تازہ غزل

0
52

ضیا فاروقی

شعور ذات کسے ہے جہان وحشت میں
ملا نہ لطف جنوں ، عقل کی فراست میں

ملا جو ازن سفر آسمان کی جانب
تو ہم زمین بھی چھوڑ آئے اپنی عجلت میں

اسی کا ہے یہ نتیجہ کہ اب کہیں کے نہیں
اک انتشار سدا سےتھا جو طبیعت میں

عطا ہے اس کی وہ گلزار دے کہ صحرا دے
ہمارا دخل بھی کیا ہے خدا کی قدرت میں

شبیہہ جس کی مرے خواب کی امانت ہے
تمام عمرگزاری اسی کی چاہت میں

بس ایک خوف سے یہ آنکھ بھی جھپکتی نہیں
کہ ایک جسم بھی ہے روح کی حفاظت میں

امیر شہر بتا اور کیا بدلنا ہے
بدل چکا ہوں میں خود کو تری حکومت میں

کوئی تو ہے جو ضیا دن کو رات کرتا ہے
طلسم سارا چھپا ہے اسی حقیقت میں
**********

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا