آہ! مفتی امتیازاحمدضیائی صاحبؒ

0
22

دل اب بھی یقین کرنے پر آمادہ نہیں

یادرفتگاں : مقصوداحمدضیائی

زندگی انساں کی ہے مانند مرغِ خوش نوا
شاخ پر بیٹھا کوئی دم ، چہچہایا ، اڑ گیا

ہرشخص کو وقت معینہ پر اس جہاں سے جانا ہے اس اٹل حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود کم عمری ؛ کم سنی یا جوانی کی موت دلِ حسرت زدہ کے لیے قیامت سے کم نہیں ہوتی ؛ رہ رہ کر خیال آتا ہے۔ کاش! تھوڑی سی مہلت اور مل جاتی ؛ کچھ دنوں اور جی لیتے ؛ کچھ اور کہہ لیتے ؛ کچھ اور سن لیتے! ابھی تو بہت سی باتیں رہ گئیں ؛ ابھی تو بہت سے کام رہ گئے ؛

https://ziaululoompoonch.com/

محب مکرم جامعہ ضیاءالعلوم پونچھ کے استاذ حدیث و تفسیر حضرت مولانا مفتی امتیازاحمد ضیائی صاحب رحمتہ اللّٰہ علیہ کے حوالے سے بھی ایسے خیالات مدتوں آتے رہیں گے ؛ تڑپاتے رہیں گے ؛ عزیزوں کو بھی ؛ احباب کو بھی اور دنیائے علم سے وابستہ ان افراد کو بھی جن کے لیے درد و غم کا رشتہ ؛ رشتہ جاں سے زیادہ عزیز اور محترم ہے۔ مؤرخہ 28 ستمبر 2024ء بروز اتوار بعد مغرب جامعہ ضیاءالعلوم پونچھ کے دو مؤقر اساتذہ کرام قاری جمیل احمدضیائی صاحب اور مولانا افتخاراحمدضیائی صاحب کی طرف سے بذریعہ سوشل میڈیا مفتی امتیازاحمد ضیائی صاحب اڑائی مدرس جامعہ ضیاءالعلوم کی خبر وفات شائع ہوئی۔ اس دلخراش و جگر سوز خبر سے قلبی صدمہ ہوا ؛ ذہن و دماغ پر حُزن و ملال کی ایک ناقابل بیان کیفیت چھاگئی اب نجانے کتنی بار اس حادثہ جانکاہ کی خبر پڑھ چکا ہوں مگر دل اب بھی یقین کرنے پر آمادہ نہیں کہ جو کچھ ہوا وہ واقعی ہوچکا ہے مگر مشیت ایزدی اور قضا و قدر کے سوائے یقین کرنے کے چارہ ہی کیا ہے ؛ ہم مجبور بندے کیا کرسکتے ہیں۔ یہ ایسا اندوہناک صدمہ ہے جس کی غم انگیزی الفاظ میں بیان کی نہیں جاسکتی ؛ بس! آنسوؤں کی دبی ہوئی آہوں کے ساتھ ایک بار پھر بندگی و بیچارگی کا اقرار کرتے ہیں کہ بیشک ہم سب اللّٰہ ہی کے لیے ہیں اسی کی امانت ہیں اور منزل مقصود بھی وہی ہے اور جانا بھی وہیں ہے۔ مفتی امتیازاحمدصاحب نے خطہ کی معروف دانش گاہ جامعہ ضیاءالعلوم میں درجہ فارسی سے تعلیم کا آغاز کیا اور سال پنجم تک پڑھا اور پھر دارالعلوم سوپور کشمیر چلے گئے اور سال ششم میں داخلہ لیا ایک سال یہاں گزار کر دارالعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ چلے گئے سال ہفتم اور ہشتم یعنی دورہ حدیث سے فارغ ہونے کے بعد درجہ افتاء میں داخلہ لیا 2009ء میں فارغ ہوئے تو سیدھے مادر علمی اول جامعہ ضیا ءالعلوم پونچھ میں مدرس ہوگئے۔ مفتی صاحب شریف النفس ذہین اور محنتی استاذ تھے ہفتم تک کتابیں پڑھاتے تھے۔ آپ کے انتقال پر ملال پر شیخ الجامعہ حضرت مولانا غلام قادر صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے ان الفاظ میں گہرے دکھ کا اظہار فرمایا کہ "عزیزم مفتی امتیازاحمدضیائی کی اچانک موت کی خبر سن کر بہت رنجیدہ ہوں مرحوم عزیز اپنی سادگی شرافت اور محنت اور لگن کے لیے مجھے ہمیشہ یاد آتے رہیں گے کم عمری کا یہ وصال غمناک بھی ہے اور درد ناک بھی مگر منشائے ربی کے سامنے ہم سب بے بس ہیں۔ رضائے ربی ہی ہماری رضا ہے”۔ جامعہ کے نائب مہتمم حضرت مولانا سعیداحمدحبیب صاحب مدظلہ نے صدمے کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا کہ ” یہ ناقابل یقین خبر ملی بہت صدمہ ہوا جامعہ اس صدمے سے کیسے باہر نکلے گا اور شدید ترین نقصان ہوا ہے جامعہ کا۔ میرے اللہ کو کیا منظور ہے یہ اللّٰہ ہی جانتا ہے۔ اللّٰہ پاک مفتی صاحب کے درجات بلند فرمائے "۔ حضرت مولانا مفتی محمد اسحاق صاحب نازکی قاسمی مدظلہ نے بھی تعزیت نامہ لکھا نیز متعلقین کی جانب سے اظہار تعزیت کا سلسلہ جاری ہے۔ یادش بخیر! مفتی امتیازاحمدصاحبؒ گزشتہ چودہ برسوں سے جامعہ ضیاءالعلوم میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے۔ دارِ جدید میں قیام پزیر ہونے کی وجہ سے وقتًا فوقتًا ناچیز سے ملاقات رہتی تھی ؛ مزاج میں سادگی ؛ اخلاق میں بلندی ؛ اخلاص و للّٰہیت ؛ پھر تعلقات ؛ مکاتبت و مراسلت ؛ اور سال گزشتہ ہمارے درجے میں اردو اور لکھائی کا گھنٹہ آپ سے متعلق رہا ؛ محنت و جانفشانی سے آپ پڑھاتے تھے طلبہ بھی آپ سے بے حد خوش تھے۔ میرے بیٹے معاذاحمد پر آپ کی خاص توجہات مرکوز رہتی تھیں کاپی چیک کرتے وقت جب کبھی گُڈ مل جاتی تو دوسرے روز کاپی لکھتے وقت بچے کی دلچسپی مزید دکھائی دیتی جس سے اندازہ ہوتا کہ آپ کس قدر محنتی استاذ ہیں ؛ حال ہی میں جامعہ کا شعبہ تحفظ سنت آپ کے ذمہ ہوا اور دارالعلوم رحیمیہ میں منعقدہ پروگرام میں شرکت کے بعد آپ جب واپس تشریف لائے اس حوالے سے جو ہدایات ملیں جہاں اساتذہ جامعہ کے روبرو آپ نے ان کو بیان فرمایا وہاں تحریری شکل میں بھی ان کو تقسیم کیا گیا اس حوالے سے کام کرنے کا آپ کا ولولہ اور حوصلہ قابل رشک تھا۔ میرے تحریری کام پر آپ کے ریمارکس مفید اور دل کشید ہوتے تھے ؛ یہ سطریں لکھتے وقت یہ سب یادیں ذہن و دماغ میں گردش کر رہی تھیں اور قلب و روح کو مضمحل کیے ہوئے تھیں۔ بالآخر اس حادثہ کی بابت معلوم کرنے کے لیے مولانا افتخاراحمد صاحب اور قاری جمیل احمد صاحب سے فون رابطہ کیا۔ تو فرط غم کی وجہ سے تعزیتی کلمات بھی زبان سے ادا نہیں ہو رہے تھے۔ ایک جواں سال عالم اور معلم کا اچانک حادثہ وفات کتنے غم و اندوہ ؛ رنج و ملال اور قلق و اضطراب کا باعث ہوسکتا ہے اس کا اچھی طرح اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ 38 سال کی عمر میں آپ نے وفات پائی ؛ دارالعلوم درگمولہ کپواڑہ کے بانی و مہتمم عالم ربانی حضرت مولانا مفتی جمال الدین صاحب قاسمی شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ کی بھانجی آپ کے نکاح میں تھیں۔ آں مرحوم اپنے پیچھے بیوہ اور دو بچیاں اور تین بچے چھوڑ کر چلے گئے جن کا اللّٰہ ہی سرپرست اور حامی و ناصر ہے۔ مولانا محمد طاہر ضیائی صاحب کی زبانی بذریعہ موٹر سائیکل مفتی صاحبؒ اپنے گاؤں اڑائی کی طرف آرہے تھے نزدیک پہنچے اپنی اہلیہ محترمہ اور بچے کو احتیاط کے ساتھ بائیک سے نیچے اتارا مگر خود سڑک سے لڑھک کر نیچے گرے اور بائک آپ کے اوپر آگئی اور آپ شدید زخمی ہوگئے ضلع ہسپتال پونچھ پہنچانے کے دورانیہ میں مفتی صاحب کثرت سے کلمہ طیبہ پڑھتے رہے اور بار بار کہتے کہ مجھے شدید زخم آئی ہے میرا بچنا مشکل ہے لہذا مجھے معاف کر دینا چنڈک کے قریب راستے ہی میں جان جانِ آفرین کے حوالے کر دی۔ یہ حادثہ جہاں گاؤں اڑائی کے متعلقین اور اہل و عیال کے لیے بہت بڑا سانحہ ہے وہاں ان کی مادر علمی جامعہ ضیاء العلوم پونچھ کے لیے بھی حادثہ عظیمہ ہے۔

https://lazawal.com/

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا