اے ایمان والو! اسلام میں پورے داخل ہو جاؤ

0
52

۰۰۰
: محمد تحسین رضا نوری
پیلی بھیت یوپی
۰۰۰
ربِّ ذو الجلال کا بے شمار احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایمان جیسی عظیم دولت عطا فرمائی، اور اْمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں پیدا فرما کر ہمیں ’’خیر الامم‘‘ اور ’’وسط الامم‘‘ کے اعزاز سے سرفراز فرمایا، اس نعمت عظمیٰ کا جس قدر شکر ادا کیا جائے کم ہے کیوں کہ جو فضیلت و بزرگی اس اْمت کو حاصل ہے وہ کسی اور امت کو حاصل نہیں، خود اللہ رب العالمین نے قرآن کریم میں اس امت کی افضلیت و برتری بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’تم بہتر ہو ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ (ال عمران، 110) یہ واحد ایک ایسی اْمت ہے جس میں خود انبیاء کرام علیہم السلام نے بھی پیدا ہونے کی خواہش ظاہر فرمائی۔ پتہ چلا کہ ہر اعتبار سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں دوسروں پر فضیلت بخشی۔ اس لحاظ سے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ خیر الامم ہونے کا جو اعزاز ہمیں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے، ہم اس اعزاز کی قدر کریں، لیکن آج ہماری ایسی ناگفتہ بہ حالت ہے کہ دیکھ کے محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ہم مسلمان ہیں، رب العالمین نے ہمیں دولت ایمان سے مشرف فرمایا ہے تو ہمارا کردار اور رویہ ایسا ہونا چاہیے کہ غیر بھی دیکھ کر ہم پر فخر کریں، ہم دوسروں کے لئے نمونہ زندگی بنیں، دوسروں کو دیکھ کر اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں کو نہ بھولیں، غیروں کا طور طریقہ ہرگز نہ اپنائیں بلکہ پورے پورے مذہب اسلام میں داخل ہو جائیں، قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بھی مذہب کو اسلام پر کامل طور پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی۔
اور ارشاد فرمایا:
ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اسلام میں پورے داخل ہو اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
شان نزول:
اہل کتاب میں سے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے اصحاب، تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد شریعت موسوی کے بعض احکام پر قائم رہے، ہفتہ کے دن کی تعظیم کرتے، اس روز شکار سے لازماً اجتناب جانتے اور اونٹ کے دودھ اور گوشت سے بھی پرہیز کرتے اور یہ خیال کرتے کہ یہ چیزیں اسلام میں صرف مباح یعنی جائز ہیں، ان کا کرنا ضروری تو نہیں جبکہ توریت میں ان سے اجتناب لازم کیا گیا ہے تو ان کے ترک کرنے میں اسلام کی مخالفت بھی نہیں ہے اور شریعت موسوی پر عمل بھی ہوجاتا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا کہ اسلام کے احکام کی پوری اتباع کرو یعنی توریت کے احکام منسوخ ہوگئے اب ان کی طرف توجہ نہ دو۔ (تفسیر خازن ملخص: تفسیر صراط الجنان)
آیت مذکورہ کی مختلف تفاسیر:
امام ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ’’ادخلوا فی السلم آفۃ‘‘ کے تحت روایت کیا ہے کہ انہوں نے کاف کو منصوب پڑھا ہے، اور فرماتے ہیں یہ اہل کتاب کے مومنین کو خطاب ہے کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان کے ساتھ ساتھ تورات کے بعض احکامات اور ان پر نازل شدہ مسائل میں سے کچھ پر ابھی بھی عمل پیرا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا دین محمد کی شریعت میں مکمل طور پر داخل ہو جاؤ، اور اس میں سے کسی چیز کو نہ چھوڑو، تورات اور جو اس کے احکامات ہیں اس پر صرف تمہارا ایمان کافی ہے۔
امام ابن جریر نے عکرمہ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ثعلبہ، عبد اللہ بن سلام، ابن یامین، اسد، اسید (یہ دونوں کعب کے بیٹے ہیں)، سعید بن عمرو اور قیس بن زید کے متعلق نازل ہوئی۔ یہ تمام یہودی تھے، انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ! ہفتہ کے دن کی ہم تعظیم کرتے تھے اب بھی آپ ہمیں اجازت دیں کہ ہم اس میں اپنی عبادت کیا کریں اور تورات اللہ کی کتاب ہے، آپ ہمیں اجازت دیں کہ ہم رات کے وقت اس کی کھڑے ہو کر تلاوت کیا کریں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (تفسیر در منثور، جلد اول)
مفسرین لکھتے ہیں:
ترجمہ: جب عبد اللہ بن سلام اور اْن کے وہ اصحاب جو ہفتہ کے دن کی تعظیم کرتے اور اسلام کے بعد بھی اونٹ کے گوشت کو مکروہ سمجھتے، تو اْن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ، یہاں ’’سلم‘‘ یہ سین کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ آتا ہے اس کا معنی اسلام ہے۔ اور ’’کافہ‘‘ یہ سلم سے حال ہے۔ یعنی مکمل طور پر اسلام میں داخل ہو جاؤ اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، کیوں کہ وہ ان کو سجا کر رکھتا ہے، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ یعنی اس کی دشمنی واضح ہو چکی ہے۔ (تفسیر جلالین، سورہ بقرہ)
ترجمہ:‘ یہ آیت کریمہ مومنین اہل کتاب کے تعلق سے نازل ہوئی، حضرت عبد اللہ بن سلام نضیری اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں اور وہ اس طرح کہ وہ حضرات ہفتہ کے دن کی تعظیم کرتے، اور اونٹ کے گوشت اور اونٹنی کے دودھ سے اسلام لانے کے بعد بھی اظہار کراہت کرتے، اور عرض کیا یا رسول اللہ! تورات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور ہمیں اجازت دیجیے کہ ہم راتوں کی نمازوں میں اس کی تلاوت کریں، پس اللہ تبارک وتعالیٰ نے نازل فرمایا: الذن آمنوا ادخلوا ف السلم افۃ‘‘ یعنی اسلام میں۔ حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہل اسلام کے احکام اور اعمال میں پورے طور پر داخل ہو جاؤ اور کہا گیا اسلام میں داخل ہو جاؤ۔ تمام شرعی احکام میں مکمل طور پر اس حال میں کہ اس کے سوا کسی اور کی طرف تجاوز کرنے والے نہ ہو۔ اور سلم اصل میں استلام سے اور انقاد سے ہے (یعنی مطیع اور فرمانبردار ہونا) اسی لیے صلح کو سلم کہا جاتا ہے۔ حضرت سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں: اسلام آٹھ حصے ہے، پس آپ نے نماز، زکٰوۃ، روزہ، حج، عمرہ، جہاد، امر بالمعروف ونہی عن المنکر شمار فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ وہ شخص ناکام اور نامراد ہوا جس کو کوئی حصہ نہ ملا۔ (تفسیر بغوی، تفسیر سورہ بقرہ، آیت 208)
ترجمہ: (مزید اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:) ’’ولا تتبعوا خطوات الشطان‘‘ اس کے قدموں کے نشانات کی پیروی نہ کرو جو وہ تمہارے لیے مزین کرے ہفتہ کی تعظیم اور اونٹ کے گوشت کی کراہت کے بارے میں۔ ’’ان لم عدو مبین‘‘ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے، پس حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوال کیا کہ ہم یہود سے ایسی باتیں سنتے ہیں جو ہمیں اچھی لگتی ہیں کیا آپ ہمیں اجازت عطا فرماتے ہیں کہ ہم اْن کی بعض باتیں لکھ لیا کریں، حضور علیہ الصلوٰ? والسلام نے فرمایا: کیا تم (دین کے معاملے میں) حیران و سرگرداں ہو جس طرح سے یہود و نصاری ہوئے تھے ؟ میں تمہارے لیے سفید اور صاف و شفاف (ملت) لے کر آیا ہوں۔ اگر موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو اْن کے لیے میری پیروی کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا۔ (ایضاً)
بعض مفسرین اس آیت کی توضیح و تشریح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یایا الذین امنوا ادخلوا‘‘ اس آیت کا معنی عام بھی ہے اور خاص بھی، عام تو یہی ہے کہ یہ خطاب عام مومنین کو ہے یعنی جتنے اس آیت پر ایمان لائے، اب معنی یہ ہوا کہ اے لوگو! اسلام کے ظاہری اور باطنی شرائط کے ساتھ اسلام میں ظاہر ہو جاؤ، اسلام کے منجملہ شرائط میں سے ایک وہ ہے جو حضور علیہ الصلوٰ? والسلام نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے اہل اسلام کو سلامتی ہو، اور مومن وہ ہے جس کے شر سے اہل ایمان کو امن ہو، اور معنی خاص یہ ہے کہ آیت میں خطاب خاص ہے یعنی اس میں حضرت انسان کے تشخص اور اس کے جمیع اجزاء ظاہر و باطن کو خطاب ہے اس لیے انسان پر لازم ہے کہ اپنے ہر عضو کو اسلام میں داخل کرے، مثلاً آنکھ کو دیکھنے کے اسلامی عمل میں اور کان کو سننے اور منہ کو کھانے اور فرج کو شہوات سے روکنے اور ہاتھ کو پکڑنے اور پاؤں کو چلنے میں مشغول رکھے، اور ان اعضاء کا اسلام میں داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک عضو امر الٰہی کو بجا لانے اور نواہی سے بچنے میں چست و چالاک ہو بلکہ جہاں تک ہو سکے لایعنی امور سے دور رہیں، اور جو امور قابل عمل ہیں اْن کو بجا لانے کے درپے رہے۔ (تفسیر روح البیان) لہٰذا معلوم ہوا کہ ہر طرح کے برے کاموں سے خود کو روکے رکھیں، نمازوں کی پابندی کریں، غیروں کا کلچر ہرگز نہ اپنائیں، چہرے پر داڑھی رکھ کر سروں پر عمامہ شریف سجا کر، اسلامی لباس پہن کر جہاں تک ہو سکے حضور علیہ الصلوٰ والسلام کی سنتوں کو زندہ کریں۔ اسلام کو پس پشت ڈال کر خود کو دوسروں کے کلچر میں ڈھال لینا یہ یقیناً ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔ جیسا کہ صراط الجنان میں اسی آیت کریمہ کے توضیح و تشریح میں صاحب صراط الجنان لکھتے ہیں: ’’یاد رکھیں کہ داڑھی منڈوانا، مشرکوں کا سا لباس پہننا ، اپنی معاشرت بے دینوں جیسی کرنا بھی سب ایمانی کمزوری کی علامت ہے جب مسلمان ہو گئے تو سیرت و صورت، ظاہر و باطن، عبادات و معاملات، رہن سہن، میل برتاو?، زندگی موت، تجارت و ملازمت سب میں اپنے دین پر عمل کرو۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان کا دوسرے مذاہب یا دوسرے دین والوں کی رعایت کرنا شیطانی دھوکے میں انا ہے۔ اونٹ کا گوشت کھانا اسلام میں فرض نہیں مگر یہودیت کی رعایت کے لئے نہ کھانا بڑا سخت جرم ہے۔ کافروں کو راضی کرنے کیلئے گائے کی قربانی بند کرنا بھی اسی میں داخل ہے۔ یونہی کسی جگہ اذان بند کرنا یا اذان اہستہ اواز سے دینا سب اسی میں داخل ہے۔ربِّ کریم ہم سب کو جملہ اسلامی اصولوں پر عمل کی توفیق دے، اور ہمارے ایمان و عقیدے کی حفاظت فرمائے، آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا