افسانہ… اپنا آنگن

0
105

 

 

 

 

تحریر … راجہ یوسف
” بولو میری رانی“ رشید احمدنے پیالی سے چائے کی آخری چسکی لی اور خالی پیالی سامنے والی میز پر رکھ دی۔ اس کی بیوی رانی تھوڑی دیر پہلے چائے کی ٹرے لاکراس کے قریب ہی بیٹھ گئی تھی۔
” میری بہن ڈالی اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ دوبئی سے آ رہی ہے اور وہ یہی رہے گی“
”تو۔۔۔؟ رشید احمد نے ایسے کہہ دیاجیسے بیوی سے کہہ رہا ہو اس میں مشکل کیا ہے۔آنے دو فکر کس بات کی ہے۔
”تو کیا۔؟ ہمارے گھر میں اتنی جگہ کہاں ہے جو وہ یہاں رہیں گے“ رانی کے لہجے میں شکوہ بھی تھا اور نرمی بھی تھی
”تو ان کے لئے ہوٹل میں انتظام کروا دوں“
”کیا بات کر رہے ہو۔اتنا خرچہ کون اٹھایئے گا۔ وہ کم از کم تیں مہینے یہاں رہیں گے“
”تو پھر میری رانی کا مجھ پر کیا حکم ہے “ رشید نے بیوی کی طرف پیار سے دیکھ تو لیا، لیکن ساتھ ہی وہ پریشان بھی ہورہا تھاکہ آخر رانی کہنا کیا چاہتی ہے۔اور رانی نے جھٹ سے وہ بات کہہ ہی ڈالی جس کو بتانے کے لئے وہ اپنے شوہرپر اتنا ساراپیار لٹارہی تھی
” اوہو تم سمجھتے کیوں نہیں ہو۔۔۔ وہ یہی رہے گی ماں کے کمرے میں“
”ماں کے کمرے میں؟؟؟“وہ حیرانگی کے ساتھ اپنی بیوی کی طرف دیکھنے لگا اور زبان پر جیسے تالا لگ گیاہو۔۔۔ رانی رشید احمدکی حالت سے بخوبی واقف تھی۔۔۔ اس نے پیار سے اپنا سررشیداحمد کے کندھے پر رکھ دیا۔۔۔ اور رشید احمد بھی جانتا تھا کہ جب رانی کو اپنی بات منوانی ہوتی ہے، تو وہ اسی طرح اس کے کندھے پر اپنا سر رکھ دیتی ہے۔اگررشید احمد کو رانی کی کسی بات سے انکار ہو تو وہ ناگن کی طرح پھنکارتی ہے، جس میں رشید احمد کو اپنی گھر گرہستی خاک ہوتی نظر آجاتی ہے۔اور وہ جلد سے جلدہتھیار ڈال کر رانی کی بات مان لیتا ہے۔ آج بھی یہی ہوا، اورتھوڑی سی ناکام بحث و مباحثے کے بعد رشید احمد ماں کو اپنی بہن افشان دیدی کے گھر بھیجنے کے لئے رضامند ہوگیا۔۔۔۔۔
”پر میں ماں کو نہیں کہہ پاؤں گا کہ وہ افشان دیدی کے گھر چلی جایئے۔ مجھ میں اتنی جرائت نہیں ہے“ رشید احمد نے ماں کا سامنا نہ کرنے کا بہانہ بنایا۔ اور رانی کا دل بہت زیادہ خوش ہوا۔
”مجھے پتا ہے میری جان۔ تیرا ہر کام مجھ کو ہی تو کرنا پڑتا ہے، تیرے لئے یہ کام بھی سہی۔ میں ماں کے ساتھ خود بات کروں گی“ رانی خوش ہوگئی، اور رشیداحمد کو حیران وپریشان چھوڑ کر کمرے سے باہر چلی گئی۔۔۔ رشید احمد کے ذہن میں طوفان اٹھ رہا تھا وہ لگاتار ٹی وی کے چنل بدلتا جارہا تھا۔۔۔
رشید احمد اصل میں کٹہار علاقے کا رہنے والا تھا۔۔۔ اس کی ماں نورا نے دن رات محنت کر کے اس کو پڑھایا لکھایا اور مذید تعلیم حاصل کرنے کے لئے سری نگر بھیج دیاتھا۔۔۔ نورا کا شوہر جوانی میں ہی مہلک بیماری کا شکار ہوگیاتھا۔۔علاج معالجے پر کافی خرچہ آیا تھا۔ نورا نے اپنی چوڑیاں بھیچ دیں تھیں، کچھ زمین بھی بک گئی تھی، لیکن وہ ٹھیک نہ ہوسکا اور دارِفانی سے کوچ کرگیا۔۔۔ نورا غربت،افلاس اورمشکلات میں پھنس گئی لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔۔۔ لوگوں کے گھروں میں برتن مانجھے، کھیتوں پر کام کیا اور اپنی باقی بچی زمین کا بھی خیال رکھا۔۔۔ مزدوری کرکے بچوں کی پرورش کی اور رشیداحمد کو یونیورسٹی پڑھنے کے لئے بھیج دیا۔۔۔
نورا پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے لیکن اس کے گاؤں کے لوگوں نے کبھی اس کو ٹوٹنے نہیں دیا، اسے کبھی ہمت ہارنے نہیں دیا، بلکہ ہر وقت اور ہر مصیبت میں اس کا ساتھ دیا۔ وہ سب ایک گھر کی طرح ہی رہ رہے تھے۔ اوررشید احمد کی پڑھائی کی سب کو فکر لگی تھی۔۔۔
رشیداحمد کو بہت جلد شہر کی ہواراس آگئی۔۔۔ وہ گاؤں کی دھول بھری سڑکوں سے زیادہ شہر کے کنکریٹ ماحول کا گرویدہ ہوگیا۔ پھر جب ماں کی ممتا کا سایہ چھوڑ کر رانی کے زلفوں کا اسیر ہوگیا، تو اس کو جیسے ساری کائینات مل گئی ہو۔رانی بڑے نازوں اور سونے کے پالنے میں پلی بڑی مغرور لیکن پرکشش لڑکی تھی۔ یونیورسٹی میں کتنے ایسے لڑکے تھے جو اسکی زلفوں تلے چند لمحے سستانے کے خواہان تھے۔لیکن پتہ نہیں رشید کی کونسی ادا اس کے دل کو بھا گئی یا شاید گاؤں کا وہ بھولاپن پسند آیاجو وہ اس کی ہوگئی۔ اور اس کو اپنا شریکِ حیات بنا دیا۔ رانی کے باپ کے پاس پیسے کی فراوانی تھی۔۔۔ نوکری اور شادی کے بعد ایک خوبصورت گھرکی پیش کش رشید احمد کے سپنوں کو سچ کرنے کا بہت بڑا اعزاز تھا۔۔۔ وہ رانی پر فریفتہ ہوگیا، اور رانی بھی رشیداحمد کو غربت کا مارا سمجھنے کے باوجود پیار کرنے میں بخیلی نہیں دکھا رہی تھی۔
خط کے ذریعے نورا کو رشیداحمد کی شادی اور اب شہر میں ہی رہنے کا علم ہوا، تو اس کے سر پر جیسے آسمان ٹوٹ پڑا۔۔۔ کئی دنوں تک اس کی آنکھوں میں اندھیرا چھایا رہا۔۔۔ اب نورا کو افشان دیدی کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر لاحق ہو گئی تھی۔ وہ دن رات پریشان رہنے لگی۔ بیٹے کو کئی خط لکھے۔۔۔ لڑکے والے جلد سے جلدشادی کرنے پر زور دے رہے تھے۔ نورا نے رشیداحمد کو خط لکھا، خط میں بیٹے کی منت سماجت کی۔تب کہیں وہ مختصر وقت کے لئے گاؤں آنے کو تیار ہوگیا۔۔۔۔ بیٹے کو سامنے دیکھ کر نورا کے دل میں محبت کے سمندر نے جوش مارا اورسارے باندھ توڑ کر باہر آگیا۔ وہ بیٹے سے گلے لگا کر دیر تک روتی رہی۔۔۔ افشان دیدی تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی،وہ بھائی کے آگے پیچھے کر رہی تھی، اسکے کھانے پینے کا خیال، صاف بستر، گرم پانی اور دوسری تمام ضرورتوں کا خیال رکھ رہی تھی، لیکن رشیداحمدکے لئے ماں بیٹی کا یہ پیار بڑا پریشان کن تھا۔ وہ جلد سے جلد یہاں کا معاملہ نپٹاکر واپس جانا چاہتا تھا۔ وہ رانی کے ساتھ کچھ خاص مشورہ کرکے یہاں آیا تھا لیکن ابھی اپنی بات کہنے کے لئے اس کو صحیح موقعہ نہیں مل رہا تھا۔ آخر افشان دیدی کی شادی پر خرچے کی بات آ گئی تو اس نے موقعہ غنیمت جان کر بات چھیڑ دی۔ وہ گاؤں کی ساری زمین، جائیداد بھیچ کر افشان دیدی کی شادی کرکے ہمیشہ کے لئے گاؤں کو خیر باد کہنا چاہتا تھا۔ نورا نے جب سنا تو وہ پریشان ہو گئی، رشید احمد کو اپنی بات رکھنے کے لئے افشان دیدی کا سہارا لینا پڑا، تب جاکر نورانے بے بسی،مجبوری اور نیم رضامندی ظاہرتو کی۔ لیکن ساتھ ہی اپنے دل کی بات بھی بتا دی۔
”پر میں کہاں جاؤں گی ؟ کہاں رہوں گی؟؟؟“ لمحہ بھر کے لئے افشان دیدی بھی پریشان ہوگئی۔
”ماں۔۔۔تم میرے ساتھ۔۔۔شہر میں۔۔۔ میرے گھر میں رہوگی“ رشیداحمد نے حسبِ پروگرام اپنی بات بتا دی۔
”تیرے گھر میں۔۔۔ اپنا گھر بھیچ کر تمہارے گھر میں رہوں گی“ نورا مطمئن نظر نہیں آ رہی تھی۔
”اوہ ہوووو ۔۔۔ ماں۔۔۔ یہ تم نے میرا تیرا کیا شروع کردیا ہے۔۔۔؟؟؟ دیدی تم سمجھا دو نا ماں کو“ افشان دیدی خوش تھی اس کے سسرال جانے کے بعد ماں بیٹے کے پاس رہے گی، تواس کی اچھی طرح سے دیکھ بال ہوگی۔ افشان دیدی نے تو ماں کواپنی طرف سے بہت سمجھا دیا، اور نورا نے حامی بھی بھر لی، پر اسے کوئی انجانا سا خوف پریشان کر رہا تھا۔ اس کی الجھن کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی تھی۔
افشان دیدی کی شادی کے بعد دوچار دن میں سارے معاملات نپٹا کر رشید احمدشہر جانے کی تیاری میں جھٹ گیا۔۔۔ وہ گاڑی میں سامان رکھوا رہا تھا۔ نوراپڑوسیوں سے مل کر زاروقطار رو رہی تھی۔۔۔ سارا گاؤں اُمڈ آیا تھا۔وہ نورا کو دلاسہ دے رہے تھے۔۔۔ محمودہ کے سینے پر سر رکھ کر وہ بہت روئی تھی، عزیزا، سارہ اور غلام نبی کی آنکھوں میں بھی آنسوں کی برسات تھی۔ محمودہ زار وقطار رو رہی تھی۔ وہ لوگ نورا کے زیادہ قریبی اور ہمدرد تھے۔ آخر گاؤں والوں کو الوداع کہہ کر نورا گاڑی میں بیٹھ گئی۔ گاڑی آہستہ آہستہ گاؤں سے دور جارہی تھی تو نورا نے بھیگی آنکھوں سے گاؤں پر آخری نظر ڈال دی، اسے ایسا لگا جیسے وہ اپنی ساری کشتیاں جلا کر ایک انجان صحرا کی طرف بڑھ رہی تھی۔
رشید احمد کے گھر میں یوں تو کہنے کی ہر آسائش موجود تھی، لیکن چند دنوں میں ہی نورا سمجھ گئی کہ اس کا بیٹا اس گھر کا مالک نہیں ہے، بلکہ وہ یہاں جورو کا غلام بن کر رہ رہا ہے۔ نورا اور رانی کے بیچ کبھی بھی ساس بہو کا رشتہ قائم نہ ہوسکا۔ اور یوں بھی رانی نے اسے کبھی خاطر میں نہیں لایا اور نہ ہی وہ جگہ دی جس سے معلوم ہوتا کہ وہ اس گھر کی سب سے بڑی فرد کی حثیت رکھتی ہے۔ نورا بے بس تھی اور بیٹے کی بے حسی پرافسردہ بھی۔اسے خود ہی ا حساس ہوگیا کہ اس گھر میں ایک مفت نوکرانی کی کمی تھی جس کو پُر کروانے کے لئے اسے یہاں لایا گیاور کچھ دنوں کے بعد وہ اس گھر کی بڑی فرد کے بجائے بوڑھی نوکرانی بن کے ر ہ ہی گئی۔۔۔ کھانا بنانا، کپڑے دھونا، گھر کی صفائی ستھرائی یہ سارا کام نورا کرنے لگی، تو رشیداحمد بھی خوش ہورہا تھا کہ ماں نے گھر کا سارا کام کاج سنبھال لیا ہے، اور اب رانی کے دل میں بھی ماں کی طرف سے کوئی رنجش نہیں رہے گا۔۔۔
نورا کو دن بھر کے جھنجٹ سے جب تھوڑی سی فرصت ملتی تھی، تو وہ رشیداحمد کی بے حسی اور اپنی بے بسی پرپشیمان ہو جاتی تھی۔اور دیر تک روتی رہتی تھی۔ اسے گاؤں چھوڑنے کا بڑا دکھ تھا۔۔۔ وہ آج تک ایک لمحے کے لئے بھی اپنا گاؤں نہیں بھولی تھی، گاؤں کے لوگ، پاس پڑوسی، جان پہچان والے، سکھی سہیلیاں اور خاص کر محمودہ، عزیزا،سارہ اور بہت سارے وہ لوگ جو اس کے قریبی تھے، اس کے ہمدرد اور غمخوار تھے۔۔۔ جب اپنوں سے توقع اٹھ جاتی ہے، تو دور کے ہمدرد دل کے قریب لگتے ہیں۔۔۔ نورا میں اب کام کرنے کی زیادہ سکت بھی نہیں تھی، وہ اکثر بیمار رہتی تھی لیکن کام کا بوجھ دن بدن بڑھتا ہی جا رہا تھا۔۔۔
آج وہ زیادہ ہی نحیف لگ رہی تھی، کمزور ہاتھوں سے کپڑے دھو رہی تھی، ابھی برتن مانجھنے بھی باقی تھے کہ رانی طوفان کی طرح آئی اور سرپر کھڑی ہو گئی۔،۔۔ اورتیز تیز لہجے میں بولنے لگی،
”اوہ۔ کتنا وقت لگاتی ہو تم۔۔۔ کپڑے بھی کتنے دھونے تھے۔۔۔ ایک کام کے لئے پورا دن ہڑپ کرلیتی ہو۔۔۔ ابھی کپڑے دھونے ہیں، برتن مانجھنے ہیں، کمروں کی صفائی کرنی ہے، تمہارا سامان سمیٹنا ہے، پھر یہ سب کب کرو گی؟؟؟“رانی نے باتوں کی روانی میں اپنے مطلب کی بات بھی بتا دی۔۔۔ نورا حیرانگی کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
”میرا سامان سمیٹنا ہے؟۔۔۔ پر کیوں؟؟؟ ۔۔۔“ نورا پریشان نگاہوں سے رانی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
”کیوں کیا۔۔۔“رانی مصنوعی غصے سے کہتی ہے۔”یہ کس مصیبت سے مجھے پالا پڑا ہے۔ کیا رشیداحمد نے تم کو نہیں بتایاکہ ڈالی اپنے بچوں کے ساتھ آرہی ہے۔۔۔ وہ تمہارے کمرے میں رہیں گے۔۔۔ تم جلدی سے اپنا سامان سمیٹواور کمرا خالی کردو“ رانی نے جلدی جلدی اپنا حکم سنا دیا اور نورا حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
”لیکن۔۔۔ لیکن میں کہاں رہوں گی؟؟؟“نورا کے چہرے پر مردنی چھا جاتی ہے۔
”تم کچھ مہینوں کے لئے افشان کے گھر جاؤ۔۔۔ جب ہم بلائیں گے تب واپس آجانا“ رانی نے اپنا حکم سنا دیا، تو نورا کے چہرے پر کئی رنگ آ کر گذر گئے ۔
”رشیداحمد نے کیا کہا۔۔۔۔؟؟؟“ نورا کے بے بس چہرے پر ابھی امید کی کرن باقی تھی۔۔۔
”رشیداحمد کیا کہتا۔۔۔ یہ تو اسی نے کہا ہے کہ ماں تب تک افشان کے پاس رہے گی“ رانی اور بھی کچھ کہہ رہی تھی۔ لیکن اس کے کانوں میں جیسے کوئی گرم گرم سیسہ پگلا کے ڈال رہا تھا۔ اس کو رشیداحمد سے ایسی توقع نہ تھی۔وہ تو افشان دیدی کے گھر جانے کے قابل بھی نہیں تھی۔۔۔ بار بار بیٹی کے گھر جانا اس کو اچھا بھی نہیں لگ رہا تھا۔۔۔ وہ پتا نہیں اور کیا کیا سوچ رہی تھی۔۔۔ اسے یہ بھی پتہ نہیں چلا کہ رانی کب اندر گئی اور جب وہ واپس آگئی تو اس کے ہاتھ میں نورا کا مختصر سامان تھا جو اس نے نورا کے سامنے پھینکتے ہوئے کہا ”یہ لے اپنا سامان اور یہاں سے چلتی بن۔۔۔ کپڑے دھونے چھوڑ دے، میں لونڈری میں دے دوں گی۔۔۔ اب جلدی کر اس وقت گاڑی مل جائے گی“
”نہیں نہیں بہو۔۔ مجھ کو اپنے گھر سے مت نکال دو۔۔۔ میں یہی کہیں پڑی رہوں گی۔ کچن میں رہوں گی یا باہر برآمدے میں پڑی رہوں گی۔۔ مگر مجھ کو یہاں سے مت نکال دو۔۔۔ آخر میں کہاں جاؤں گی بہو۔۔۔ کہاں رہوں گی“نورا بہت روئی، بہت گڑگڑائی، جس سے رانی کا غصہ اور بڑھ گیا۔۔۔
”مرگئی تیری بہو“ رانی غصے سے کہتی ہے اور نورا کا ہاتھ پکڑ کرباہر تک کھینچ لاتی ہے۔اور سامان اس کی طرف پھینک کر دروازہ اندر سے بند کر دیتی ہے۔۔۔ نورا پھٹی پھٹی آنکھوں سے دروازے کی طرف دیکھتی رہتی ہے۔۔۔
گاؤں میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک بات پھیل گئی تھی۔۔۔ سبھی لوگ دوڑ پڑے تھے۔۔۔ ایک دوسرے کو بتاتے بتاتے محمودہ کے آنگن میں بھیڑ جمع ہوگئی تھی۔۔۔۔۔۔جب تک محمودہ نے دھول میں اٹکی، پھٹے پرانے کپڑوں میں لپٹی نورا کو نہلا دھلا کر نئے کپڑے پہنا دئیے تھے، بالوں میں کنگی کرکے کھانا کھلادیاتھا۔۔۔ لوگ اس کو دیکھ کر خوش ہورہے تھے، اور وہ افسردہ مسکراہٹ کے ساتھ ان کا شکریہ ادا کر رہی تھی۔۔۔وہ ان میں سے بہت سارے لوگوں کو نہ جانتی تھی، نہ پہچانتی تھی، لیکن اسے یہ سب اپنے لگ رہے تھے۔ اس کے چہرے پر حزن وملال تھا، لیکن دل میں سکوں تھا، اور اسے لگ رہا تھا وہ اپنوں میں آئی ہے۔۔۔ یہ اس کا اپنا گاؤں ہے۔۔۔ اس کی اپنی دنیا ہے۔ اور یہاں کے سبھی لوگ اس کے اپنے ہیں۔۔۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا