انجمؔ انصاری کی شاعری ، عصر ی آگہی کی ترجمان!!

0
56
  • ۰۰۰
    محمد حسین ساحلؔ
    ممبئی؛9112443552
    ۰۰۰
  • )گزشتہ دنوں انجم انصاری کا سانکلی اسٹریٹ ، ممبئی میں دل کا دورہ پڑنے  سے انتقال ہوا،اللہ ان کی مغفرت کرے اور غریق رحمت کرے۔ اس عظیم شاعر و ادیب کے انتقال سے ادبی دنیا میں غم کا ماحول ہے ۔ اُن کے اشعار ہر خاص و عام کی زبان پر موجود ہیں ۔ موصوف فیاض انصاری کے والدمحترم ہیں ،ابھی وہ والد محترم کے انتقال کے صدمے سے سنبھل بھی نہیں سکے ، تو ایک ہفتہ بعد اُن کی ماں کا بھی انتقال ہوگیا۔ اللہ ان کی بھی مغفرت کرے او ر فیاض انصاری کو صبر عطا فرمائے۔ امین۔یہ مضمون انجم انصاری کو بطور خراج عقیدت پیش کررہا ہوں۔قارئین کی اطلاع کے لئے عرض کروں کہ اُن کا شعری مجموعہ بن کر تیار ہے اور عنقریب اُ س کا اجراء بھی ہونے والا تھا مگر افسو س کے اجراء سے قبل ہی انجم انصاری اللہ کو پیارے ہوئے ))گزشتہ دنوں انجم انصاری کا سانکلی اسٹریٹ ، ممبئی میں دل کا دورہ پڑنے  سے انتقال ہوا،اللہ ان کی مغفرت کرے اور غریق رحمت کرے۔ اس عظیم شاعر و ادیب کے انتقال سے ادبی دنیا میں غم کا ماحول ہے ۔ اُن کے اشعار ہر خاص و عام کی زبان پر موجود ہیں ۔ موصوف فیاض انصاری کے والدمحترم ہیں ،ابھی وہ والد محترم کے انتقال کے صدمے سے سنبھل بھی نہیں سکے ، تو ایک ہفتہ بعد اُن کی ماں کا بھی انتقال ہوگیا۔ اللہ ان کی بھی مغفرت کرے او ر فیاض انصاری کو صبر عطا فرمائے۔ امین۔یہ مضمون انجم انصاری کو بطور خراج عقیدت پیش کررہا ہوں۔قارئین کی اطلاع کے لئے عرض کروں کہ اُن کا شعری مجموعہ بن کر تیار ہے اور عنقریب اُ س کا اجراء بھی ہونے والا تھا مگر افسو س کے اجراء سے قبل ہی انجم انصاری اللہ کو پیارے ہوئے )انجمؔ انصاری حضرت منیرؔ الہ آبادی کے شاگر د رہے ہیں،ان کی  زندگی کا بیشتر حصہ صحافت سے وابستہ رہا، ان کی نظمیں اور مضامین ’الف الف ‘کے نام سے شائع ہوا کرتی تھی۔انھوں نے اردو ٹائمز سے دس سال تک بطور اعزازی ادارتی رکن کے طور پر اپنے فرائض انجا م دئے۔ انجم انصاری کے کلام میں انکشاف ذات کے ساتھ سات حیات و کائنات کے مسائل بھی ابھر کر سامنے آتے ہیں،ان کی شاعری میں صرف عشقیہ جذبات و احساسات کی عکاسی نہیں ہے، بلکہ گرد و پیش کے حالات ، واقعات اور معاملات کی فن کاری بھی ہے ، اگر ہم ان کے اشعار کو دماغ کے ساتھ ساتھ دل سے بھی پڑھنے کی کوشش کریں تو ہمیں لگتا ہے ، ان کے ہر شعر میں ان کا عشق جو ش مارتا ہے اور گویا معشوقہ کے پہلوں میں ہی ان پر شعر نازل ہوا ہو۔انجم ؔانصاری کی شخصیت شاعری کے حوالے سے کافی مقبول اور محترم سمجھی جاتی ہے، ان کے چاہنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے، جس میں سیاسی، ادبی شخصیات موجود ہے۔محبان اردو اور ممبئی کے ادبی حلقوں میں ان کی شاعری کے چرچے آج بھی رہتے ہیں۔انجم انصاری کی غزلوں پر کوئی فلمی رقاصہ رقص تو نہیں کرسکتی ، مگر ان کی غزلیں پڑھ کر کسی باشعور قاری کا ذہن رقص کیئے بغیر نہیں ر ہ سکتا ۔میں غرق ہوسکا نہ بھٹک ہی سکا کہیںیو دیکھتے ہیں میری طرف بحر و بر کہ بسOجاری رہے شغل ِ مے و مینا کوئی دن اورچلتارہے مستی کا تماشا کوئی دن اورOمل جاتی مجھے شہرت لافانی جہاں میںہوتا جو ترے نام سے رُسوا کوئی دن اورانجم انصاری کے اشعاردو طرح کے ہوتے ہیں،کچھ اشعار پڑھ کر ایسا لگتا ہے گویا وہ کچھ چُھپاکر دکھا رہے ہو ، کچھ اشعار ایسے ہیں جنھیں پڑھکر ایسا لگتا ہے دکھا کر چُھپارہے ہیں۔ترے سوا کوئی احساس میں سما نہ سکابدل کے رُوپ نئے انگنت صنم گزرےOآج پھر چمکتی ہے روشنی گلستاں کیآج پھر لرزتی ہے شاخ آشیانے کیOعشق کرنا تھا ہم کو کرگزرے خیر سے جو بھی جان پر گزرےOرسن و دار رہ گئے تکتےاور دیوانے کا م کر گزرےOنظرچُرا کے تمھیں دیکھتے ، تو دیکھا ہےمرا یقین ہوتم، یاگماں یہ سوچوں گاانجم انصاری کی شاعری مختلف رنگ و نور سے سرشار نظر آتی ہے،کہیں ان کے اشعار میں میر ؔ کا درد نظر آتا ہے ، تو کہیں غالبؔکی جھلک نظر آتی ہے، کہیں اقبالؔ کا فلسفہ اُبھرنے لگتا ہے۔ ان کے اشعار نے ان بلندیوں کو چُھو لیا جہاںپہنچ کر دماغ بھی دل کی طرح دھڑکنے لگتا ہے:جان جائے کہ رہے ، راہ وفا میں انجمؔہم کو جو کہنا ہے ، بے خوف و خطر کہتے ہیںOبغیر عشق سکون ِ جگر نہیں ملتاشب سیاہ میں نور سحر نہیں ملتاOپہلے جلوہ نہ دکھا یا جائےپردہ  آنکھوں سے اُٹھایا جائےانجم انصاری کی تخلیقی توانائی نظام انتہائی متحرک اور فعال ہے۔ ان کے یہاں بصیرت اور آگہی کی وہ بلند سطح ہے، جو ماضی اور مستقبل پر نظر رکھتی ہے۔ ان کا آئینہ ادراک روشن ہے، جس میں وہ ماضی کے ساتھ ساتھ مستقبل کے آہٹوںکو بھی محسو س کرتے ہیں۔ان کی شاعری میں عصر حاضر کے مسائل کی ترجمانی ہے اور یہی عصر ی حسّیت اور آگہی ان کی شاعری کونقطۂ انفرادیت عطا کرتی ہے، اس میں ایک آفاقی شعور بھی ہے اور باطنی روشنی بھی جو آج کی تخلیقات میں کم ہی نظر آتی ہے۔ معاشرہ کے تما م متضاد اور مخالف لہروں کوانھوں نے اپنی شاعری میں سمو لیا ہے۔حقیقت یہ ہے انھوں نے اپنی شاعری میں وہ نقوش چھوڑدیے ہیں جو سماجی اور سیاسی راہوں میں بھٹکنے والوںکو منزل مقصود کا پتہ دیتے ہیں اور انھیں اپنی منزل تک پہنچابھی دیتے ہیں۔یہ دور دورِ عیب ہے اس میں ہنر کہاںخالی صدف میں ڈھونڈ رہے ہو گُہر کہاںOہر ایک سمت سے یلغار ہے تلاطم کی عجیب نیند ہے ملاّح چونکتا بھی نہیںOمیرے خونِ ناحق میں آپ بھی تو شامل ہیںقابل سماعت ہے آپ کی گواہی بھیOمُنصِفانِ عصر نو فیصلے کریں لیکنرنگ لائے گی آخر میری بے گناہی بھی ان شاعری اگر کسی سیاست یا تعصب کا شکار نہ ہوئی تو یقینایہ نصابی کتابوں کی زینت بن سکتی ہے۔اردو کا طالب علم اگر ان کی شاعری سے روشناس ہوا تو آئندہ چند سالوں میں وہ انجم انصاری پرپی ایچ ڈی کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔انجم ؔ انصاری کے فن کا اعتراف میں بس ایک شعرسے کرتا ہوں:وہی ایک بات جو سو بار گزری ہے نگاہوں سےزبانِ انجمؔ پہ آکر نئی معلوم ہوتی ہےOOO

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا