رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا

0
76

 

علی ظہیر نقوی، دہلی

9968168766

اکیس رمضان تاریخ اسلام میں انسانیت کے اس عظیم انسان کا روز شہادت ہے، جس کو اس کی حق پسندی وعدالت کے سبب ۰۴ہجری میں محراب مسجد کو فہ میں دوران نماز فجراپنے وقت کی دہشت گرد اسلام دشمن طاقتوں کے ہاتھوں زہرآلود تلوار سے شہیدکردیاجاتا ہے۔ مسجد کوفہ میں شہادت سے ہم آغوش ہونے والے اس انسان کامل کو زمانہ علی مرتضیٰ شیر خدا کے نام سے جانتا ہے۔راہ خدا میں شہادت جیسی نعمت عاشقانہ خدا کی معراج ہوا کرتی ہے، یہی سبب ہے ضربت شہادت سے دوچار ہونے کے بعد ہمیشہ شہادت کی آرزو رکھنے والے دین اسلام کے اس عظیم مجاہد کے منھ سے جو تاریخی جملے نکلے تھے وہ یہی تھے کہ” رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا“۔ تاریخ اسلام میں امیر المومنین حضرت علی ؑ کواپنی دیگر فضیلتوں کے ساتھ یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ آپ کی ولادت خانہ¿ کعبہ میں اور شہادت بھی خدا کے گھر مسجد کوفہ میں نصیب ہوئی۔ تاریخ اسلام میں ایسی فضیلت کسی فرد بشر کو حاصل نہ ہوسکی۔ علی ابن ابی طالب کی مثالی شخصیت جنھوںنے پیغمبر اسلام کی دعوت پر کمسنوں میں سب سے پہلے لبیک کہا تھا، اوررسول خدا کے اس مشن میں ہمیشہ آپ کی نصرت کی کسی بھی طرح محتاج تعارف نہیں۔ حضرت علی ؑ کی مثالی زندگی نصرت حق وعدالت کاایسا نمونہ ہے جس کے تصور کے بغیر تاریخ اسلام کا ہر باب نامکمل ہوکر رہ جاتا ہے، بات شب ہجرت میں دشمنوں کی تلواروں کے سائے میں بستر پر سوکر حیات پیغمبر کے تحفظ کی ہو یا اسلامی معرکوں میں جنگ بدر ، جنگ اُحد ، جنگ خندق، جنگ خیبر، جنگ حنین، یا جنگ صفین کا ذکر ہو ،تاریخ اسلام کے ان دفاعی معرکوں میں فتح وکامیابی کا تصور علی مرتضیٰ کی شجاعت کے بغیر ناممکن نظر آتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ فتح خندق میں کامیابی کے بعد پیغمبرخدا حضرت محمد نے کہا تھا۔”جنگ خندق میںعلی کی ایک ضربت جن وانس کی عباد ت پر افضل ہے“۔دین اسلام کی آبیاری اور حق وعدالت کے نفاذ کی راہ میں امیر المومنین نے اپنی حکمت و دانش ، عدالت پسندی،نصرت حق انسانی اقدار ومساوات، مدبرانہ شجاعت، تسلیم صبر ورضا کے ساتھ غیر معمولی ایثار وفدا کاری کے جو عملی نمونے پیش کئے اس سے زمانہ کے حق پسندافراد متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔یہی سبب ہے کہ ہرزمانے کے حق بیں مورخین نے تاریخ انسانیت کے اس یکتائے زمانہ علیؑ کو اپنا خراج عقیدت پیش کیا۔ یہاں تک کہ غیرمسلم مورخین بھی اس انسان کامل کی عظمتوں کے معترف نظرآتے ہیں۔ دنیائے عیسائیت کا مشہور زمانہ مورخ جارج جرواق حضرت علی ؑ کی عظیم المرتبت شخصیت آپ کے بے کراں علم، آپ کی عدالت آپ کی منکسرالمزاجی آپ کی انسان دوستی اور آپ کے مساوات کے جذبہ سے والہانہ طورپر متاثر نظر آتا ہے وہ اپنی مشہور زمانہ¿ تصنیف ”ندائے عدالت انسانی“ میںاپنے دل کی گہرائیوں کے تاثرات اپنے خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے:” تم نے کوئی ایسا بادشاہ سنا ہے جواپنے ہاتھ سے چکی پیسے اوراس سے اپنی خوراک کے لئے ایسی خشک روٹی تیارکرے جو زانو سے دبا کرتوڑی جاسکے؟ مال دنیا سے تھوڑایا کچھ بھی پس انداز نہ کرے کیونکہ اس کا مقصد سوائے مصیبت زدوں اور مظلوموں کی امداد کے اور کچھ نہ تھاتاکہ ظالموں سے ان کا حق وصول کرے اوران کی زندگی کو خوش حال بنائے ، جو کبھی کھانے پینے اور چین سے سونے کی فکر میں نہ رہا کیونکہ اس کے ملک میں بعض آدمی ایک ایک روٹی کومحتاج تھے، بہت سے پیٹ بھوکے اور جگربریاں تھے“۔ جارچ جرواق اپنی اسی تصنیف میں ایک جگہ لکھتا ہے:” ان تمام انسانو ں کے اندر جوعدالت میں مشہور ہوئے کون بزرگوا ر ایسا ہے کہ اگر ہفت اقلیم کے سارے باشندے اس کے خلاف اجماع کرلیں تب بھی یہ کہنا لازم ہے کہ وہ ”(علیؑ) حق پر تھے ا ورسارے مخالفین باطل پر کیونکہ اس کی راستی اور عدالت اکتسابی نہیں بلکہ ذاتی تھی جس کے بعد دوسروں نے اس سے سبق حاصل کیا۔ اس کے قوانین سیاست وحکومت کے بنائے ہوئے نہیں تھے بلکہ حکومت وسیاست خودان قوانین پر قائم تھی، انھوںنے قصداً کوئی ایسا راستہ اختیارنہیں کیاتھا جو ان کومسند حکومت تک پہنچادے بلکہ وہ راستہ اختیار کیا جس سے پاک وصاف دلوں میں اپنی جگہ بنالے اور عدالت اس کی روح کا جز اور ان کے قلب میںپیوست تھی جس نے دوسرے فضائل کو بھی سمیٹ لیا تھا۔ ان کے لئے عدالت سے ہٹنا اور اپنے فطری تقاضہ سے اختلاف ممکن نہ تھا، عدالت ایک ایسا مادہ وعنصر تھی جو ان کے اعضاءوجوارح اورعناصر بدن میں شامل تھے اور خون کی مانند رگوں میں دوڑ رہی تھی“۔حضرت علی ؑ کے نزدیک ملک وبادشاہی جو حق کو قائم کرنے اورباطل کو زائل کرنے کے لئے نہ ہوتو وہ دنیاکی پست ترین چیزوں سے بھی زیادہ پست تھی۔ یہی سبب ہے حضرت علی ؑ کے نزدیک اس حکومت کی قیمت جو عدل وانصاف قائم کرنے میں ناکام ہو ان کی پھٹی ہوئی جوتیوں سے بھی کم تر تھی، جس میں سماج کے ستم زدہ اور مظلوموں کو انصاف نہ مل سکے۔ پیغمبر اسلام کی مشہور حدیث ہے علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے“۔ یقینا جہاں علی ہیں وہاں باحق ہے عدالت ہے اور حقوق انسانی کا تحفظ ہے، یہی سبب ہے کہ علی ؑ کی عدالت آج بھی زمانہ کو حیرانی میں مبتلا کردیتی ہے کہ وہ میدان جنگ میںبھی جہاں سب کچھ جائز ہوتا ہے دامن عدالت کو ہاتھوں سے جانے نہیں دیتے۔ جنگ خندق میں جب وہ اپنے حریف جو عرب کا مشہور ترین پہلوان تھا کو زیر کرلیتے ہیں اور چاہتے ہیںکہ اس پر وار کرکے اس کا کام تمام کردیں اسی لمحہ وہ آپ کے دہن مبارک پر تھوک دیتا ہے انسانی فطرت کا تقاضہ کے مطابق ہونا تویہی چاہئے تھا کہ علی ؑ غصہ میں آگ بگولہ ہوکر اس پرشدید وار کرتے لیکن علی نے ایسا نہیں کےا بلکہ تلوار پھینک کر ٹہلنے لگتے ہیں ، دشمن بھی حیران تھا کہ علی ؑ نے ایسا کیوں کیا۔ دشمن کے سوال کرنے پر کہ اے علی آپ نے اتنا اچھا موقع ہاتھ سے کیوں جانے دیا۔ آپ نے دشمن کویہ جواب دیا۔ ”اے عمروجان لے میری تلوار صرف اور صرف خدا کی خوشنودی کے لئے چلتی ہے ناکہ اپنے نفس کے لئے میں نہیں چاہتا کہ تجھے قتل کرنے میں میرا نفس بھی شامل ہوجائے“۔امیر المومنین حضر ت علیؑ حقیقی اسلامی آئیڈیالوجی کے ایسے حکمراں ہیں جوبیت المال کا مصرف عدالت اسلامی کے اصولوں پر اس طرح قائم کرتے ہیں کہ مساوات اور عدالت کا دامن مجروح ہونے نہیں دیتے، خواہ اس راہ میں ان کے اپنے حقیقی بھائی ہی کیوںنہ مطالبہ کریں۔ حضرت علی ؑکے بھائی عقیل بھوکے اور پژمردہ بچوں کے ہمراہ جب امیرالمومنین حضرت علی ؑ کی خدمت میں حاضری ہوئے اوربیت المال سے اپنے لئے زیادہ حصہ کے طلب گار ہوئے تو ہونا تویہ چاہئے تھا کہ بھائی کے بھوکے بچوں کو دیکھ کر بھائی کی محبت اصولوں پر غالب آجاتی مگر یہاں ایسا نہیں ہوا، آپ نے صاف طورپراپنے بھائی کو منفی جواب دیا۔انھوںنے اپنے منفی جواب کے فلسفہ کو اپنے بھائی کے سامنے پیش کرنے کے لئے لوہے کی ایک سلاخ کو آگ میں تپا کر ان کے جسم کے قریب لے گئے وہ چیخ اٹھے ، تب آپ نے کہا اے عقیل! تم دنیاکی آگ سے ڈرتے ہو اورمیں جہنم کی آگ سے ، نہ ڈروں؟“ ۔آج کے اس دور میں یہ بات کتنی عجیب ہے کہ اسلامی سربراہ مملکت کے پاس کوئی ذاتی ملکیت نہ تھی کہ وہ اپنے بھائی کا وعدہ پورا کرے جبکہ آج سربراہان مملک کی عیش پرستی، بین الاقوامی بنکوں میںاکاﺅنٹ ایک عام روش ہے کیایہ طریقہ¿ کار امانت اوردیانتداری کے اصولوں کے خلاف نہیں ہے۔!عصر حاضر کے سربراہان مملکت ورہبران ملت جو اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو بخوبی انجام نہیں دیتے بلکہ اپنے مکروفریب کے ذریعہ حکمرانی کو دولت سمیٹنے کا ایک ذریعہ تصور کرتے ہیں ان کے لئے علی مرتضیٰ کے منھ سے نکلے ہوئے یہ جملے آج بھی درس عبرت ہےں، وہ اپنے خطبے میں ایک جگہ فرماتے ہیں :”اگر میںچاہتا تو اس شہد مصفیٰ خالص گیہوں اور ریشمی کپڑوں کو اپنے مصرف میں لانے کی راہ نکال لیتا لیکن کیامجال کہ مجھ پر خواہشات غالب آجائیں میں تورات کوپیٹ بھر کے سوجاﺅں اور بھوکے پیٹ اور پیاسے کلیجہ میرے آس پاس تلملائے پڑے رہیں“۔ اسی طرح لوگوں کے حق کے ساتھ خیانت کے سلسلہ میں ایک جگہ فرماتے ہیں:” خدا کی قسم اگر ساتوں اقلیم میں ان چیزوں سمیت جوآسمانوں کے نیچے ہیں مجھے دیدی جائیں صرف اس جرم کے عوض کہ میں چیونٹی سے جو کا ایک چھلکا جو اس کے منھ میں ہے چھین لوں تو میں ایسا کبھی نہ کروں گا“۔عدالت کردار علی کاایسا شیوہ ہے جو ضربت شہادت کھانے کے بعد بھی زخمی علی کے دامن سے جدا نہیں ہوتا۔ جب آپ کے قاتل ابن ملجم کو گرفتار کرکے لایا جاتا ہے توآپ نے اپنے بیٹے امام حسن کو اس طرح ہدایت کی:”دیکھو اس کے ساتھ نرمی کا برتاﺅ کرنااور جو کھ تم خود کھانا وہی اسے بھی کھلانا، اس کے خوف وحشت و اضطراب وگھبراہٹ پر رحم کرنا۔ عدالت کی آبرو کوقائم رکھنے والے علیؑ نے بستر شہادت پر بھی اپنے بیٹوں سے اپنے قاتل کے متعلق وصیت کی کہ” اگر میں زندہ رہ گیا تو میں جانتا ہوں کہ اس کے ساتھ کیا کروں گا لیکن اگر میں اپنے اس زخم سے جانبر نہ ہوسکا تو یہ مسئلہ تمہارے اختیار میں ہے لیکن اگر تم بدلہ لینا چاہتے ہو تو اس کی ایک ضربت کے عوض ایک ہی وارکرنا لیکن اگر تم اسے معاف کردوتویہ تقویٰ سے نزدیک ترہوگا“۔ یہ بات اپنے آپ میں کتنی شرمناک ہے کہ امیرالمومنین حضرت علی ؑبستر شہادت سے بھی اپنے قاتل کے حقوق نیز عدل وانصاف کا درس انسانیت کو دے رہے ہیں۔جبکہ اس کے برعکس عصر حاضر میں مسلمانوں کا کردار یہ ہے کہ وہ اپنے ہی بھائیوں کو مسجدوں میں نماز یوں کوتہہ تیغ کرنے سے دریغ نہیں کرتے، گزشتہ دنوں پاکستان میں مسجد میں نمازیوں کے ساتھ جو دلخراش اور افسوسناک واقعات پیش آئے ہےںجن کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں کیا اس کے بعد بھی اس طرح کے مسلمان خود کو مسلمان کہلوانے کے مستحق ہیں؟ کیااسلامی تعلیمات اس کی متقاضی ہیں، آخر یہ کونسا اسلام ہے، پیغمبر اسلام کا بتایا ہوا اسلام یا ابن ملجم کا اسلام!!۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا