سیدہ رشید النساء ‘ اُردو ادب کی ’پہلی خاتون ناول نگا ر

0
525

’  ! ڈاکٹر جی۔ایم پٹیل پونہ رابطہ : 9822031031 سیّدہ رشید النساء کی غیر معتبر میراث ، اپنے تحریر کردہ ناول ’’ اصلاح النسائ‘‘ پہ ا پنا نام لکھ نہ پائیں

سیّدہ رشیدہ النساء ایک نہایت ہی معزز اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان کی پڑھی لکھی خاتون تھیں۔یہ دور وہ تھا جب ہندوستان میں تعلیم نسواں معیوب بات تھی۔ مصنفہ رشیدہ
ا لنساء کو اپنے زمانے کی خواتین کے مسائل اور ان کے اسباب سے آگاہی تھی اور ان کی اصلاح کا جذبہ بھی ۔ جس کا نتیجہ ‘‘ اصلاح النساء ‘ کی تخلیق تھی اور آپ نے خواتین کی تعلیم کی سعی میں اپنی نگرانی میں قائم کردہ خواتین کی اسکول کی بنیاد رکھی ۔ رشید النساء کے ادبی و معاشری خدمات کے لئے اپنے ہم عصروں سے موازنہ ممکن نہیں کیوں کہ آپ کبھی اسکول گئی ہی نہیں ۔آپ کی تعلیم گھر پر خود اپنے خاندان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ والدین اور اپنی برادری اور سب سے اہم آپ کا گہرا ادبی مطالعہ کا جنون تھا۔ اس دور میں آپ نے اپنے آ ہنی ارادوں سے انقلاب کی چنگاری سلگا دی جو آنے والی خواتین نسل کے لئے ایک مشعل راہ بن گئی اور ایک کتاب ’’اصلاح النساء ‘‘ کی تخلیق کی۔ تاریخ میں ’’ پہلی خاتون ناول نگار‘‘ کا سکہ ثبت کردیا جو تاریخ کے اوراق پر سنہرے حرفوں میں یہ رقم ہے ۔


ایک ہی خاندان نے مسلمانان ہند کو دو ’’ شمس العلما ‘‘ سے نوازے گئے جو ایک نادرر بات تھی ۔ شمس العلما کے نام سے نوازے گئے سیّدہ رشید النساء کے والد محترم’ شمس لعلما خان بہادر سید وحید الدین‘ صدر اعلیٰ تھے اور آپ کے’’ برادر ’محترم شمس العلماء نواب سید امداد لا مام اثرؔ صاحب ِ یوانِ تھے۔’’ کاشف الحقائق‘‘ کے اس مصنف اُردو ادب کے اساتذہ اور تلامذہ خوب واقف ہیں جن کا نام نامی بر صغیر کے باہر بھی’’ مراۃ الحکماء ‘‘ کے واسطے سے جا نا گیا۔ آپ کے دوسرے بھائی’ نواب سید یوسف امام ‘راقم کے دادا تھے۔حضرت ’’ابو الفرح واسطی ‘‘ کے سبب، واسطی اور حضرت زید شہید علیہ سے نسبی تعلق کے ذریعے خاندان کے افراد ’ ’زیدی الواسطی ‘کا لقب اختیار کیا کرتے تھے۔حضرت امام زین لعابدین ؓ کے بعد آپ ’خاندان ِ ِ حسینی‘ میں ۳۹ ویں پشت میں تھیں۔آپ کے والد بزرگوار پٹنہ شہر کے مضافاقی قرئے’’ کرائے پر سرائے‘‘ میں سکونت پذیر تھے اور وفات کے بعد اپنی تعمیر کردہ جامع مسجد کے صحن میں ’ مدخل مسجد‘ کے قریب حسب وصیت دفن کئے گئے۔
آپ کا تعلق عظیم آباد( پٹنہ) سے تھا ۔رشیدالنسا ء ۱۸۵۵ میں پٹنہ میں ’’ شمس العلما سید وحید الدین خان بہادر کے ہاں پیدا ہوئیں۔آپ نے اپنی ابتدائی و ثانی تعلیم گھر پر ہی مکمل کی۔وکیل مولوی محمد یحییٰ سے آپ نے اپنی خوشگوار ازدواجی زندگی کا آغاز کیا۔اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان سے وابستگی کے باؤجود رشید ا لنساء نے باقائدہ تعلیم حاصل کرنے سے قاصِر رہیں۔آپ ایک گھریلو خاتون رہنے کے باوجود اُردو ادب سے گہری دلچسپی تھی ۔ عالی جناب ڈپٹی نذیر احمد کی تحریر کردہ اُردو کے اہم ناول
’’ میراۃ ا لعرس ‘‘ سے آپ بے حد متاثر تھیںاور اسی ناول سے آپ کو ناول لکھنے کی ایک تحریک مل گئی۔
اس زمانے میں ادبی کاموں پر ایک سر سری نظر ڈالی جائے تو یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صرف دو ناول یعنی ’’ میراۃ العرس‘‘ ڈپٹی مولوی نذیر احمد ‘ اور
’’ صور ۃ الخیال‘‘ شاد اعظم آبادی ۔ ڈپٹی نذیر احمد جنہوں نے سب سے پہلے خواتین کے ادب کی تشکیل کی ،تانثیت کا منشور مرتب کیا ہندوستانی آئین کا ترجمہ ’’ تعزیرات ہند ‘ کے نام سے کیا ۔ مولوی ڈپٹی نذیر احمد کا ’’ میراۃ العرس ‘‘ ۱۸۶۹ میں شائع ہوا اور اس کے بعد ’’ بنات النعش ‘‘ شامل ہے ۔ ’ شاد ؔ عظیم آبادی ‘ اُردو کے معروف شاعر ، دانشور ، محقق ، مورخ اور اعلیٰ پایہ کے نثر نگار اور ایک مشہور نقا دتھے کلیم الدین نے انہیں اُردو غزل کی تثلیث میں میرؔ او ر غالبؔ کے بعد تیسرے معروف شاعر کے طور پر شامل کیا ۔ ، سماجی مصلح اور اخلاقی اہمیت حاصل تھی تاہم ،جیسا کہ ’ میراۃ العرس ‘ نے خواتین کے اخلاقی رویے میں بہتری کو اجاگر کیا اسی لئے رشید النساء اپنے ناول ’’ اصلاح النسائ‘‘ میں مولوی ڈپٹی نذیر احمد کے خیالات کی پیروی کی اور انکے نقش قدم پر چلیں۔اُردو کے اہم ناول ’’ میراۃ العرس نے آپ کو بے حد متاثر کیا کیوں کہ آپ نے اس دور میں خواتین کی تعلیم کو فروغ دیا تھا ۔اس ناول نے آپ کو ناول لکھنے کی تحریک دی۔ ابتدا ہی میں اردو ناول نگاری کی تاریخ، خواتین اور ان کے مسائل ،تعلیم نسواں ،اصلاح سماجی حیثیت کے گرد گھومتی رہیں ۔ زیادہ تر ابتدائی ناول میں خواتین نے اپنے حقوق اور خواتین کے لئے مغربی تعلیم کا حق مانگا۔

در حقیقت یہ ان اقدمات پسند اور گھٹن زدہ دور میں حیران کن ترقی تھی۔اس دور کی عورتوں ساتھ چوپایوں جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ ان کی محدود رسائی شامل تھی اور صرف
بنیادی ضروریات تک ہی محدود تھی۔ان کی گھریلو ذمہ داریوں سے ہٹ کر کوئی بھی پہچان ایک بد نام داغ کے مترادف تھی۔لہٰذہ ایسے ہم آہنگ اور روایتی دور میں

خواتین کی تعلیم کے حق کے لئے آواز اٹھانا واقعی ایک بہت بڑی کامیابی تھی اور سنگ میل تھا۔اسی وجہ سے رشید النساء کا ناول بارہ سال تک شائع نہ ہوسکا جب تک آپ فرزند’ بیسرسٹر سلیمان ‘ اپنی اعلیٰ تعلیم کے بعد یوروپ سے واپس نہیں آئے اور اپنی والدہ محترمہ کا ناول شائع نہیں کروایا۔
ا س ناول کے لکھنے کے پیچھے سب سے بڑی وجہ معاشرے کی اصلاح تھی جس نے آپ کو خواتین کی اصلاح کی طرف گامزن رکھا کیوںکہ اس زمانے میں خواتین
توہم پرست اور سادہ مزاج ،بھولی بھالی اور سادہ لوح تھیں۔ان کی غیرت مندا نہ طبیعت کی بنیادی وجہ تعلیم کی کمی تھی،رشید النساء نے اس بات پر اپنی توجہ مرکوز رکھی کہ کس طرح ایک تعلیم یافتہ خاتون اپنی اور اپنے بچوں کی پپرورش کے ذریعے معاشرے میں ایک سمندری تبدیلی لا سکتی ہیں۔وہ ایک ’موجد ، مخترع ،رہبر و رہنما ‘ ثابت ہوئیں کیوں کہ خواتین ناول نگار ی میں ان کے جانشینوں نے آپ کی پیروی کی اور معاشرے کی بہتری میں اہم کردار نبھایا۔اس حوالے سے نمایاں ترین شخصیات میں صغرا ہمایوں مرزا ‘ اکبری بیگم ‘ عباسی بیگم ‘ ظفر جہاں بیگم ‘ اے زیڈ ‘ حسن بیگم ‘ فاتمہ بیگم ‘ طیبہ بیگم ‘ ضیا بانو اور بی سعید شامل ہیں۔ان ناول نگاروں نے ’اصلاح النساء ‘کی طرز پر کردار کی تخلیق کی اور نا خواندگی ،فرسودہ رسوم و رواج اور غیر منطقی عقائد کے خلاف آواز بلند کی۔جدید دور میں صالحہ عابد حسین ‘ اے آرکھٹن ‘ رضیہ فصیح احمد ‘ رضیہ بٹ ‘ دیبا خانم ،عفت موہانی ، آمنہ اقبال احمد، سلمیٰ کنول اور بشریٰ رحمٰٰن کی تخلیقات پر بھی اصلاح النساء کے مضبوط نقوش ہیں۔
۱۸۶۹ میں جب میراۃ العرس ‘ شایع ہو اتو رشید النساء کی عمر صرف ۱۶ سال تھیں ۔ اس ناول کے مطالعہ سے آپ میں بیداری ،شعور آگیا اور آپ کو خود اپنی اور دیگر خواتین کی سماجی حیثیت پر غور کرنے پر مجبور کیا ۔ راشد علی امام اور حسن امام کی خالہ جان تھیں ۔ان کی شادی مولوی محمد یحییٰ سے ہوئی جو اپنے ادبی ذوق کی وجہ سے جانے جاتے تھے ۔ر شید ا لنساء نے محسوس کیا کہ بطور ایک خاتون آپ کو تعلیم ادب اور علم پر دسترس نہیں ہے۔ ۱۹ ویں صدی کے اواخر اور ۲۰ ویں صدی کے اوائل میں خواتین کی تعلیم کو آپ کی تعلیم تک رسائی سے جوڑ دیا گیا۔ رشید النساء بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھیں۔ آپ کی ر ائے میں ہندو مسلم دونوں خواتین کو جدید تعلیم تک کی رسائی حاصل ہونی چاہئے۔
رشید النساء پہلی خاتون ناول گار تھیں ۔ آپ نے اپنی پہلی ناول ’’ اصلاح النساء ‘‘ مسلم خاتون نال نگار‘ اس دور کا آغاز کیا۔ ۱۸۸۱ میں وہ وہ ناول مکمل تو ہوئی لیکن اس دور کے قدامت پسند ماحول میں ۱۸۹۴ تک اسے شائع نہیں کر سکیں ۔یہ رد شدہ کاغذ ات کے درمیان دھول چاٹتی پڑی رہی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ پس منظر سے آنے کے باوجودد رشید النسا نے باقائدہ تعلیم حاصل نہ کر سکیں ۔ اس ناول کے ذریعے جن اہم مسائل کو اجاگر کیا گیا ان میں خواتین کی تعلیم ، توہمات اور فضول رسوات کی مذمت شامل ہے ۔ مصنفہ نے ان سماجی اور خاندانی مسائل کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے جو اس وقت کے خواتین معاشرے کو پریشان کر رکھا تھا۔ لیکن آپکی بد قسمتی کہ بہت سے نقادوں نے آپ کے قد کو پہلی خاتون ناول نگار تسلیم نہیں کیا۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ۱۹ ویں صدی کے آخر میں ’’ اصلاح النساء ‘‘ کے علاوہ کوئی اور ناول شائع نہیں ہوئی۔رسمی ناول لکھنے کا آغاز ۲۰ ویں صدی کے آخر میں ہوا ۔لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے خو اتین ناول نگاری کا آغاز ’’ اصلاح النساء ‘‘ سے ہوا تھا۔ اسلئے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کی ’’ رشید النساء دراصل اُردو ادب کی پہلی خاتون ناول نگار تھیں‘‘ ۔
لہٰذہ یہ بات بالکل عیاں ہے کہ رشید النساء نے جس مہم کی سر براہی کی تھی اس کی اُردو ادب میں آپ کی خواتین نے کامیابی سے پیروی کی۔اس وقت سلگتے ہوئے مسائل کو ان کے کاموں میں مناسب طریقے سے پیش کیا گیا تھا جو بالآخر سماجی اصلاح کا باعث بنے۔چونکہ معاشرے میں سماجی اہرام میں خاتون کو ایک اہم مقام حاصل تھا۔اور صرف وہی اپنی ساتھی خواتین کے دکھوں اور مسائل کوآپ سمجھ سکتی ہیںاور اس کا انداز ہ لگا سکتی ہیں۔اسلئے ایک خاتون کی اصلاح پوری نسل اور اس کے بعد پوری قوم کی اصلا ح کا مترادف ہے۔
مسلم خواتین کے حقوق اور معاشرتی اصلاح میں بیداری کا سہرا ’’ Sir Willlam muir ‘‘ برطانوی ہندوستان کے شمال مغربی صوبوں کے لیفٹیننٹ گورنر کو جاتا ہے۔ سر ولیم موئیر نے ۱۸۵۷ میں ’ مدراستہ العلوم ‘ علی گڑھ کے سالانہ اجلاس سے اپنے خطاب میں کہا ’’ ہندوستانی مسلم خواتین کے لئے جدو جہد ، تعلیم کی راہیں بنانے کے لئے اپنے مصری ہم منصبوں کی پیروی کریں‘‘۔ ان کی اس تجویز کے بعد برطانوی حکومت نے اردو کتابوں کے لئے سالانہ مالیاتی انعام کا اعلان کیا
جنہوں نے مسلم خواتین میں تعلیم کو فروغ دینا تھا۔ ڈپٹی نذیر ا حمد مولوی ‘ کریم الدین ‘ کے ’’ تذکر ہ النسائ‘‘ کے ناولوں کے علاوہ محمد حسین خان کے ’’ تہذب نسواں‘‘ ‘‘ اور محمد ظہیرالدین خان کے ’’ علم نسواں ‘‘ اور کچھ ناولوں کو انعامات سے نوازہ گیا۔

لیکن آپ کی غیر معتبر میراث ، اپنے تحریر کردہ ناول ’’ اصلاح النسائ‘‘ پہ ا پنا نام لکھ نہ پائیں۔ ، لیکن بے حد ما یو س ، شاید معاشرتی تانوں بانوں اور اپنے اخلاقی اقدار ،بزرگوں کا احترم یا پھر قدامت پسندں کا خوف تمام سوالیہ نشان ہیں۔لیکن آج بھی یہ بات حیران کن اور مضحکہ خیز لگتی ہے ۔ شاید آپ تڑپ کے رہ گئیں ہونگی۔ ْلیکن آپ اپنے فرزند سلیمان کی شکر گذار ہیں کہ انہوں نے اپنی جرأت مندی ، بہادری اور سماج سے انقلاب کیا اور اپنی والدہ کو اپنے حق کو ،ان کے اپنے ناول پر ’ رشید النساء ‘‘ لکھوایا اور شائع کروایا۔اصلاح النساء کی ابتدائی ریلیز ۱۸۹۴ میں ہوئی ،اس کے بعد اسکا دوسرا شمارہ ۱۹۶۸ میں اور تیسرا شمارہ ۲۰۰۱ میںپاکستان میں شائع ہوا۔
۲۰۰۶ میں ’ خدا بخش اورینٹل قومی پبلک لائبریری نے اس کتاب کو جاری کیا جو فی لوقت ’ تیسرا منزلہ ،تیخنولوجی بھون ،بیلے روڈ ۔پٹنہ میں موجود ہے۔
رشید النسا نے بہار میں لڑکیوں کے لئے پہلا اسکول قائم کیا جو پٹنہ میں موجود ہے ۔ آپ نے ۱۹۰۶ میں آپ نے ایک اسکول ’’ مدرسہ ٔ اسلامیہ ‘‘ جو اب Betia house کے نا م سے جانا جاتا ہے،قائم کی ۔یہ اسکول اس اس خطے کے بہترین اسکولوں میں ایک ہے جہاں ہندو اور مسلم بچوں کو کو اُردو اور ہندی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔
رشید النساء کا انتقال تقرباََ ۸۲ برس کی عمر میں پرچ ،۱۹۳۱ میں ہوا اور تدفین مقبرہ ہیبت جنگ کے قبرستان میں ہوئی جو کہ پٹنہ شہر میں واقع ہے۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا