’’ووٹ دراصل ایک طرح کی تائید اور تعاون ہے ‘‘

0
64
قیصر محمود عراقی
خوب سمجھ لیجیئے کہ ووٹ کی حیثیت کیا ہے؟ دراصل ایک طرح کی تائید اور تعاون ہے ۔ یہ آپ کی جانب سے پست پناہی ہے اور امیدوار کے حق میں آپ کی طرف سے حاکمیت و قانون سازی کے اختیار کی منتقلی ہے ۔ آپ جا نتے ہیں کہ عوامی حاکمیت میں مملکت کے ہر شہری کو حکمراں اور قانون ساز تسلیم کیا جا تا ہے اور عوام الناس اپنے حکمرانی اور قانون سازی کا استعمال معمولاً پانچ سال میں بس ایک بار ووٹ ہی کی شکل میں کر تے ہیں اور اس طرح اپنے ووٹوں کے ذریعے اپنے علاقے سے اپنا ایک نمائندہ اسمبلی اور پارلیمنٹ کے لئے چن لیتے ہیں جو اس پوری مدت کا ر میں عوا م کے نمائندے کی حیثیت سے قانون سازی و حکمرانی کافریضہ انجام  دیتا ہے ۔
ہمارے ملک میں اس وقت ظلم کا خونی پنجہ اتنا طاقت ور ہو چکا ہے کہ علی الا علان خون کی ہو لی کھیلی جا رہی ہے ، لوگوں کے املاک لوٹی جا رہی ہیں ، عزت و آبرو پا مال کئے جا رہے ہیں ،بستیاں اُجاڑ ی جا رہیںاور لاشوں پر چڑھکڑ اقتدار کے قلعے پر قبضہ کر نے کی جدوجہد کی جا رہی ہے ، ظالموں کی حمایت میں نعرے لگائے جا رہے ہیں ، ذرائع ابلاغ درندوں کو فرشتہ بنا کر پیش کر رہے ہیں اور انصاف کے قاتلوں کو ہیرو بنایا جا رہا ہے ۔ ہمارے ملک میں انتخاب میں حصہ لینے اور عوامی نمائندہ منتخب ہو نے کے لئے نہ علم ، دانش کی شرط ہے اور نہ اخلاق و دیانت کی ضرورت ہے ، جاہل اور کم تعلیم یا فتہ افراد منتخب ہو جا نے ہیں اور ملک کے حساس مسائل کا فیصلہ ایسے کندہ نا تراش افراد کے حوالے ہو تا ہے ۔ ہمارے ملک میں بعض ایسے ارکان متفنہ بھی تھے اور ہیں جو دستخط کی صلاحیت سے بھی بے نیاز ہیں اور نشان ابہام ہی سے کام چلاتے ہیں ۔ اب بات اس سے بھی آگے جا چکی ہے اور بڑی تعداد میں ایسے عناصر مجالس قانون ساز میں پہنچ رہے ہیں جو نام زد اور نام و ر مجرم ہیں ۔ان پر قتل ، زنا ، غصب اور رہزنی کے علانیہ جرائم ہیں ، پہلے پولس گر فتار کر نے کے لئے ان کا پیچھا کر تی تھی اب ان کی حفاظت اور سلامتی کے لئے ان کے پیچھے پیچھے رہتی ہے ۔ کرپشن  اور سیاست کا اب چولی دامن کا رشتہ ہے ، جو لوگ الیکشن میں کھڑے ہو تے ہیں ان میں شاید ایک فیصد بھی ایسے نہیں جو حقیقت میں ایماندار کہلانے کے لائق ہوں ۔ کیونکہ موجودہ جو سیاسی حالات ہیں ان میں  اکثریت ایسے فراعنہ وقت ہیں جو ووٹروں کی خوش آمدی کر نے پر تُلے ہو ئے ہیں ، ایسے ایسے وعدے کر رہے ہیں کہ گویا ہر گھر میں دودھ کی نہریں بہا دینگے اور شہد کے چشمے جاری کر دینگے ، ان میں  بعض تو ایسے بھی ہیں جو اپنے دستخط بھی بہ تکلف ہی کرتے ہیں ، کسی پررہزنی کا مقدمہ ہے کسی پر قتل کا تو کسی پر آبرو ریزی کا ، رہ گئی رشوت اور مالی خرد برد تو یہ تو اس طبقے کے لئے ایک معمولی بات ہے ۔ کیونکہ بڑا لیڈر بننے کے لئے اسی درجے کا غنڈہ اور مکر و فریب کا ماہر ہو نا بھی ضروری ہے ۔
قارئین محترم ! بد قسمتی سے آج ہمارے ملک کی لیڈر شپ بہت گندی ہو چکی ہے ، جس کے بھانک نتائج ایک چیلینج کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں ، کیونکہ موجودہ مرکزی حکومت بی جے پی کی سرکار دستور ہند کے اصولوں کو اپنانے کے بجائے بڑی بے دردی سے اپنے پیروں تلے روند رہی ہے اور یہی وجہہ ہے کہ ملک مسلسل زوال کا شکار ہے اور تیزی کے ساتھ بر بادی کی طرف بڑھتا جا رہا ہے ،تازہ تر ین رپورٹ کے بمو جب بد عنوانی ور کر پشن کے معاملے میں آج ہندوستان پوری دنیا میں تیسرے نمبر پر پہنچ گیا ہے ۔ مودی سرکار ہندوستانی عوام کے ساتھ مسلسل دھوکہ کر تی چلی آ رہی ہے ، جب سے یہ فرقہ پر ست جماعت مرکز میں  بر سرِ اقتدار ہو ئی ہے تب سے آئین و دستور میں کتر بیو نت کر نا شروع کر دیا ہے اور اس آئینی تر میم و کتر بیو نت کی زد نہ صرف مسلمانوں پر پڑ رہی ہے بلکہ دوسری مذہبی اقلیتیں بھی اس سے متاثر ہو ئے بغیر نہ رہ سکیں ۔ جس کی زندہ مثال آئے دن اخبار اور میڈیا میں پڑھی اور سنی جا تی ہیں ۔ اب تو موجودہ حکومت کے بعض فرقہ پرست لیڈر کھلم کھلا اپنے عوام کو لا قانونیت ، بغاوت اور قتل و خون ریزی پر آمادہ کر رہے ہیں اور قاتلین و مجرمین کی علانیہ تعریف کر تے ہیں اور انہیں قومی ہیرو قرار دے رہے ہیں ۔ ایک دور تھا جب مندروں کے مہنت اور کٹیائوں میں چھپے ہو ئے سادھو انتخابی مہیم میں شریک نہیں ہوتے تھے لیکن اب وہ اپنی مخصوص مذہبی شکل و صورت میں تر شول لیئے ، بھگوا جھنڈا لہراتے ہو ئے اور جئے شری رام کا نعرہ لگا کر اس انتخابنی مہیم میں کود پڑے ہیں ، جو کہ ہندوستان جیسے سیکولر ملک کے لئے بہت بڑا خطرا ہے ۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس آج تعمیر و تر قی کا کوئی اعلیٰ منصوبہ نہیں ہے اور نہ ہی  وہ اعلیٰ انسانی قدروں پر ایمان رکھتی ہے ، اس کا صرف ایک ہی مقصد ہے ہندوستان میں ہندو راج کا قیام ، ہندو تہذیب کا احیا ، دیگر مذاہب خصوصاً اسلام کا خاتمہ اور ہندوستان سے مسلم یاد گاروں اور مسلم تہذیب اور تمدن کا صفایا ہو ۔
ایسے ماحول اور ان حالات میں مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ یہ نظریہ اپنے سامنے رکھیں کہ اس ملک میں رہنا ہے تو کیسے اور کس طرح رہنا ہے اور آئندہ کے لئے ایسا کیا لائحہ عمل بنایا جا ئے کہ کم سے کم ہماری آنے والی نسلوں کی زندگیاں محفوظ ہوں اور وہ اس ملک میں ایک ،با عزت شہری کی زندگی گذار سکیں ۔ حالانکہ ہمارے پاس دو راستے ہیں ہم چاہیں تو ان دو راستوں میں سے کوئی بھی ایک راستہ اپنا کر امن و سکون کی زندگی گذار سکتے ہیں ۔ ان میں ایک تو یہ ہے کہ ہم مسلمان اپنی ایک الگ پارٹی بنائیں اور سب مل کر اسے کا میاب کریں ، صرف افطار پارٹی اور عید ملن پارٹی میں اُلجھ کر نہ رہیں ، ذات پات ، مسلک و مذہب کو اس راہ میں حائل نہ ہو نے دیں بلکہ تمام مسلم تنظیموں ، مسلم رہنمائوں اور برادریوں سے بات چیت کی جا ئے ، علمائے کرام اور آئمہ مساجد کو اس کے لئے بیدار کیا جا ئے اور ان کو حالات سے پورے طور پر آگاہ کر کے ان کی جدوجہد کو کام میں لا یا جا ئے یا پھر دوسرا راستہ یہ ہے کہ موجودہ پارٹیوں میں سے کسی سیاسی سیکولر پارٹی کو جو بھارت کو امن و امان کے ساتھ آگے لے جا نے کی صلاحیت رکھتی ہو اسے اپنا کر اس سے باقاعدہ معاہدہ کیا جا ئے اور ساری قوم متحد ہو کر اس کو کا میاب بنائیں ۔ اس طرح امید ہے کہ حالات میں کچھ سدھار آئے ورنہ جو صورتِ حال اس وقت قوم کی ہے اس سے سوائے بد حالی اور ابتری کے کچھ حاصل نہ ہو گا ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا