لڑکیاں بھی اعلیٰ تعلیم کی حقدار ہیں

0
124
 


ریحانہ کوثر
پونچھ

حال ہی میں جاری ہونے والے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس) کے مطابق ملک میں ایک ہزار مردوں کے مقابلے خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اب ہندوستان میں ایک ہزار مردوں کے مقابلے میں ایک ہزار بیس خواتین ہیں۔ لیکن باوجود اس کے ان کی تعلیم میں کوئی بھی بہتری نہیں آئی ہے۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ملک میں تقریباً  60 فیصد خواتین نے محض دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ یعنی ابھی بھی ساٹھ فیصد لڑکیاں ایسی ہیں جو دسویں جماعت سے آگئے نہیں پڑھ سکیں۔وہی اگر بات کی جائے دیہی علاقاجات کی تو دیہاتوں میں یہ گراف مزید حیران کن ہے۔ اعلیٰ تعلیم اب بھی دیہی خواتین کیلئے محض ایک خواب ہے۔واضح رہے سماجی تبدیلی کی رفتار کو تیز بنانے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کا طبقہ بہتر رول ادا کر سکتا ہے۔پورے خاندان پر ایک عورت سے بہتر کسی کا اثر انداز نہیں ہوتا۔جبکہ لڑکیوں کی تعلیم اور شعور آگاہی اور پورے خاندان کے لئے فریم کا کام انجام دیتی ہے۔

خواتین کو با اختیار بنانے کے طریقوں اور ذرائع کو تیز کرنے میں اعلیٰ تعلیم کا بڑا دخل ہے۔وہیں خواتین کو با اختیار بنانا اس وقت ایک عالمی مسئلہ ہے۔ دنیا بھر میں کہیں رسمی اور غیر رسمی مہمات میں خواتین کو با اختیا ر بنانے کا تصور پیش کیا گیا۔ اس لئے ہم خواتین کو با اختیار بنانے کے حوالے سے تعلیم کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔لیکن وہیں دوسری طرف ہمارے یہاں اب بھی شہری یا دیہی گھرانوں میں لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کو فوقیت دی جاتی ہے۔ حالانکہ لڑکیاں مستقبل کی مائیں ہیں۔انہیں تعلیم سے دور رکھنے کا نقصان پوری قوم کو اٹھانا پڑے گا۔ لیکن پھر بھی نا جانے کیوں سماج اور حکومتیں آج بھی اس امتیاز کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔اس کی ایک مثال یوٹی جموں کشمیر کا سرحدی ضلع پونچھ کے گاؤں کنوئیاں (پنج ککڑیاں) ہے۔ یہ گاؤں ضلع پونچھ ہیڈ کواٹر سے پانچ کلومیٹر کے دوری پر واقع ہے۔ جہاں آزادی کے کئی سال گزر جانے کے بعد بھی وہاں لڑکیوں کی تعلیم میں بہتری نہیں آئی ہے۔ مقامی لوگوں سے بات کر کے پتہ چلا کہ یہاں اس وقت تک لڑکیوں کی تعلیم کا گراف صفر ہے۔اس سلسلے میں جب مقامی سرپنچ محمد اسلم چودھری سے جب بات ہوئی توانہوں نے کہا کہ سرکارکی طرف سے جو بھی فلاحی اسکیمیں لڑکیوں کی تعلیم کوفروغ دینے کے لئے نکالی جا رہی ہیں،وہ صرف محکمہ تک ہی محدود رہتی ہیں۔ دور دراز کے علاقوں میں ان اسکیموں کہ کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچتاہے۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ہمارے گاؤں پنج ککڑیاں میں صرف دو اسکول ہیں۔ وارڈ نمبر دو میں ایک مڈل اسکول ہے جس کا نام (پنج ککڑیاں، مڈل اسکول دڑا) ہے۔ جس میں بچوں کی تعداد تقریباً سو سے زائد ہے۔ دوسرا  مڈل اسکول (مڈل اسکول ڈنہ)ہے۔جو وارڈ نمبر چار میں نو وارڈوں پر مشتمل ہے۔ یہ گاؤں اس دور میں بھی اعلیٰ تعلیم کے اسکولوں سے محروم ہے۔ وہ کہتے ہیں ہماری بچیاں صرف آٹھویں تک تعلیم حاصل کر کے گھر بیٹھی ہیں کیوں کہ یہاں اعلیٰ درجے کا کوئی بھی اسکول نہیں ہے۔انہوں نے بتایا یہاں سے پونچھ چھ کیلومیٹر کی دوری پرایک اسکول ہے جہاں پہنچنے میں تین گھنٹے کا سفر پیدل کرنا پڑتا ہے۔ سڑک کا نام و نشان نہیں کہ بچے گاڑیوں میں جا کر تعلیم حاصل کرتے۔ لہٰذا میں انتظامیہ سے گزارش کرتا ہوں کہ ہمارے گاؤں کنوئیانں کے تعلیمی نظام میں بہتری لائی جائے۔اس گاؤں کی باشندہ آمنہ کوثر جن کی عمر سترہ سال ہے دسویں تک پڑھائی کر کے اسکول جانا چھوڑ دیا ہے۔ جس کی بڑی وجہ ان کے گاؤں کنوئیاں (پنج ککڑیاں) میں صرف آٹھویں تک اسکول ہے۔جبکہ انہوں نے نویں اور دسویں کی جماعت لور کنوئیاں ہائی اسکول سے پاس کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ صبح گھر سے چھ بجے نکلتی اور اسکے ساتھ باقی لڑکیاں بھی ہوتی تھی وہ اپنے اسکول میں دس بجے پہنچتی اور شام کو پانچ بجے گھر پہنچتی تھی۔دو سال تک انہوں نے کافی دشواریوں کا سامنا کیا پھر آخر انہیں مجبوراً اسکول چھوڑنا پڑا،کیوں کے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ ہی نہیں تھااور یہ اسکول انہیں صرف دسویں تک ہی پڑھنے میں مدد کر سکتا تھا۔ لہٰذا مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے انہیں یہاں سے دور شہر پونچھ میں پڑھنے جانا تھا جو ایک گاؤں میں بہتر سڑک رابطہ اور دوسرا دور ہونے سے ان کی پہنچ سے سے بھی کافی دور تھا۔

تاہم اس طرح آمنہ کا اعلیٰ تعلیم کا خواب محض ایک خواب رہ گیا۔اسی علاقے کی ایک اور رہائشی خاتون انجم فاطمہ عمر پینتیس سال ہے، وہ کہتی ہیں کہ یہاں کے لوگ مختلف طرز زندگی گزارتے ہیں۔ بہت ساری دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس علاقے کے تمام طلباء کو کوئی بھی سہولت نہیں ہے۔ اسکول ایک دو ہیں اْنکی بھی خستہ حالت ہے۔ لڑکیاں ادْھوری تعلیم حاصل کر کے گھروں میں ہیں۔جبکہ مالی حالات اچھے نہیں ہیں کہ ہم بچوں کو سیٹی میں پڑھائیں۔ اس علاقے کے بچے بچیوں کے لئے شہری زندگی کے ماحول میں اپنے آپ کو ڈالنابڑا مشکل ہو جاتا ہے۔وہیں ایک اور طلبہ رخسانہ کوثر اپنا اظہار خیال کرتے ہوئے کہتی ہیں کے ہم یہاں کی لڑکیاں جب دسویں پاس کرتی ہیں تو دسویں کے بعد کی کلاس میں جانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔اعلیٰ تعلیم کے اسکول بھی نہیں۔

یہاں غربت کے مارے لوگ بچوں کو آگے کالج یونیورسٹیوں میں نہیں پڑھا سکتے۔وہ کہتی ہیں کہ کالج کی مہنگی فیس ہوسٹل وغیرہ کا کرایا خرچہ بہت دینا پڑتا ہے۔اس لئے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں اور لڑکیاں گھر کے کام کاج میں لگ جاتی ہیں۔تاہم اس سے صاف ظاہر ہے کہ ملک میں لڑکیوں کا تعلیم کا کیا حال ہے۔ اس میں کو شک نہیں کہ سرکار کو اس کی فکر ضرور ہے، مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ (چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا