spot_img

ذات صلة

جمع

لوک سبھا الیکشن: دوسرے مرحلے میں ہوئی تقریباً 60.96 فیصد ووٹنگ

ووٹنگ کا کل فیصد پہلے مرحلے کے مقابلے میں...

حج کو جانے سے پہلے..!

۰۰۰ سرفراز عالم 8825189373 ۰۰۰ سب سے پہلا سوال جو ذہن میں آتا...

موت تو آنی ہی آنی ہے آج نہیں تو کل!

        جاوید اختر بھارتی چار دن کا ساتھ ہے عنقریب موت...

مقابلہ جاتی امتحانات اور مسلم اقلیت کی حصہ داری !

پروفیسر مشتاق احمد :9431414586 اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کیا...

’’جب تک بندہ گناہ کرنا نہیں چھوڑتا ، اللہ کا قرب حاصل نہیں کرسکتا‘‘

  قیصر محمود عراقی لوگ کہتے ہیںکہ ہمارا رب ہمارے دلوں...

بوسیدہ سڑک سے ترقی کی بنیاد کیسے ممکن ہے؟


جمیل احمد محسن
چکھڑی بن، پونچھ

دنیا آج ایک گلوبلائزیشن کی وجہ سے ایک عالمی گاؤں بنی ہوئی ہے،اور پوری دنیا اور ساری مملکتیں کسی نہ کسی لحاظ سے ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ یہ انحصار مختلف طور طریقوں سے ہوتا ہے۔چاہئے وہ تجارتی لین دین سے ہو یا کسی اور وجہ سے۔ ایک کو دوسرے تک رسائی حاصل کرنے کے لئے کچھ مراحل اور منازل طے کرنی ہوتی ہیں، تبھی اپنی منزل ملتی ہے۔ قدیم زمانے میں لوگ پیدل چل کر میلوں سفر کرتے تھے اور اسی دوران مختلف معاشی سرگرمیاں اور دیگر امور بھی سر انجام دیتے تھے۔جوں جوں ترقی ہوتی گئی سب چیزیں بدلتی گئیں۔ آج کل سب کچھ بحری اور ہوائی راستوں کے ذریعے سے ممکن ہے۔لیکن اس کے باوجودروزمرہ کی سرگرمیوں کو انجام دینے کے لیے آج بھی روڈٹرانسپورٹ نیٹورک کی بہت اہمیت ہے۔

آج بھی سب سے زیادہ خدمات سڑکوں سے لی جا رہی ہیں۔ سڑک وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے گاؤں، محلہ اور گلی گلی بھی ایک دوسرے سے متصل اور ملی ہوئی ہیں۔ گھنٹوں کی مسافت اب منٹوں میں طے ہوتی ہے۔جبکہ سڑکوں کی وجہ سے بنجر علاقوں کی کایا ایسی پلٹی کے وہاں کی مٹی زرخیز بن گئی اور وہاں پر زمین ملنا مشکل ہو گیا ہے۔سڑک کی اسی اہمیت کو سمجھتے ہوئے مرکزی حکومت پردھان منتری گرام سڑک یوجناکے تحت گاؤں گاؤں تک سڑکوں کا جال بچھا رہی ہے تاکہ اس کے ذریعہ ترقی کو مزید رفتار دی جا سکے اور حکومت کی یہ پالیسی کامیاب بھی ہو رہی ہے۔ہندوستان میں بھی ہر جگہ سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے۔یہ سلسلہ مرکز ی سرکار اور ریاستی سرکاروں کی مشترکہ کاوشوں سے عروج پر ہے۔

وہیں اگر بات کی جائے ملک کا تاج کہلائی جانے والی ریاست از حال یوٹی جموں کشمیرکی، تو یہاں تقریبا ہر جگہ سڑکیں پہنچی ہیں۔لیکن یہاں کچھ سڑکیں اتنی خستہ حال ہیں کہ ان پر سفر کرنے سے قبل لوگ کئی بار سوچتے ہیں۔ایسی ہی ایک سڑک پونچھ سے ہوتی ہوئی منڈی، لورن اور ساوجیاں وغیرہ علاقوں تک جاتی ہے۔یہ سڑک دفاعی اعتبار سے بھی کافی اہمیت کی حامل ہے، اور تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے بھی،کیونکہ ضلع کی آبادی کا بڑا حصہ ان علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔ لیکن سڑک کی خستہ حالی کا یہ عالم ہے کہ اس میں بڑے بڑے گڈھے پڑے ہوئے ہیں۔انہیں گھڈوں میں دھوپ وغیرہ کے دوران اتنی دھول اور آلودگی ہوتی ہے کہ دم گھٹنے لگتا ہے،جبکہ بارشوں کے دوران انہیں بڑے بڑے گھڈوں میں پانی جمع ہو جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ سڑکیں نہیں بلکہ کوئی تالاب ہے۔سڑک چوڑائی کے اعتبار سے اتنی محیط ہے کہ شاذونادر اگر جام لگ جائے تو گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔

واضح رہے منڈی کے علاقے سیاحتی اعتبار سے نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ لیکن سڑک کی خستہ حالی کی وجہ سے لوگ وہاں نہیں جاتے ہیں جس کی وجہ سے سیاحت کو بھی بڑھاوا نہیں مل سکتا۔منڈی میں ایسے ایسے خوبصورت علاقے جیسے نندی چھول، سلطان پتھری،گلی میدان،تھان پیر وغیرہ ہیں جو خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔لیکن لوگ وہاں تک رسائی اس لئے حاصل نہیں کر تے کہ لاکھوں کی گاڑیاں ایسی خستہ حال سڑک پر لے جاکر کیا کریں گے؟ اس ضمن میں کئی لوگوں نے کھل کر اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ منڈی لورن کے ایک سماجی کارکن چوہدری ذاکر حسین جن کی عمر 35 سال ہے، انہوں نے بتایا کہ جتنا پیٹرول یہاں سے راجوری جانے میں لگتا ہے اتنا ہی پونچھ سے منڈی لورن تک، کیونکہ سڑک کی حالت اتنی خستہ ہے کہ گاڑیوں کو اس پر چلانا مشکل ہوتا ہے۔اتنے بڑے بڑے گھڈے پڑے ہوئے ہیں کہ بارش اور خوشگوار دونوں موسموں میں یہاں چلنا دشوار ہوتا ہے۔خوشگوار موسم میں تو یہاں پر دھول ہوتی ہے اور بارش میں سڑک تالاب کی شکل اختیار کر جاتی ہیں۔حالانکہ سیاحتی مقامات ایسے ہیں کہ اگر ان کی طرف توجہ دی جائے تو ایک پورا سیاحت کا باب کھل سکتا ہے، لیکن سرکار کی عدم توجہی کی وجہ سے یہ سب ناممکن لگ رہا ہے۔

ایک سرکاری ملازم جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں ڈیوٹی پر جاتے ہوئے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، موٹر سائیکل پر جاکر وہاں پہنچتے ہیں ہماری وہ حالت ہوتی ہے جیسے قبرستان سے اٹھ کر آئے ہوں۔ سب کچھ دھول اور مٹی میں لت پت ہوتا ہے۔ اگر جام لگ جائے تو گھنٹوں لگ جاتے ہیں ایسے میں ہم نہ ہی اپنے فرائض منصبی کے ساتھ انصاف کر سکتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کے ساتھ۔ وہیں ایک مقامی خاتون جن کا نام فاطمہ بانو عمر25 سال ہے، انہوں نے بتایا کہ یہ سڑک ایک مرکزی حیثیت رکھتی ہے لیکن خستہ حالی کا حال یہ ہے کہ لوگ رو کر سڑک پر سفر کرتے ہیں۔ بزرگوں، بچوں اور حاملہ خواتین کا اس سے گزرنامشکل ہو جاتا ہے۔ سڑک کی خستہ حالت کی وجہ سے گاڑیاں مسافروں کا برا حال کرتی ہیں۔ حاملہ خواتین کو اگر لایا جائے تو اتنا مشکل ہوتا ہے کہ ہم لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے۔اس ضمن میں ڈی ڈی سی ممبر، لورن ریاض بشیر نازنے بتایا کہ گزشتہ سال کافی جدو جہد کے بعد تارکول بچھانے کا کام کیا گیا تھا لیکن وہ صحیح طور پر نہیں کیا گیا اور سال کے اندر ہی اکھڑ گیا۔اب ہم کوشش میں لگے ہیں جلد ہی اسکا کام کیا جائے گا۔

بہر کیف اب اتنی مرکزی حیثیت رکھنے والی سڑک کی خستہ حالی کا یہ عالم ہے تو دوسری چھوٹی سڑکوں کا آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا ہو گا؟ اس سے گزر کرحاملہ خواتین،بچوں، بزرگوں اور ملازمین کو کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔خیراب انتظامیہ اگر ان لوگوں کی مشکلات کا ازالہ کرنے کی سعی کرے تو ممکن ہو سکتا ہے کہ علاقے کی ترقی بھی ہو سکے، کیونکہ سڑک ہی ہر چیز کے لئے واحد راستہ ہے جس کے ذریعے عوامی روابط، تجارتی، معاشی اور دیگر سرگرمیاں آسانی سے بحال ہوتی ہیں۔(چرخہ فیچرس)

spot_imgspot_img
%d bloggers like this: