احتساب زندہ قوموں کا شعار ہے

0
71

 

 

فرحان بارہ بنکوی

’’احتساب‘‘ یہ فقط ایک لفظ نہیں؛ بلکہ زندگی جینے کے لیے ایک اہم ستون ہے، کہ جس پر زندگی کی خوشیاں، عیش و آرام ٹکے ہوئے ہیں اور اگر یہ ستون منہدم ہو جائے تو پھر زیست کی خوشیاں، فرحت و سرور ملیا میٹ ہو جاتی ہے، حیات کی شادمانی پامال ہو جاتی ہے۔
کوئی شخص بغیر احتساب کے بہتر زندگی نہیں گزار سکتا۔ بلا احتساب کے عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے کے خواب کبھی شرمند? تعبیر نہیں ہو سکتے۔ دن رات کی جاں فشانی کے بعد بھی خاطر خواہ فوائد نظر نہیں آ سکتے۔ خواہ کتنی بھی جان و مال کی قربانیاں پیش کی جائیں؛ مگر جب تک ماضی کا جائزہ لے کر اور اسے پیش نظر رکھ کر، منظم طریقے پر کوئی کام نہیں کیا جائے گا، تو سب قربانیاں، ساری محنتیں، تمام جفا کشی رائیگاں اور بے کار چلی جائیں گی؛ کیوں کہ احتساب تو، اپنی پچھلی غلطیوں کو یاد کرکے، اپنی لاپرواہیوں کو ذہن میں رکھ کر، اپنی کوتاہیوں کو پیش نظر رکھ کر، اور ان غلطیوں، کوتاہیوں، لاپرواہیوں سے سبق حاصل کرکے اور حاصل شدہ سبق کو مد نظر رکھ کر آئندہ کے لیے ایک لائح عمل تیار کرنے کا نام ہے۔
بغیر احتساب کے کوئی لائح عمل تیار کرنا، بس دل کو بہلانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ احتساب کے بعد تیار شدہ لائح عمل کے مطابق میدانِ عمل میں قدم رکھنے سے ہی امت کو گوناگوں ثمرہ فوائد حاصل ہو سکتا ہے، اور خاطر خواہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ بوقت احتساب ہمیں کشادہ ذہنی کے ساتھ اور فکر و شعور کے دریچے کھول کر، ہوش و دانش مندی سے کام لینا ہوگا، انفرادی فائدہ کو پسِ پشت ڈال کر، ملتِ اسلامیہ کے فوائد کے بارے میں سوچنا ہوگا، ذاتی مفاد کو نظر انداز کرنا ہوگا، تعلقات و روابط اور اقربا پروری کو فراموش کرنا ہوگا، تب ہی امت اسلامیہ ترقی کے بامِ عروج کی جانب رواں دواں ہو سکتی ہے۔ ذلت و نکبت سے ابھرنا اس جماعت کا مقدر ہو سکتا ہے؛ کیوں کہ جس ذلت کی عمیق کھائی میں یہ قوم جا گری ہے، بغیر اجتماعی احتساب کے اس پستی سے باہر آنا، اور اس ذلت و خواری سے نبردآزما ہونا، ممکن نہیں۔
آزادی کے بعد سے اب تک بغیر احتساب اور ماضی کا جائزہ لیے بغیر، اور کوئی لائح عمل تیار کیے بغیر لیے ہوئے فیصلوں کی وجہ سے اس قوم کا جو حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، اس ملت کی بے کسی اور بے چارگی کسی سے مخفی نہیں، اس قوم کی بے بسی اور کسم پْرسی کسی سے نہاں نہیں۔ اسی احتساب کو چھوڑ دینے کے باعث یہ جماعت بے یارو مددگار بن کر کر رہ گئی، اسی بے احتسابی کی بنا پر سماجی فلاح و بہبود کے دو راہے پر کھڑی نظر آتی ہے، سیاسی اعتبار سے قوم کا وجود حاشیہ پر پہنچ چکا ہے، اسی سیاست سے- کہ جو مسلمانوں کے گھر کی لونڈی تھی- ناواقفیت کی بنا پر تمام طرح کے مصائب ہم پر قطراتِ باراں کی طرح برس رہے ہیں، سماجی اعتبار سے ہم دلتوں سے حقیر گردانے جا رہے ہیں، یہ قوم تنزلی اور انحطاط کا شکار ہو چکی ہے، اور ایوانِ سیاست میں اس قوم پر ہو رہے مظالم پر کوئی آواز اٹھانے والا نہیں، چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی کوئی سیاسی قائد نظر نہیں آتا ہے، یہ جماعت ترقی کے حاشیہ پر پہنچ چکی ہے اور اس کا وجود داؤ پر لگا ہوا ہے۔
کیا ہم نے کبھی ماضی کا جائزہ لیا؟ ہم نے کبھی احتساب کیا کہ ہم نے زمان گزشتہ میں کیا غلطیاں کی ہیں؟ کہاں کہاں کوتاہیاں ہوئی ہیں؟ میدانِ سیاست میں کیا لغزش ہوئی ہے؟ تعلیم و ترقی کے حصول میں ہم سے کہاں چوک ہوئی ہے؟ سماجی روابط قائم کرنے میں ہم نے کونسی خامی کی ہے؟
ہم نے ہرگز احتساب نہیں کیا، اور نہ ماضی کا جائزہ لیا ہے؛ کیوں کہ احتساب تو زندہ قوموں کا شعار ہے اور جس قوم کے افراد احتساب سے غفلت برتتے ہیں تو ذلت اور رسوائی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔
[email protected]
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا