نذرِ ہندوستان

0
341

ڈاکٹر فرزانہ فرح (بھٹکل)

گلاب، خواب، نسترن، ہر ایک صحرا لالہ زن
یہ رنگ و بو کا قافلہ، یہ میرے ہند کا چمن

گواہ آسمان ہے ہزار زخم کھائے ہیں
فرنگیوں نے حوصلے ہمارے آزمائے ہیں
ہوا نہ ساز گار تھی مگر دئیے جلائے ہیں
وطن کے عشق کی عجب رہی ازل سے ہے لگن

غلامی اور جبر سے، خزاں رسیدہ تھا چمن
سروں پہ بزرگانِ ہند، باندھ کے چلے کفن
بلند کوہ سے رہا ہمیشہ عزمِ کوہ کن
یہ حریت، یہ مملکت، ہے فیضِ ربِ ذوالمنن

یہ خاک وہ کہ جس سے سنت صوفیا کو پیار ہے
بہار ہو کہ ہو خزاں یہیں پہ بس قرار ہے
ہماری سانس سانس پہ وطن تیرا ادھار ہے
دعا ہے چاند جیسے دیش کو لگے نہیں گہن

ہواؤں میں بھری پڑی ہیں مامتا کی لوریاں
بسنت رت میں، ڈال جھولے، کھیلتی ہیں گوریاں
شمال سے جنوب پیار کی بندھی ہے ڈوریاں
عجب اودھ کی شام،اور بنارس صبح کا چلن

 

عظیم پر بتوں پہ پھیلے ساحلوں پہ ناز ہے
قلعے، مینار، معبدوں کے قافلوں پہ ناز ہے
علیگ، ندوہ، ٹکسلا، کے فاضلوں پہ ناز ہے
ہنر کا ایورسٹ، علم وفن کا گنگ اور جمن

مغل وچولا، نند، گپت، موریا کا پیارا ہے
اشوک، بمب سارا، شاہ جہان نے نکھارا ہے
نظر لگے کسی کی اس کو، ہم کو کب گوارا ہے
اسی کے مشک سے مہک رہا ہے اپنا تن بدن

کہیں قیام ہو مگر، تیرے ہی گیت گائیں گے
ترنگے تیری شان کو کچھ اس طرح بڑھائیں گے
دیا ہے دل تجھے، تو جان تجھ پہ ہی لٹائیں گے
سلامت اپنی نوجوانی اور تیرا بانکپن

ہمیں ہی اس کے کھیتوں میں محبتیں اگانا ہے
جنون کی گئی رتوں کو پھر ہمیں بلانا ہے
نئے افق کو چھو کے آسمان کو جھکانا ہے
ازل سے ہم کو ہے عطا دلوں کو جیتنے کا فن

کبھی نشانہ چاند تھا ستارے اور لائیں گے
ا و سوہنے دیش کہکشاں سے ہم تجھے سجائیں گے
لیا ہے جتنا تجھ سے اس سے دوگنا دلائیں گے
تیری بلندیاں رہیں گی چھو کے ایک دن گگن

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا