نظم

0
267
نمبردار بہت ہوں نہ چو کیدار بہت ہوں
اس شہر میں گر ہوں کہیں فنکار  بہت ہوں
میں نے کیا ہے مدتوں خود کو زمین بوس
تب جاکے آج کل میں ثمربار بہت ہوں
اے دُشمنِ فرقاں تجھے معلوم بھی ہے کیا
تیرے لٸے شاخوں کی میں تلوار بہت ہوں
یہ بات الگ خود کی خبر ہے نہیں مجھ کو
لیکن میں زمانے سے خبر دار بہت ہوں۔
اب کس کے در  پہ جاٶگے اشعار بیچنے۔
لاٶ ادھر میں ایک خریدار بہت ہوں۔۔۔
مجھ سے جو بن نہ پایا زمانہ تو کیا ہوا
میں اپنی ذات کے لٸے معمار بہت ہوں۔۔۔۔
بچوں نے روٹی مانگی تو پگڑی تلک بکی
کہتا تھا جو کہ یار میں خودار بہت ہوں
یہ مال یہ منال یہ عہدے یہ حکومت
کہتی ہے شب و روز میں بیکار بہت ہوں
گفتار کے غازی سے ہے میداں میں کیا اُمید
لشکر میں اگر ہوں تو کردار بہت ہوں۔
اُس شہرِ دل کی کون حفاظت بھلا کرے
 کہ جس  کے شہریار ہی مکار بہت ہوں۔
یہ نید اب آنکھیں بھی چُرا لے کے جاٸے گی
بچے تمہارے اب ذرا بیدار بہت ہوں۔۔۔۔۔
اس دور کے مسلم کے تصور نے اے امتیاز
مجھ سے کہا کہ اب کہ میں بیمار بہت ہوں
امتیاز احمد بہلیسی
اسیسٹنٹ پروفیسر اردو
جی ڈی سی کلہوتران

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا