الیکشن 2019 :حکومت کی چابی بی جے پی یا کانگریس کے ہاتھ میں؟

0
192

اسامہ عاقل حافظ عصمت اللہ، مدھوبنی، بھار 9534677175

 

دنیا کے سب سے بڑی جمہوریت ملک ہندوستان میں 17 ویں لوک سبھا چناو¿ں کے لئے انتخابی بگل باضابطہ طور پر اس وقت بج گیا، جب چیف الیکشن کمشنر سنیل اڑورہ نے کچھ روز قبل ملک کے طول و عروض میں 2019 عام انتخابات کرانے کی تاریخوں کا اعلان کیا – چیف الیکشن کمشنر کے مطابق اس مرتبہ عام چناو¿ 7 مراحل میں ہوں گے اور نتائج 23 مئی کو سامنے آئیں گے – جبکہ 3 جون تک نئی لوک سبھا تشکیل ہوجائے گی – چیف الیکشن کمشنر کے مطابق اس مرتبہ کل 90 کروڑ ووٹر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے – حلقوں کا کہنا ہے کہ لوک سبھا چناو¿ں کے ساتھ ہی ملک بھر میں انتخابی ضابطہ نافذ ہوگیا، حلقوں کا کہنا ہے کہ کل 543 لوک سبھا سیٹوں پر ہونے والے چناو¿ں میں اس بار ہر ایک پولنگ مرکز پر وی وی پٹ شدہ ای وی ایم کا استعمال کیا جائے گا – اس سے قبل ہر ایک سیٹ کے کسی ایک پولنگ مرکز پر ای وی ایم کے ساتھ وی وی پیٹ کا استعمال کیا جا رہا تھا، وی وی سیٹ کی مدد سے ووٹر کو اس کے پولنگ مرکز کی پرچی دیکھنے کو ملے گی- حالانکہ دوسری طرف کانگریس کے لیڈر، سماج وادی پارٹی کے لیڈر، نے پھر ای وی ایم مشینوں پر سوال اٹھائے مگر اب کچھ نہیں ہوگا، دیکھتے ہی دیکھتے لوک سبھا انتخاب گزر جائے گی، حسن ظن تو یہی ہے کہ ہماری قوم اور ہمارے قوم کے پیشوا اور رہنما بالکل اس کی تیاری اور منصوبہ بندی کریں، سو فیصد مسلم ووٹ بنک اور اس کے استعمال کو کس طرح صحیح اور نتیجہ خیز بنایا جائے، بہر حال اس حسن ظن کے باوجود اگر اب تک کوئی صاف واضح منصوبہ بندی اب تک نھیں ہو پائی ہے تو اب بھی وقت ہے کہ ہم اس تعلق سے سر جوڑ کر بیٹھیں اور کوئی لائحہ عمل طے کریں اس لئے کہ آنے والا انتخاب بہت ہی زیادہ اہمیت کا حامل ہے اسے یونہی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے سب سے بڑے انتخابی عمل کی تاریخوں کا اعلان ہوجانے کے بعد ایک طرف الیکشن کمیشن کو دن رات ایک کرکے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے تو دوسری طرف اپنی کامیابی کا راستہ ہموار کرنے کے لئے فکر مند سیاسی جماعتیں بالخصوص دو بڑی پارٹیاں ایڑی چوٹی کا زور لگا نے کے لئے بالکل تیار ھیں اور خم ٹھوک رہی ہیں یہ انتخاب 2014 کے پارلیمانی الیکشن سے کافی مختلف ہے ہر خاص و عام اس کو دیکھ سکتا ہے – سابقہ پارلیمانی الیکشن میں بی جے پی ایک عظیم اور تاریخی کامیابی کی تگ و دو میں مصروف تھی تو کانگریس اقتدار کے تحفظ کے لئے کوشاں تھی اب ایک دوسرے کے رول بدل گئے ہیں بی جے پی اپنے اقتدار بچانے کے لئے فکر مند ہے تو کانگریس اقتدار سے بے دخل کرنے کے منصوبوں کو حتمی شکل دے رہی ہے جھاں تک انتخابی مہم کا سوال ہے تو انتخابی مہم کو ہزار مرحلوں سے گزرنا ہے کیونکہ سابقہ انتخابات میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح سیاسی لیڈران تنقید سے تنقید اور تحقیر وتذلیل پر اتر آئے تھے – تنقید جیسی تنقید پر کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا مگر ذاتیات پر اتر آنا کردار کش کرنا، بدزبانی کرنا، کیچڑ اچھالنا، عوام کو گمراہ کرنا انھیں فرقہ وارانہ پر اکسانا اور جارحانہ انداز اختیار کرنا جیسے الیکشن نھیں جنگ لڑی جارہی ہو ایسے رجحانات کا سد باب ضروری ہے یہ سب روکنا الیکشن کمیشن کا فرض ہے – 2014 میں مودی لہر بہت مضبوط تھی، قابل ذکر ہے کہ اتر پردیش کی 80 پارلیمانی سیٹوں میں سے 74 پر بی جے پی نے فتح درج کی اور سماج وادی پارٹی کو گھر کی چار سیٹوں پر سمیٹ دیا جبکہ بہوجن سماج پارٹی کا کھاتا بھی نہیں کھل سکا – ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی مودی لہر نے کام کیا اور بی جے پی بلا شرکت غیر ے بر سر اقتدار ہوگئی – بہر حال 2019 میں یہ صورت حال نھیں ہے، مودی سوالوں کے گھیرے میں ہیں، انھیں جواب دینا ہے کہ اقتدار کے پانچ سالوں میں انہوں نے کیا کارنامے انجام دئیے اور عوام سے کئے گئے اپنے وعدے کہا ں تک وفا کئے – اس پس منظر میں ان کی پانچ سالہ کار کردگی کا جائزہ لیا جائے تو مایوسی ہوتی ہے – پانچ سال میں ان کا بد ترین کارنامہ نوٹ بندی، اس سے عوام کو بے پناہ اذیت پہونچی، وزیر اعظم نریندر مودی نے ان گنت اسکیمیں اور پروجیکٹ چلائے اور ان کا خوب خوب ڈھنڈورہ پیٹا لیکن عوام نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے عذاب سے باہر نہیں نکل پائے- نریندر مودی کے منفی اقدامات ہی ان کے زوال کے لئے کافی ھیں کہ اپو زیشن نے یہ حقیقت دریافت کر لی ہے کہ اتحاد میں برکت ہے اور اسی ہتھیار سے بی جے پی کو دھول چٹایا جا سکتا ہے – اب یہ دیکھنا ہے کہ 2019 کے عام انتخابات میں کرسی بی جے پی کے ہاتھ میں یا کانگریس کے ہاتھ میں –

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا