’’مولانا نور عالم خلیل امینی بحیثیت انشاء پرداز ‘‘

0
139

 

 

 

ریسرچ اسکالر امیتاز احمد نایک
شعبۂ عربی برکت اللہ یونیورسٹی ، بھوپال

 

مولانا نور عالم خلیل امینی ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں وہ ایک بلند پایہ عالم دین، صاحب طرز انشاپرداز، عظیم مصنف اور مایہ ناز صحافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مولانا کو تحریر وکتابت کا خاص ملکہ عطاء کیا ہے، عربی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھنے پر ان کو یکساں قدرت حاصل ہے، ہندوپاک کے مؤقر جرائد ومیگزین الداعی، الرائد، البعث الاسلامی، ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند ، تعمیرحیات اور دیگر میگزین میں بھی ان کے مقالات شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اور علمی ادبی وفکری حلقوں میں ان کی پذیرائی ہوتی ہے ۔ مولانا کی اردو بہت شستہ ، شگفتہ، سلیس اور رواں ہے، اس میں بے ساختگی وسہل پسندی کے ساتھ ساتھ تاثر تخیل اور جذبۂ دروں کی آمیزش بھی ہے۔ انہوں نے اردو میں بے شمار مضامین لکھے ہیں اور ابھی بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔ مولانا کی بہت سی تصنیفات عربی واردو میں شائع ہوکر بر صغیر ہندوپاک کے علاوہ عرب دنیا میں بھی ان کی نیک نامی کا سبب بن چکی ہیں، اور مولانا کو بین الاقوامی شہرت کے حامل ادیب کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ مولانا فن خطاطی میں بھی یکتائے روز گار ہیں۔ خاص طورپر خط رقعہ میں انہیں کمال حاصل ہے، فن خطاطی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ایک ایسی صلاحیت وملکہ کانام ہے، جو سب کو نہیں ملا کرتا ہے، رسائل وجرائد میں مولانا کی تحریروں اور مولانا کی کتابوں کا مطالعہ کرنے والا ایک ایک جملے پر مولانا کے پائے کا ادیب ہونے کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگا، مولانا کی تحریروں میں جو ندرت ، کشش، وجاذبیت ہے وہ بہت کم لوگوں کے حصہ میں آتی ہے ، مولانا کی کتاب ’’وہ کوہ کن کی بات‘‘ جب پہلی مرتبہ منظر عام پر آئی تو ہندوستان اور بیرون ہند کے اخبارات ورسائل کے ساتھ ساتھ اساطین ادب اور اقلیم سخن کے بادشاہوں نے بھی آپ کی انشاء پردازی کا کئی کئی صفحات میں اعتراف کیا۔
چنانچہ بر صغیر کی عظیم عصری درسگاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر جناب سید حامد کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’فاضل مصنف دارالعلوم دیوبند میں عربی ادب پڑھاتے ہیں، لیکن ان کا پیرایۂ بیان فارسی ادب کے اثرات کی غمازی کرتا ہے، دعا ہے کہ زورقلم میں اضافہ ہو،محسوس ہوتا ہے کہ فاضل مصنف نے اپنے اسلوب نگارش کو مولانا ابوالکلام آزادؒ کے طرزپر ڈھالا ہے، فارسی اور اردو ادب سے ان کا شغف ہر سطر سے جھلکتا ہے‘‘ (وہ کوہ کن کی بات ص 361)۔
قاضی اطہر مبارک پوری لکھتے ہیں:
’’کتاب اس قدر دلچسپ اور مؤثر انداز میں لکھی گئی ہے کہ ملتے ہی ہاتھ میں آئی تو ختم کرکے ہی رکھا، اس میں نہ انشائیہ ہے نہ سوانحی خاکہ اور نہ سوانح عمری، بلکہ اس میں مختصر ہونے کے باوجود سب کچھ ہے‘‘ (حوالہ سابق 360)۔
معروف نقاد پروفیسر ابوالکلام قاسمی نے لکھا ہے:
’’آپ کی کتاب نے مجھے متاثر ہی نہیں مرعوب کیا ہے‘‘ (حوالہ سابق ص 369) ۔
اردو عربی کے شہرت یافتہ ادیب ڈاکٹر شمس تبریز پروفسیر لکھنو یونیورسٹی اپنے تاثراتی مضمون میں لکھتے ہیں:
’’کتاب اپنے ظاہری ومعنوی خوبیوں کے لحاظ سے عروس جمیل درلباس حریر کی مصداق ہے۔ میں مدیر ’’الداعی‘‘ کی عربیت کا تو قائل تھاہی، ماشاء اللہ اردو بھی بہت رواں دواں اورشستہ وشگفتہ ہے ‘‘(حوالہ سابق ص 363-362)۔
ڈاکٹر محمد ظہیرا لحق پروفیسر علی گڑھ مسلم یونیوسٹی اپنے تاثرات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:
’ ’موضوع کے ساتھ نام ہی اس کا کچھ ایسا منفرد ہے جو پڑھنے کا شوق پیدا کردے ‘‘(حوالہ سابق ص 371)۔
معروف مؤرخ مولانا اسیر ادروی ایڈیٹر ترجمان الاسلام بنارس نے کتاب پر اپنے تاثرات کا اظہار اس طرح کیا ہے:
’’مولانا مرحوم (وحید الزماں کیرانوی) کے انداز تعلیم وتربیت کی اچھی عکاسی کی گئی ہے ، ان کے طریقۂ تدریس جس نے بہت جلد طلبہ میں ذہنی وفکری انقلاب برپا کردیا اس کی بہترین منظر کشی کی گئی ہے کہ سارا منظر نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے جو خوب صورت بھی ہے اور دل کش بھی ۔ کہیں کہیں بالکل شاعرانہ انداز ہوگیا ہے ، جس کی وجہ سے ادبی ذوق رکھنے والوں کے لیے کتاب میں دلکشی بڑھ گئی ہے‘‘ (حوالہ سابق 368)۔
رکن پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل قاسمی لکھتے ہیں:
’’ مولانا موصوف کا اسلوب نگارش نہایت دلچسپ پیرایۂ بیان شستہ وشگفتہ اور جملوں کی نشست وبرخاست، تذکرہ نگاری کی دنیااور ہمارے عربی مدارس کے ماحول میں ٹکسالی اردو زبان وادب کا اچھا نمونہ ہے‘‘(حوالہ سابق 362)۔
اردو کے صاحب طرز ادیب مولانا رضوان قاسمی انداز نگارش کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’ آپ نے اپنی کتاب میں اپنے پرتاثیر قلم کا جادو کچھ اس طرح جگایا کہ کتاب کے اوراق میں مولانا (وحیدالزماں کیرانوی) ہمیشہ چلتے پھرتے نظر آئیں گے، ان کو دیکھنے والے اور نہ دیکھنے والے دونوں یکساں طور پر ان کے اس نقل وحرکت اور آمد ورفت سے لطف اندوزاور مستفید ہوتے رہیںگے‘‘ (حوالہ سابق ص 365)۔
احوال وآثار کے ایڈیٹر مولانا نورالحسن راشد کا ندھلوی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’معلومات ، مشاہدات ، تاثر ومحبت اور خراج تحسین کا ایک ایسا ملا جلا مجموعہ ہے جس میں سوانح وتذکرہ کا لطف بھی ہے، محبت کی چاشنی بھی ہے، عقیدت کی تراوش بھی ہے اور ادب وانشاء کی حلاوت بھی‘‘ (حوالہ سابق ص 370)۔
دارالعلوم ندوۃا لعلماء لکھنؤ کے استاذ اور اردو زبان کے درجنوں کتاب کے مؤلف ومصنف مولانا برہان الدین سنبھلی اپنے تاثراتی مضمون میں الفاظ کے حسن انتخاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ بیانِ مطلب کے لیے آپ کے سامنے الفاظ کے ذخیرے اور تمثیلات وکنایات کے دفاتر لگتا ہے کہ ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ جب تک اس کنارے سے دوسرے کنارے تک سیر نہ کرلی، بے تابی ختم نہیں ہوئی، اس سے دیوبندیوں کی پاکیزگی ٔ ذوق کا بھی ثبوت ملتا ہے، آپ کے قلمی شاہکار کو دیکھنے والے کے لیے یہ فیصلہ کرنا یقیناً مشکل ہوگا کہ آپ عربی زیادہ اچھی لکھتے ہیں یا اردو ‘‘ (حوالہ سابق 364)۔
مجلہ الحق اکوڑہ خٹک پاکستان نے اپنے تبصراتی صفحہ پر لکھا ہے:
’’ کتاب کے نام سے کتاب کی اہمیت اور اچھوتے پن کا پتہ چلتا ہے،آپ کا طرز نگارش انتہائی خوب صورت ہے، اشعار کا بر محل وبرموقع استعمال ، نکتہ آفرینی وادبی نکات کی چاشنی نے کتاب کی ثقاہت میں چار چاند لگادیا ہے‘‘ (شمارہ 5-4جلد 32شوال سنہ 1413؁ہجری)۔
ماہنامہ طلسماتی دنیا نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ:
’’ زبان میں حالی کی سادگی ، نذیر کی برجستگی ، اور علامہ شبلی کی ایجاز بیانی کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ جوان کے اعلیٰ درجے کے ادبی شعور اور مختصر انداز میں بات کہنے کی ہنر کی غماز ہے‘‘ (ماہنا مہ طلسماتی دنیا نومبر ، دسمبر 1995ئ؁)۔
معروف کا لم نگار شمیم طارق نے لکھا کہ:
’’ اس کو پڑھنے سے ایک اور خوبی کا اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت مولانانے مولانا نور عالم خلیل امینی جیسے شاگرد بھی چھوڑے ہیں‘‘ (ہفت روزہ بلیئنز 30ستمبر1995ء ؁) ۔
ہفت روزہ نقیب نے تحریر کیا ہے:
’’ یہ اشک پائے غم ہیں جو ان کی آنکھوں سے ٹپکے ہیں اور آنسوئوں کے وہ قطرے ہیں جن کو انہوں نے اپنے دامن میں سمیٹنے کی بجائے صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا ہے‘‘(نقیب شمارہ 31جلد 9)۔
ہفت روزہ راشڑیہ سہارانے اپنے تبصراتی مضمون میں اس خیال کا اظہار کیا ہے :
’’ کتاب کی زبان وبیان میں ادب کی چاشنی اور فکر واحساس کی روشنی جابجا بکھری ہوئی ہے‘‘ (ہفت روزہ راشڑیہ سہارا نئی دہلی 11تا 17ستمبر 1995ئ؁)
مولانا نور عالم خلیل امینی کی شخصیت مرنجان مرنج ہے، وہ صاحب طرز ادیب ، مایہ ناز مصنف، مردم گرمربی اور باکمال صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم انسان بھی ہیں، شرافت ونجابت کا پیکر، حلم وبردباری کے پاسبان ، محبت ومودت کے پاسدار، عزم واستقلال کے خوگر، سخنور، خوش طبع اورژرف نگاہ ہیں، اپنے تلامذہ اور شاگردوں سے ان کی محبت قابل تعریف اور قابل تقلید ہے، اللہ تعالیٰ مولانا کو صحت وتندرستی سے نوازے اور ان کے سایہ کو ہم پراور ملت اسلامیہ پر تادیر قائم رکھے ۔ آمین

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا