اردو صحافت کا مستقبل تابناک

0
57

اردو صحافت کا مستقبل تابناک
عصری تقاضوں سے ہم آہنگ اور اپنا احتساب کرنے کی ضرورت :شاہد صدیقی
یواین آئی

نئی دہلی؍؍اردو صحافت کا مستقبل تابناک ہے لیکن ہمیں مسائل کا رونا رونے کے بجائے اسے درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے عصر ی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا احتساب بھی کرنا ہوگا۔ا ن خیالات کا اظہار آج یہاں متعدد صحافیوں نے ’اردو صحافت کو درپیش چیلنجز‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس کا انعقاد دہلی یونین آف جرنلسٹس نے انڈیا اسلامک کلچر سینٹر اور نیشنل الائنس آف جرنلسٹس کے تعاون سے کیا تھا۔سیمینار میں اردو کے علاوہ ہندی اور انگلش کے متعدد صحافیوں کے علاوہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی موجود تھے۔سینئر صحافی اور سابق ممبر پارلیمنٹ شاہد صدیقی کا کہنا تھا کہ اردو صحافت کا ماتم کرنا درست نہیں کیوں کہ آج صرف اردو ہی نہیں بلکہ تمام طرح کی صحافت کو کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی لحاظ سے توآ ج اردو صحافت کا سب سے عمدہ دور ہے لیکن مواقع کا صحیح استعمال کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی زبان اسی وقت زندہ رہتی ہے جب وہ ٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ چلے۔ انہوں نے اردوصحافت کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اردو صحافت اور صحافیوں کی شاندار تاریخ کاذکر کرتے ہوئے آج اردو میں اچھے صحافی اس لئے نہیں آرہے ہیں انہیں خاطر خواہ تنخواہ نہیں ملتی ہے۔ قبل ازیں دہلی یونین آف جرنلسٹس کے صدر ایس کے پانڈے نے افتتاحی کلمات میں کہا کہ ملک کی آزادی کے بعد سے ہندوستان میں اردو صحافت کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ آج اردو کے ساتھ ساتھ تمام دیگر علاقائی زبانوں کی صحافت کو بچانے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت محسوس ہورہی ہے اور اگر ابھی آواز نہیں اٹھائی گئی تو آنے والے دنوں میں مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔انہوں نے کہا کہ ڈی یو جے کی طرف سے اس سیمنار کا انعقاد اردو صحافت کو درپیش چیلنجز کا حل تلاش کرنے کی کوشش ہے۔جدید خبر کے مدیر معصوم مرادآبادی نے کہا کہ اردو صحافت کو داخلی اور خارجی دونوں طرح کے چیلنجز درپیش ہیں۔ ملک کا ایک طبقہ ایسا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اگر اردو آگے بڑھے گی تو دوسری زبان کمزور ہوتی جائے گی۔ حالانکہ یہ سوچ سراسر غلط ہے کیوں کہ زبانیں ایک دوسرے کی معاون ہوتی ہیں۔انہوں نے افسوس کے ساتھ کہا کہ آج ’زبان، ذہن اور ضمیر‘ تینوں کا زوال ہورہا ہے۔ارد و اخبارات کو درپیش مالی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یوپی اے دورحکومت میں ڈی اے وی پی اشتہارات کے جو نرم ضابطہ بنایا گیا تھا اس سے فائدہ کے بجائے نقصان ہوا لیکن این ڈی اے حکومت نے 2016میں جو سخت پالیسی بنائی اس نے اردو اخبارات کا بیڑا غرق کردیا۔اردو حالانکہ قومی زبان ہے لیکن حکومت نے اسے علاقائی زبانوں کے زمرے میں رکھ دیا۔ چھوٹے شہروں سے نکلنے والے اخبارات بڑی تعداد میں دم توڑ چکے ہیں۔یو این آئی اردو کے ایڈیٹر انچارج عبدالسلام عاصم کا کہنا تھا کہ ہمیں خود احتسابی کرنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ اردو صحافت کی موجودہ صورتحال کے لئے خود ہم کتنے ذمہ دار ہیں۔ہندوستان میں وائس آف امریکہ کے نمائندہ سہیل انجم کا کہنا تھا کہ اردو صحافت میں آنے والے نوجوانوں میں جوش اور ولولہ تو ہے لیکن انہیں تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمپیوٹر نے جہاں بہت ساری آسانیاں پیدا کردی ہیں وہیں اس سے اردو صحافت کا معیار کافی متاثر ہوا ہے۔ ’مال کی پیکنگ تو اچھی ہے لیکن مال اچھا نہیں ہے۔‘آج استادی اور شاگردی کا رشتہ ختم ہوگیا ہے، نئے صحافیوں کے لئے سیکھنے کا عمل متاثر ہوگیا ہے۔ انہوں نے نئے صحافیوں کو صحافت کی جدید ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی عملی تربیت دینے پرزور دیا۔دریں اثنا انڈیا اسلامک کلچر سینٹر کے صدر سراج الدین قریشی نے یو این آئی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ادارہ صحافیوں کی تربیت کے لئے مرکز قائم کرنے پر غور کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم جلد ہی اس سلسلے میں ماہرین کی ایک میٹنگ کریں گے جس کے بعد ایک کمیٹی بنائی جائے گی جو انڈیا اسلامک کلچر سینٹر میں اردو صحافیوں کی تربیت کا کورس شروع کرنے کی تفصیلات طے کرے گا۔انہوں نے بتایا کہ ان کے ادارہ میں پہلے سے ہی اردو سکھانے کا پروگرام چل رہا ہے جس میں غیر مسلم حضرات کافی دلچسپی لے رہے ہیں۔اس موقع پر سینئر صحافی سراج نقوی، محمد احمد کاظمی،چوتھی دنیا کے ایڈیٹر اے یو آصف‘ نیشنل الائنس آف جرنلسٹس کے سکریٹری ڈبلیو چندر کانت، فاروق ارگلی‘ سنتوش کمار‘ بدرالدین خان اور ودود ساجد نے بھی اظہار خیال کیا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا