مشکوک

0
87

ایم۔یونس ؔ، کمرہٹی(کولکاتا)

ایک ہندوستانی نوجوان اپنی فیملی کے ساتھ امریکہ میں کئی سالوں سے ایک سافٹ وائر کمپنی Software Company)میں آفیسر کے عہدہ پر فائز تھا۔بیچاری ماں اپنے وطن عزیز کو چھوڑ کر بیٹے کے ساتھ جا نہ سکی ۔ اس لئے کہ اس کا خاوند اسی مٹی میں مدفون تھا۔ایک دن اس نوجوان نے اپنے ایک انڈین دوست کو واٹس اپ کے ذریعہ کال کیا۔ اس نے اپنے دوست کی خیریت دریافت کی ۔ دوران گفتگو اس نے کہا’’ یار عادل! کیا بتائوں میں مہینوں سے سوچ رہا تھا کہ تمہیں فون کروں مجھے وقت نہیں مل رہا تھا، بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ اس درمیان میری ماں کا انتقال ہو گیا، میں تمہیں مطلع نہ کر سکا، امید تھی کہ میری اطلاع پر تم میری ماں کے جنازہ میں ضرور شریک ہوتے، تمہیں خبر نہ دے کر آج مجھے بہت ندامت ہو رہی ہے‘‘۔ اپنے اس امریکن نوجوان دوست کے فون کا جواب دیتے ہوئے عادل نے کہا۔’’ بھائی وسیم!تم اپنے عمل میں غافل رہے مگر اکرم نے تمہاری والدہ کا انتقال پُر ملال کی اطلاع بذریعہ فون مجھے ساتھ ساتھ دیدیا تھا، میں آج کل کانکی نارہ میں اپنی ملازمت کی وجہ سے رہائش پذیرہوں، اس روح فرسا خبر کو سنتے ہی میں اپنے اسکول سے چھٹی لے کر تمہاری والدہ کے جنازہ میں شریک ہوا، وہاں میں نے دیکھا، اکرم نے تمہارے سبھی رشتہ داروں اور عزیزوں کو تمہارے توسط سے مطلع کر دیا تھا، جنازہ کو غسل دینے کے لئے مدنی ادارہ کی خاتون موجود تھیں، انہوں نے ہی غسل دیا اور کفنایا بھی، اکرم نے مجھے بتایا کہ تمہارے والد کے احرام کی چادر تمہاری والدہ نے اپنے کفن کے اوپر ڈالنے کے لئے رکھا تھا،وہ چادر انکے کفن کے اوپر ڈال دی گئی، میری اہلیہ بھی اس سوگواری میں شریک تھی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ تمہاری والدہ کے کفنانے کا سارا منظر خواتین کی مجلس سے ویڈیو کے ذریعہ تمہاری بیگم کو دکھلایا گیا تھا، اکرم نے شاندار قسم کے پھول کے چادر اور گلدستہ بھی بازار سے منگوائے تھے، مدفن ہونے کے بعد اس کی قبر پر یہ پھول کی چادر بچھا دی گئی، اس کاروائی کے فوٹوگرافس بھی تم نے دیکھا ہی ہوگا!، تمہاری والدہ کی قبر تمہارے والد کے بازو میں تیار کی گئی تھی، اس دن موسم بہت خراب تھا، بارش ہو رہی تھی، اکرم نے تمہاری ماں کی قبر پر شامیانہ بھی لگوا دیا تھا، چلو میرے نصیب میں تمہاری والدہ کے جنازہ میں شریک ہونا لکھا تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ رحمت مجھ پر عطا فرمائی، تم حاضر نہیں تھے مگر تمہاری غیر موجودگی میں ہم دونوں نے اپنی ماں کی طرح تمہاری والدہ کو سپرد خاک کر دیا، اچھا اب کہو، تم نے مجھے کس لئے یاد کیا ہے!؟‘‘ـ’’ارے یار! میں نے اکرم پر بہت بھروسہ کیا تھا مگر اس نے میرے یقین کو ٹھیس پہنچائی ہے ، آج کا انسان قابل اعتماد نہ رہا‘‘۔ وسیم نے کچھ روکھے پن سے عادل کو اپنے دل کی بات کہی۔ عادل نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے وسیم سے پوچھا’’ اتنی نیک اور اہم ذمہ داری کو نبھانے کے باوجود آخر اکرم سے کون سی ایسی خطا ہو گئی ہے جس سے تمہارا اعتبار اس پر سے اٹھا جا رہا ہے!؟،میں جہاں تک جانتا ہوں اکرم شروع سے نیک اور ایماندار رہا ہے، اس نے کبھی کسی کو دھوکا نہیں دیا، نہ ہی کسی کے ساتھ بے روکھی سے پیش آیا، نہ کبھی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلایا ہے، پھرکیا وجہ ہے ؟اس کے خلاف، تمہارے دل میں شک و شبہ پیدا ہو رہے ہیں‘‘۔ ’’عادل! یقین کرو میں سچ کہہ رہا ہوں، میری والدہ کی موت کی خبر مجھے جیسے ہی ملی، میں ان کی تجہیز و تکفین کے لئے ایک خطیر رقم اکرم کے اکائونٹ میں ساتھ ساتھ ٹرانسفر کر دیا تھا جس میں کفن دفن کے علاوہ امی جان کے ایصال و ثواب کے ساتھ صدقہ جاریہ کی رقم بھی مختص تھی، اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میری ہدایت کے مطابق بقیہ پیسے مطلوبہ مد میں خرچ کر دے گا، میں نے باقی رقم کو تیجا کے دن فاتحہ کے بعد تمام مدرسوں و مسجدوں میں صدقہ جاریہ دینے کیلئے کہا تھا، یہ میری بد نصیبی کہہ لو کہ میں نے ضرورت سے زیادہ اس پر بھروسہ کر لیا تھا، اچانک فاتحہ خوانی کے دن کے قبل ہی سے اکرم کا موبائیل فون بند ہے، میں نے بار باراسے فون کیا، اس سے اب تک کوئی رابطہ نہیں ہو سکا ہے، مہینوں گزر گئے، معلوم نہیں اس نے میری والدہ کے ایصال و ثواب کے لئے مذکورہ رقم مدرسوں و مسجدوں میں دیا ہے کہ نہیں!! مجھے تو اکرم پر اب بالکل بھروسہ نہیں رہا‘‘۔ وسیم نے عادل کو سارے حالات کی آگہی دیتے ہوئے کہا’’ نہیں وسیم! اکرم ایسا نہیں ہے کہ جو اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھاجائے! یہ سچ ہے کہ وہ ان دنوں اپنا موبائیل فون بند کر رکھاہے ۔ جن دنوں تمہاری والدہ کا انتقال ہوا، اس کے دوسرے دن اکرم کی ماں کی طبیعت اچانک بگڑ گئی، تم اچھی طرح جانتے ہو کہ وہ ہماری طرح بر سر روزگار نہیں ہے، ادھوری تعلیم کی وجہ سے اسے معقول ملازمت نہیں مل سکی، پرائیوٹ کمپنی میں کام کرتا تھا، کام کے دبائو سے وہ بہت عاجز رہتا تھا، کمپنی سے تنخواہ بھی وقت پر نہیں ملتی تھی، پریشان ہو کر اس نے ملازمت چھوڑدی، کچھ دنوں سے و ہ سبزی فروشی کا معمولی دھندا کر رہا تھا ،اس تجارت کی ساری پونجی ماں کے علاج میں خرچ ہو گئی، اس کے پاس ایک کوڑی بھی نہیں بچی ہوئی تھی، ان پریشانیوں میں جب اس کا روزگار بند ہو گیا، مجبوراً اس نے تمہاری امانت کو اپنی ماں کے علاج پر خرچ کر ڈالا، پھر بھی اس کی بیمار ماں صحت یاب نہ ہو سکی، آخر وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئی، اس دست تہی میں ، میں نے بھی اس کی کچھ مدد کی تھی، پھر بھی وہ مقروض ہو چکا تھا، وہ تمہاری رقم خرچ کر کے بہت شرمندہ ہے، بیشک وہ گناہ گار ہے، تمہارا قرض دار ہے، اس نے مجھ سے کہا ہے کہ وہ جلدہی دوبارہ اپنی سبزی بیچنے کا کاروبار شروع کرنے والا ہے، امید ہے تھوڑے ہی دنوں میں حالت سدھر تے ہی وہ تمہاری رقم واپس لوٹا دے گا،
وسیم ! میں تمہیں کیا بتائوں ، تم ایک با شعور اور با علم انسان ہو، دنیا میں کچھ نیکیوں کا رشتہ با قیات الصالحات سے ہوتا ہے جس کو ہماری دنیاوی طمع و زر سے گھیری ہوئی آنکھیں دیکھ نہیں پاتی ہیں، اکرم تمہارے ان عزیزوں میں سے ہے جس نے تمہاری والدہ کے جنازہ کو کاندھا سے کاندھا دیا ، آخری آرام گاہ تک پہنچایا اس نے تمام لازم و ملزوم حق بھی ادا کئے مگر وہ چند لمحوں میں الزام اور بدنامی کے طوق سے اس بنا پر مغلظ ہو گیا کہ اس نے اپنے دوست کی والدہ کی تجہیز و تکفین سے بچی ہوئی رقم کو بلا اجازت اپنی مالی بے سہارگی کے عالم میں اپنی ماں کے علاج و تدفین میں خرچ کر ڈالا، کیا سچ مچ اکرم اپنے عمل کی میزان پر گناہ گار تھا یا پھر۔۔۔۔۔؟؟ ‘‘ یہ کہتے ہوئے عادل کا دل روہانسی سا ہو گیا۔ اس نے اپنا موبائیل سوئچ آف کر دیا۔
9903651585

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا