انشائیہ-ایک خوابِ پریشاں‘،ایک تاثر

0
142

 

 

 

 

محمد علیم اسماعیل
8275047415

’’انشائیہ-ایک خوابِ پریشاں‘‘ معروف ادیب اور انشائیہ نگار محمد اسد اللہ کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ یہ مجموعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی کے مالی تعاون سے، الفاظ پبلی کیشنز، کامٹی (ناگپور) سے ۲۰۲۱ ؁ء میں شائع ہوا ہے ۔
انشائی مجموعوں اور طنزو مزاح کی کتابوں کے علاوہ محمد اسد اللہ نے اس صنف کی تحقیق و تنقید کا احاطہ کر نے والی درج ذیل کتابیں بھی شائع کی ہیں ۔’ انشائیہ کی روایت مشرق و مغرب کے تناظر میں‘ ،’یہ ہے انشائیہ‘ ، اور’انشائیہ شناسی۔‘ اسی سلسلے کو انھوں نے آ گے بڑھایا ہے اوراب ان کی نئی کتاب’ انشائیہ-ایک خوابِ پریشاں‘ منظرِ عام پر آ ئی ہے ۔ اس میںشامل مضامین کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہ سبھی کسی نہ کسی طرح صنف انشائیہ سے متعلق معلومات پیش کرتے ہیں ، کوئی سوال اٹھاتے ہیں یا انشائیے کے متعلق کسی سوال کا جواب دیتے نظر آ تے ہیں ۔
کتاب کے پیش لفظ میں محمد اسد اللہ لکھتے ہیں: ’’زیرِنظر کتاب، ’انشائیہ۔ ایک خوابِ پریشاں‘ گزشتہ برسوں کے دوران انشائیے سے متعلق قلمبند کئے گئے میرے مضامین کا مجموعہ ہے۔ میں نے ان تحریروں میں اس صنف کے متعلق اٹھائے گئے سوالات پیش کر کے ان کا حل تلاش کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ ان مضامین میں بیشتر اُن ادیبوں اور ناقدین کے خیالات، ان کے ناموں اور حوالہ جات کے ساتھ موجود ہیں جنھوں نے انشائیے کو سنوارنے، پروان چڑھانے اور اس کے متعلق غور و فکر کرنے میں اپنی عمر عزیز کا بڑا حصہ صرف کیا۔ ان میں میرے معروضات بھی شامل ہیں جن سے اختلاف کی گنجائش بہر حال موجود ہے۔ مجھے امید ہے اس صنف کے استحکام میں میری یہ حقیر سی خامہ فرسائی بنظرِ استحسان دیکھی جائے گی۔‘‘
دیکھا آپ نے… محمد اسد اللہ کہتے ہیں کہ ان کے معروضات سے اختلاف کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔ اسے کہتے ہیں بڑا فنکار۔ ورنہ کچھ ادیب تو ایسے ہیں جو اپنی کہی ہوئی بات کو پتھر کی لکیر مان لیتے ہیں۔ اسی سے ایک واقعہ یاد آیا۔ پچھلے دنوں کی بات ہے کہ ایک نقاد موبائل پر میری مرتب کردہ کتاب ’’افسانچے کا فن‘‘ پر بات کر رہے تھے۔ دوران گفتگو انھوں نے مجھ سے کہا، ’’مجھے اِس کتاب میں بیان کی گئی کچھ باتوں سے اختلاف ہے اور سب سے پہلے تو میں آپ کی ہی پکڑ کروں گا۔‘‘ مطلب کہ میرے مقدمے میں بیان ہوئی باتوں کی۔ میں نے کہا، ’’آپ کو اختلاف جتانے کا پورا حق حاصل ہے۔ جب نقاد حضرات شمس الرحمن فاروقی صاحب سے اختلاف کر سکتے ہیں تو پھر میری کہی ہوئی باتیں پتھر کی لکیر کیسے ہو سکتی ہے۔‘‘
آ ئیے ! اب اس کتاب کی مشمولات پر ایک نظر ڈالیں ۔اس میں درج ذیل مضامین شامل ہیں:… یہ ہے انشائیہ، تعریفِ انشائیہ، انشائیے کی شناخت، پس پردہ، آزادی اظہار کا مظہر: انشائیہ، عالمی مسائل کا اظہار اردو ادب میں، مغرب میں انشائیے کی روایت، عہدِ سرسید میں انشائیہ نگاری، مولانا ابوالکلام آزاد اور انشائیہ نگاری، کرشن چندر اور انشائیہ نگاری، وزیر آغا کی انشائیہ نگاری، غلام جیلانی اصغر، انور سدید، جدید انشائیہ نگاری کا ایک اہم ستون: جمیل آذر، انشائیے کا مستقبل، انشائی مجموعے: ایک نظر میں… اس کے علاوہ محمد اسد اللہ سے لیے گئے دو انٹرویو جو ڈاکٹر ناصر الدین انصار اور مختار احمد میر نے لیے ہیں، شاملِ کتاب ہیں۔ اس کے علاوہ محمد اسداللہ کا ماہنامہ اردو دنیا کو انشائیے کے ضمن میں لکھا ہوا ایک خط اور آخر میں مصنف کا شناس نامہ دیا گیا ہے۔
بطور انشائیہ نگار محمد اسد اللہ اپنی ایک مستحکم شناخت رکھتے ہیں۔ آپ کا تعلق ریاست مہاراشٹر کے شہر ناگپور سے ہے۔ اب تک آپ کی ڈیڑھ درجن سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ محمد اسد اللہ کا زیادہ تر کام انشائیہ پر ہی ہے۔ زیر نظر کتاب انشائیہ کے ضمن میں تحقیقی و تنقیدی نوعیت کی ایک دستاویزی کتاب ہے۔ جس میں انھوں نے ان اردو انشائیہ کا فن اور اس کا ارتقاء کا بھرپور جائزہ لیا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اردو کے اہم انشائیہ نگاروں کے فن پر بھی گفتگو کی ہے۔ محمد اسد اللہ نے سر سید احمد خاں اور ان کے رفقائ، مولانا ابوالکلام آزاد اور کرشن چندر کی تحریروں میں انشائیہ کے عناصر پر روشنی ڈالی ہے۔ وزیر آغا، انور سدید، جمیل آذر اور غلام جیلانی اصغر کی انشائیہ نگاری کا جائزہ پیش کیا ہے۔
انشائیہ پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے یہ کتاب کافی اہمیت کی حامل ہے۔ اس ضمن میں ریسرچ اسکالرز کو بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مطلوبہ مواد تک جلد رسائی نہیں ہو پاتی۔ چند اہم انشائی مجموعے اور اس کی فہرست دی گئی ہے جس سے ریسرچ اسکالرز کو کافی مدد ملے گی کہ کونسی کتاب میں کس کے اور کون سے انشائیے شامل ہیں۔
محمداسداللہ طنز و مزاح اور انشائیہ کو الگ کرنا چاہتے ہیں جو ایک دوسرے میں خلط ملط ہو رہے ہیں۔ مضمون ’پس پردہ‘ میں اِسی موضوع پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے، جو ان کی کتاب ’ڈبل رول‘ کا پیش لفظ بھی ہے۔ ’انشائی مجموعے: ایک نظر میں‘ میں وہ لکھتے ہیں: ’’انشائیہ کے لئے طنز و مزاح کو لازم و ملزوم قرار دینے کے رجحان نے اس صنف کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ پیدا کردی ہے۔ اب جو طنزیہ و مزاحیہ مضمون ہے وہ بھی انشائیہ ہے اور ان اوصاف سے محروم تحریر میں جو ایوانِ ظرافت میں بار پانے میں ناکام ہیں وہ بھی انشائیہ کے دفتر میں حاضری درج کروا رہی ہیں۔ اس سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ گزشتہ برسوں کے دوران انشائیوں کے جو مجموعے منظرِ عام پر آئے ان میں بلا امتیاز ہر قسم کی نگارشات جمع کر دی گئی ہیں۔‘‘
محمد اسد اللہ نے اردو کے بعض اہم انشائیہ نگاروں کے فن پر اپنے خیالات پیش کئے ہیں ۔ اس سلسلے میں ان کے مضامین سے چند اقتباسات درج ذیل ہیں :
عہدِ سر سید میں انشائیہ کے نقوش ان ہی ادیبوں کی تخلیقات میں دستیاب ہیں جو سر سید کی تحریک کے ساتھ وابستگی کے علاوہ مغربی انشائیہ نگاروں کے رشحاتِ قلم سے اکتساب ِ نور کر کے اپنی تحریر کو منو ر کر تے رہے ۔
( عہدِ سر سید میں انشائیہ نگاری )
کرشن چندر کے ہاں انشائیے کے نام پراسلوب کی چاشنی ہی نہیں بلکہ وہ بنیادی عناصر بھی موجود ہیں جن کا تعلق فکر و فن سے ہے اور ان ہی سے انشائیہ کا اندورنی تار و پود تشکیل پاتا ہے ۔ ( کرشن چند ر اور انشائیہ نگاری )
وزیر آ غا نے انگریزی انشائیہ نگاروں کے رشحاتِ قلم کے اس حسن و ہنر کو جزو ِ تحریر بنایا جو ان سے قبل اردوکے انشاپردازوں کی دسترس سے باہر رہا ۔انھوں نے اسی ہنر مندی کو فنی باریکیوں سمیت بیان کر نے کے علاوہ انشائیہ کی ہئیتی اور فکری جہتوں کو واضح کیا۔ (وزیر آغا کی انشائیہ نگاری )
’عالمی مسائل کا اظہار اردو ادب میں(انشائیے کے حوالے سے)‘ یہ بڑا ہی دلچسپ اور معلوماتی مضمون ہے۔ اس مضمون میں قدرتی آفات، قتل و غارت گری، عالمی انتشار اور افراتفری، دنیا پر قبضے اور برتری کی خواہش، دولت کی ہوس، بربریت، جنگ، عدم تحفظ، قومیت کا جذبہ، اقتدار کا نشہ، بھوک، حرص و ہوس، سیاسی بازیگری، مادیت پسندی کا رجحان، ایٹمی جنگ کا خطرہ، اور تیز رفتار تبدیلی وغیرہ مسائل کی روشنی میں مختلف انشائیوں سے اقتباسات پیش کیے گئے ہیں۔ انشائیے میں عالمی مسائل یہ ایک اچھا اور نیا موضوع ہے۔ انشائیے کی تحقیق و تنقید کے ضمن میں بلاشبہ یہ ایک اہم اور دستاویزی کتاب ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا