاف نہیں ہے؟
جو دو لوگ پہلے سے میرے کوپ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ دونوں نے سہرسا سے ٹرین پکڑے تھے اور دونوں کا سابق لوک سبھا رکن محبوب علی قیصر کے گاوں سمری بختیار پور سے تعلق تھا۔ہمسفر ایکسپریس اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔میرے بوگی پوری طرح بھری نہیں تھی۔ہر ایک اسٹاپ پر دو چار لوگ چڑھ رہے تھے اور یہ سلسلہ مغل سرائے تک جاری رہا۔حالانکہ عید الفطر منانے کے بعد واپس ا رہے مسافروں کی تعداد کافی تھی لیکن میرے کوپ میں اٹھ میں سے پانچ عید منا کر واپس ا رہے تھے۔مجھے تعجب تو تب ہوا جب پہلے سے بیٹھے دو میں ایک جسکی عمر چالیس کے قریب تھی باضابطہ اپنے برتھ پر جا نماز لے کر چل رہا تھا۔حالانکہ میں نے کہا بھی کہ اج ملک کے حالات اچھے نہیں ہیں۔سفر کا قضاء نماز ممبئی پہنچ کر بھی پڑھ سکتے ہیں تو اس نے بہت سنجیدہ ہو کر کہا کہ اپ یہ بول رہے ہیں۔ میں رمضان کی شروعات میں ہی گاوں ا گیا تھا۔ اتے وقت میرا برتھ اندر کا نیچے کا برتھ تھا اور بیچ کا برتھ لگا ہوا تھا۔
اْسنے کہا کہ وہ اس برتھ پر نماز نہیں پڑھ سکتا تھا اسلئے سائڈ لور برتھ پر بیٹھے تین مسافروں جو غیر مسلم تھے سے کہا کہ اپ میرے برتھ پر ا جائیں اپ لوگ کے برتھ پر مجھے نماز پڑھنی ہے وہ سبھی بنا چوں چراں کیے میری برتھ پر ا گئے اور میں نے نماز پڑھی۔یہ سلسلہ پورے راستے چلتا رہا۔میں اس مسافر جس کا نام مرتضیٰ تھا اور کسی فلم پروڈیوسر کے پاس ٹیکنیشن کا کام کرتا ہے کا منہ دیکھتا رہ گیا اور پھر سوچنے لگا ملک کا مسلمان ضدی ہے یا حالات سے بے خبر ہے۔مرتضیٰ ممبئی انے میں ہر ایک نماز باقاعدگی سے پڑھتا رہا جبکہ مغل سرائے میں سائڈ لور اور ایک مڈل برتھ پر ایک ہی پریوار کے تین لوگ یعنی ان دو برتھ پر سفر کر رہے تھے۔ سفر اچھا گزر رہا تھا۔صبح ہوئی لیکن میں اب بھی سمجھ نہیں پایا تھا کہ اتنے بچّے اخر جا کہاں رہے ہیں۔بچوں کے اس قافلہ میں کچھ لوگوں کے برتھ اے سی میں بھی تھے۔ اخر مجھ سے رہا نہیں گیا تو اسی قافلہ کے دو مولویوں کو بوگی میں روکا اور اس سے پوچھا کہ اتنے بچّے اخر کہاں جا رہے ہیں تو اْن لوگوں نے کہا کہ وہ سب نندور بار اسٹیشن پر اتریں گے اور وہاں سے عقل کنواں مدرسہ جائینگے۔میں نے کہا کہ غلام بستوی صاحب کے مدرسہ میں تو اس نے کہا ،ہاں۔
اْن دونوں نے بتایا کہ یہ سبھی بچے مدرسہ کے بچے نہیں ہیں بلکہ ایک بچہ مدرسہ میں پڑھتا ہے اور وہ دس اور بچوں کو مدرسہ میں داخلہ کے لئے لے جا رہا ہے۔اْن بچوں نے بتایا پڑھائی کے ساتھ اس عقل کنواں کے مدرسہ میں رہائش اور کھانا اعلی درجے کا ہوتا ہے۔ساتھ ہی مدرسہ میں ہی ڈپلومہ ،ائی ٹی ائی اور انجینئرنگ کے بھی کالج ہیں اور پڑھائی پوری طرح مفت ہوتی ہے۔اْن بچوں نے کہا کہ سر، عقل کنواں مدرسہ میں پڑھنے والے بچوں کی سماج میں وقار ہے اور لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اچانک میرے دماغ میں مولانا وستوی کے خلاف کس طرح پروپگنڈہ اور سازش رچی گئی تھی جب وہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم بنے تھے۔کاش اْنہیں اپنے عہدے پر رہنے دیا جاتا تو دارالعلوم دیوبند کا بھی کایہ پلٹ جاتا۔
خیر ٹرین جبل پور پہنچ چکی تھی۔میری بوگی کے بغل کے سبھی جوان ٹرین سے اْتر چکے تھے۔میں ٹرین کے اندر سے ہی دیکھ رہا تھا کہ کچھ رمی کے جوان اْن جوانوں کو لینے ائے تھے۔ٹرین سے ائے اْن سبھی اگنی ویروں کی ایک نئی زندگی کی شروعات ہو رہی تھی۔ٹرین جبل پور چھوڑ چکی تھی اور اپنی منزل کی جانب گامزن ہو چلی تھی۔پہلی بار میں نے ٹرین میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے دیکھے۔کیمرے چل رہے تھے یا نہیں اس بات کی تفشیش نہیں کی لیکن مجھے شک ہو رہا تھا کہ کیمرے چل بھی رہے ہیں؟ہمسفر ایکسپریس میں ڈائنامک کرایہ کیا جائز ہے؟ اس پر ہر ایک مسافر کو سوال اٹھانا چاہیئے۔کیونکہ ہمسفر ایکسپریس میں ڈائنامک جیسا کچھ بھی نہیں ہے۔اس ہمسفر ایکسپریس میں جو سہرسا سے باندرہ تک جاتی ہے اس میں زیادہ تر مزدور کلاس یا لور مڈل کلاس کے لوگ سفر کرتے ہیں وہ بھی مجبوری میں۔
خیر دوسرے دن شام میں ٹرین بھساول پہنچی۔بھساول انے سے پہلے سائڈ لور پر ساتھی مسافر سچن کمار سے پوچھا اس ٹرین میں ڈائنامک جیسا کیا ہے؟ تو اس نے کہا کہ اخر ٹرین کو بہتر کرنے کے لئے سرکار کو بھی پیسے چاہئے نہ۔میں نے پھر اس سے اگے کچھ نہیں کہا اور میں سمجھ گیا کہ صاحب مودی بھکت ہیں۔سچن واپی ، گجرات میں کسی فائنانس کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ اسی درمیان کب نندور بار ا? گیا مجھے پتہ ہی نہیں چلا کیونکہ میں اپنے برتھ پر سو رہا تھا۔ بھساول سے جب ٹرین کھلی تو مغربی ریلوے کا کوچ ٹی ٹی ای ایا اور سب سے ٹکٹ مانگنے لگا۔سچن کمار اپنی بیوی اور چھوٹے بھائی گلشن کمار کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ٹی ٹی ای نے جب سچن کمار سے ٹکٹ مانگا تو اس نے دو کنفرم ٹکٹ دکھایا اور ایک اپنے بھائی کا مغل سرائے کے کوچ ٹی ٹی ای کا بنایا ٹکٹ بتایا۔بھساول میں چڑھا ٹی ٹی ای اس ٹکٹ کو دیکھ کر ناراض ہوا اور سچن کمار کو کہا اس ٹرین میں بنا ریزرویشن نہیں چلتا ہے اور اسے باہر بلایا۔میں سمجھ گیا کہ پیسے لینے کے لئے اْسے باہر بلایا ہے۔ٹی ٹی ای اور سچن کمار پھر واپس ائے تو میں نے ٹی ٹی ای سے پوچھا کہ پ کا نام ؟ تو اس نے رمیش کمار بتایا۔پھر میں نے کہا کہ اپ اس گلشن کمار پر اعتراض نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ اپکا ساتھی ٹی ٹی ای نے اس کا ٹکٹ بنا کر اْسے ٹرین میں چلنے کی اجازت دی ہے۔ تو اس نے کہا کہ میں اس مغل سرائے کے اپنے ساتھی ٹی ٹی ای کی بھی شکایت کرونگا۔پھر میں نے کہا کہ جب ساتھی مسافر کو کوئی اعتراض نہیں ہے تو اپ کو کس بات کا اعتراض ہے ؟نہیں نہیں ایسا نہیں چلتا کہتا ھوا وہ ٹی ٹی ای چلا گیا۔میں نے تب سچن سے پوچھا کہ اس نے کتنا پیسہ لیا تو اس نے کہا دو سو روپیے۔اس معاملے پر کچھ دیر ساتھی مسافروں کے ساتھ چرچہ چلا اور بات ختم ہو گئی۔ دو ڈھائی گھنٹے کے بعد میں کھانا کر باتھ روم گیا تبھی وہ ٹی ٹی ای ایا اور سچن کمار کو باہر بلایا اور دو سو روپیے واپس کر دیا اور کہا کہ اس صاحب کہہ دینا کہ اس نے پیسہ واپس کر دیا ہے۔
میں جب باتھ روم سے واپس ایا تو سچن نے مجھ سے کہا۔ ٹی ٹی ای نے پیسے واپس کر دیے ہیں اور اس نے کہا کہ پ سے کہہ دوں۔
میں کچھ دیر سچن کی جانب دیکھا اور پھر کہا یہی عوام کی طاقت ہے۔اس نے کہا کہ میں سمجھا نہیں۔میں نے پوچھا کہ ٹی ٹی ای کا نام کیا تھا ،رمیش کمار۔رمیش کمار کس کا ادمی ریلوے کا۔ریلوے کون چلا رہا ہے بھارت سرکار اور بھارت سرکار کا مکھیا نریندر مودی۔اپ سے بے ایمانی کون کر رہا تھا نریندر مودی کا ادمی جو ہندو تھا اور اپ بھی ہندو ہیں۔پھر میں نے اگے کہا کہ جو بھی شخص طاقت میں ہوتا ہے وہ ہندو مسلم نہیں دیکھتا ہے وہ صرف اپنا مفاد دیکھتا ہے۔لیکن جب عوام ایک جْٹ ہوتا ہے تو بے ایمان حکومت راستے پر ا جاتی ہے۔میں نے کہا انکھ کھولیں جو صاف دیکھتا ہے اْسے سمجھنے کی کوشش کریں اسی میں ملک اور ہم سب کی بھلائی ہے۔سچن کمار نے کہا کہ بھائی صاحب میں سمجھ گیا اپکی بات۔واپی اسٹیشن پر ٹرین جب دو بجے رات کو پہنچی تو مجھے جگا کر جانے کی اجازت لی اور مشکور نظر سے مجھے دیکھا۔میری نیند کھل چکی تھی اور ڈبہ بھی تقریباً خالی ہو چکا تھا۔میں نیچے اسی سچن کمار کے برتھ پر ا کر بیٹھ گیا اور ہلکی جھپکی ائی تھی کہ باندرہ ٹرمینس ا گیا۔
لیکن میری سمجھ میں نہیں ایا کہ دس سال مودی حکومت نے ملک میں نفرت پھیلایا لیکن ایسا لگتا ہے کہ عام عوام سرکار کی نفرتی مشینری کو سمجھ چکے ہیں اور ہستہ اہستہ لوگوں کے درمیان سے نفرت زائل ہوتا جا رہا ہے۔ہاں باندرہ ٹرمینس آیا تو میں نے مرتضیٰ کو جگایا اور وہ جھٹ سے اٹھا اور اپنا سامان سمیٹا۔ساتھ ہی سر پر ٹوپی بھی ڈال لیا۔جبکہ وہ نماز کے دوران رومال سر پر رکھتا تھا۔اْسے دیکھ کر میں ہنسا بھی لیکن مسلمانوں کے بارے میں یہ ضرور کہنا پڑیگا کہ وہ مذہب کے تئیں ضدی ہیں یا اْنہیں ملک کے حالات سے واقفیت ہی نہیں ہے۔
میرا روڈ ،ممبئی
موبائیل 9322674787

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا