* اللہ تنگ دستی کے عذاب سے بچاۓ*

0
286

 

فکر و قلم: مشتاق نوری ٹھاکر گنجوی

قرآن و حدیث اور احوال و اقوال بزرگاں پڑھنے سے پتا چلتا ہے کہ دولت اپنے آپ میں کوئی بری شے نہیں ہے۔اور نہ فقر کوئی روحانی مدارج میں سے ہے۔عثمان جیسی مالداری نعمت ہے۔مفلوک الحالی و تنگ دستی ایک عذاب جیسا احساس ہے۔یہی وجہ ہے کہ احادیث میں بارہا وسعت رزق و خود کفالت کی دعائیں مانگنے کے سلیقے بتاۓ گیے ہیں۔بارہا اس کی تلقین کی گئی ہے۔جہاں حلال و طیب رزق کی ترغیب دی گئی ہے وہیں رزق واسع کا بھی سبق بڑے موثر پیراۓ میں دہرایا گیا ہے۔آپ ﷺ نے مختلف مواقع پر مختلف دعائیں کیں، تنگ دستی سے استعاذہ پڑھا ہے۔یہاں تقریب ذہن کے لیے چند مختصر دعائیں درج کر رہے ہیں۔

"اللھم انی اعوذبک من الفقر والقلۃ والذلۃ واعوذبک ان اظلم او اُظلم”
"الھم ابسط علینا من برکاتک و فضلک و رحمتک و رزقک”
"الھم انی اسئلک غنائی و غناء مولای”
"الھم انی ضعیف فقونی،و انی ذلیل فاعزنی، و انی فقیر فاغننی”
ایسی کتنی دعائیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہیں۔ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ اگر اہل ایمان کا خدا پر یقین کمزور ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو انہیں کفار و مشرکین سے اور بھی کم رزق دیا جاتا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فقر و تنگ دستی کوئی خیر کا باعث نہیں ہے۔یہ ایمان کے نچلے درجے والے کے لیے ارتداد کا سبب بھی بنا ہے۔ابھی کچھ سال پہلے بلند شہر میں جو ڈھائی سو سے زائد لوگ "گھر واپسی” پروگرام کے تحت اسلام چھوڑ کر ہندو دھرم میں چلے گئے تھے اس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ یہ تنگ دستی و غربت ہی تھی۔

یہ سچ ہے کہ پیسہ سب کچھ نہیں ہے مگر زندگی جینے کے لیے بہت کچھ ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ آدمی کو فارغ البال اور خوش حال ہونا بہت ضروری ہے۔مبلغین و دعاۃ کو اور زیادہ فارغ البال ہونا چاہیے تاکہ دین کا کام کھلے ذہنوں کے ساتھ کیا جا سکے۔آپ یقین جانیں مذہب کے مخلص مبلغین و دعاۃ کا مستطیع و خود کفیل ہونا سماج کے لیے نیک فال ہے۔اس سے سماج کی وابستہ امیدیں بر آنے کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔

آج کے اس فریب کار دنیا میں جہاں قدم قدم پر حرص و طمع کا راج ہے وہاں رشتے بھی پیسوں کی بیساکھی کے سہارے ہی آگے بڑھتے ہیں۔جاہ و منصب کی چاہ اور نام و نمود کی طلب نے خون کے رشتے کی اہمیت بھی گھٹا دی ہے۔ایک غریب بھائی سے دوسرا پیسے والا بھائی اپنا تعلق بحال رکھنا ضروری نہیں سمجھتا۔ اپنے بھی اس سے رشتہ ظاہر کرنے سے کتراتے ہیں۔اور دولت مند سے دور والے پراۓ بھی رشتہ جوڑنے اور سمجھانے لگتے ہیں۔اس خود غرض و مطلبی سماج کی یہی سچائی ہے۔تجربات شاہد ہیں کہ مشکل وقتوں میں رشتے ناطے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔تب کوئی جذبات کام نہیں آتے۔کام صرف پیسے ہی آتے ہیں۔

دو سال قبل اہلیہ محترمہ کو درد زہ میں پاس کے سرکاری ہاسپیٹل میں داخل کرایا گیا۔صحت سے کافی کمزور تھی میں نے جاتے ہی لیڈی ڈاکٹرز اور نرسیز سے کھل کر بات کی کہ اگر آپ میری پیشنٹ کا بہتر خیال رکھتی ہیں، سیزر کی نوبت نہیں آتی تو بطور انعام و نذرانہ اتنے ہی پیسے میں آپ لوگوں کو دے دوں گا۔پھر کیا تھا چار پانچ خاتون مستعدی سے لگ گئیں۔ہم لوگ دن کے دس بجے ہاسپیٹل پہنچے تھے۔خدا خدا کرکے شام سات بجے وضع حمل ہوا۔پیسے نے پرائویٹ ہاسپیٹل سے زیادہ اچھا کام کروا لیا۔اس رات ہمیں ہاسپیٹل میں ہی رکنا پڑا۔صبح ڈسچارج سے قبل میں نے ۱۵ ہزار روپے ان سب میں بانٹ دیئے۔
دوسری طرف اسی بڑے کمرے میں تین اور صحت مند مگر مزدور کلاس خواتین درد زہ سے رات بھر چیختی چلاتی رہیں۔ان کے ساتھ کوئی مرد بھی نہیں تھا۔مگر کسی نے کان نہیں دھرا۔میں نے کئی نرسیز سے کہا بھی کہ ذرا ادھر بھی دھیان دیں پر کوئی فائدہ نہیں۔صبح دو عورت کو مرے بچے پیدا ہوۓ۔ایک ماں کے لیے یہ کتنا بڑا ستم رساں لمحہ ہوگا کہ نو ماہ تک تکلیفیں جھیلنے کے بعد جب خوشی کے پل آنے تھے تو خود غرض سسٹم نے وہ بھی چھین لیے۔صرف پیسے کی کمی نے ان کے بچے پیٹ میں ہی مروا دییے۔اسپتال میں قتل فی الجنین کا یہ روح فرساں منطر ہم نے قریب سے دیکھا۔آخر ان عورتوں پر کیا بیتی ہوگی۔ان تلخ مشاہدے و تجربے کے بعد بات دو دو چار کی طرح کلیئر ہے کہ دنیا میں سارا کھیل پیسوں کا ہی ہے۔دنیا اتنی بے درد ہے کہ کسی کے شدید درد سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
زندگی کی اٹھا پٹک اور اتھل پتھل سے انسان کافی تجربے حاصل کر لیتا ہے۔لاک ڈاون کی مار نے تو انسان کو بہت سے ایسے اسباق سکھا دیئے ہیں۔آۓ دن کے اتار چڑھاؤ سے تجربات کا دائرہ وسیع ہوگیا ہوگا۔مشاہدات نے انسانی افکار ہی بدل دیے ہوں گے۔پیسوں نے رشتوں پر خاصہ اثر ڈالا ہوگا۔اب جو تعلقات و روابط بنیں گے الگ خطوط پر بنیں گے۔اب رشتہ داری و دوست داری نبھانے کے پیمانے بھی کافی حد تک بدل گیے ہوں گے۔

مجھے اکثر میری ماں کہا کرتی تھیں کہ بیٹا پیسوں کی قدر کرنا سیکھو۔پیسے بچانا سیکھو۔تب ایسی باتیں بالکل بے کار اور بے دم لگتی تھیں۔مگر مجھے پہلی بار پیسے کی تنگی کا احساس تب ہوا جب کورونا مہا ماری کے سبب طویل وقفے تک گھر پہ بے روزگار بیٹھنا پڑا۔اور ضرورتوں کی فہرست روز فزوں ہوتی رہی۔اوپر سے ڈاکٹر و معالج کا چکر الگ سے ستم ایجاد کرتا گیا۔یعنی بےچاری "آمدنی” ظل الہی کا مکمل پہرہ تھا بلکہ اس کے سارے ممکنہ وسائل و ذرائع منقطع کر دییے گیے تھے۔اور "رفتنی” تو منہ چڑھا کر سج دھج کے روز سامنے سے نکل جاتی تھی۔
یہ باتیں آج اس لیے لکھ رہا ہوں کہ میری طرح کافی ایسے لوگ ہو سکتے ہیں جو بیس، پچاس ،سو کی کوئی اہمیت نہیں سمجھتے ہوں گے۔احباب و اقربا پر خرچ کرنا برکت کی بات ہے۔مگر فضول اور غیر ضروری جگہ پہ خرچ کرنا تنگی کو مدعو کرنا ہے۔بسا اوقات سماج نے اچھے اچھوں کو وہی بیس ،پچاس کے لالے پڑتے دیکھے ہیں۔تنگ دستی کسی عذاب سے کم نہیں اور یہ عذاب کبھی بھی کہیں بھی کسی پر بھی آسکتا ہے۔
کل بعد عصر میں بازار چوک پر گیا تو وہاں اپنے ایک مقتدی کو دیکھا جو زمین پر ایک پرانا چھوٹا کپڑا بچھا کر پانچ چھے لوکی (کدو) فروخت کرنے کے لیے بیٹھا تھا۔لگ بھگ دو گھنٹے کے وقفے میں ان کی لوکیاں بکیں۔میں نے پوچھ لیا کہ کیسے بیچے؟ تو ہاتھ کا پنجہ دکھاتے ہوئے کہا کہ پانچ پانچ روپے پر بک گئیں۔مطلب چھ لوکی صرف تیس روپے کی۔اس کے لیے دو گھنٹے کپڑا بچھا کر بیٹھنا پڑا سو الگ۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ لوکی والا آدمی کوئی غریب بھی نہیں ہے۔اس کے پاس تقریبا دس بیگھہ سے زیادہ کاشت کی زمین ہے۔مگر ابھی حالات ایسے بنے ہیں کہ گھر خرچ کے لیے پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے۔نہ جیب میں نہ گھر میں۔ایسے میں ایک گھر پریوار والے کے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا چارہ کار نہیں رہتا۔اسی شخص نے کوئی تین چار روز قبل مجھ سے ہزار روپے ادھار مانگے تھے۔میں نے حامی بھی بھری تھی۔جس بیس تیس روپے کو ہم آپ بہت ہلکے میں لیتے ہیں سماج کے ایک طبقے کے لیے وہی بہت معنی رکھتے ہیں۔

ایک دفعہ دور طالب علمی میں تعطیل کلاں کے موقعے سے میں بنارس سے گھر لوٹنے کے لیے اسٹیشن پر پہنچا۔مطلوبہ ٹرین کے ٹکٹ کے لیے قطار بند ہوگیا۔بڑی طویل لائن تھی۔شدت کی گرمی اس پر مستزاد۔آخر اتنا جھیل کر کاؤنٹر تک پہنچ تو گیا۔مگر متعلقہ اسٹیشن کے لیے میرے پاس محض ایک روپیہ کم ہونے کے سبب مجھے ٹکٹ نہیں ملا۔لائن سے بے لائن کر دیا گیا۔اس وقت کچھ سمجھ میں بھی نہیں آرہا تھا کہ کوئی حیلہ ڈھونڈ لیا جاۓ۔اور خودداری ایسی کہ کسی اجنبی سے مانگ بھی نہیں سکتے تھے۔اسی ادھیڑبن میں راستہ نکل آیا۔ایک دیوبندی طالب علم جو ہم عمر تھا وہ بھی ٹکٹ کے لیے دوسری لائن میں لگا ہوا تھا۔اس نے مجھے پاس بلا کر ایک روپیہ دیا۔میں نے دل سے اس کا شکریہ ادا کیا۔اور ٹکٹ لے کر آگے بڑھ گیا۔

اس دیوبندی طالب علم کا ایک روپیہ میرے لیے کسی بڑی امداد سے کم نہیں تھا۔ہم دونوں ایک دوسرے سے بالکل انجان تھے۔ایک حساس اور باشعور سخص ہی اس کی اہمیت سمجھتا ہوگا۔چند پیسے اور چند روپے کی اہمیت کو کچھ لوگوں نے خوب سمجھا ہے۔امریکہ کے بلگیٹس (Bill Gates) کا نام تو آپ نے سنا ہی ہوگا جو مائکروسافٹ کمپنی کا چیف ہے۔جو غالبا ۲۰۰۵ میں دنیا کا سب سے بڑا دولت مند شمار کیا گیا تھا۔آج بھی ٹاپ پانچ میں بنا ہوا ہے۔ان کا ایک فلاحی و خیراتی ادارہ ہے نام ہے Bill And Milinda Gates Foundation.مصدقہ معلومات کے مطابق انہوں نے اپنی دولت کے دو حصے کیے۔ایک حصے کو پاس رکھا اور دوسرے کو مسیحی اداروں،کلیساؤں اور دیگر چھوٹے چھوٹے ممالک کو خیرات کر دیا۔میڈیا سے کسی نے پوچھا کہ سر کیا آپ سے بھی بڑا کوئی دانی ہے؟ جواب تھا ہاں ہے۔پھر انہوں نے اپنی کہانی بتائی کہ کالج کے دنوں میں وہ بہت تنگ دستی کا شکار رہا۔کالج جانے کے لیے گاڑی کا منتظر رہتا تھا۔اخبار پڑھنے کا بڑا شوقین تھا۔مگر جیب میں اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے کہ اخبار خرید سکیں۔لیکن ایک بچہ جو بس اسٹاپ پر اخبار بیچنے آتا تھا وہ میری مجبوری سمجھ کر اکثر مجھے مفت میں دے جاتا تھا۔بل گیٹس کہتے ہیں کہ وہ اخبار فروش بچہ مجھ سے بھی بڑا دانی سخی ہے وہ اتنی کم بچت کے باوجود مجھے اخبار مفت میں دے دیا کرتا تھا۔اگر آج میں نے اتنی زیادہ دولت کما کر ایک حصہ دان کیا ہے تو اس بچے کے دیے گئے ایک اخبار کے سامنے کم ہی ہے۔بات جاری رکھتے ہوۓ انہوں نے کہا کہ آج میرے پاس اتنی زیادہ دولت ہے تب دان کر رہا ہوں اور اس بچے کے پاس کچھ نہیں تھا تب بھی دان کر رہا تھا۔غریبی میں بھی ان کے اندر دان کا جذبہ بیدار تھا۔(بلگیٹس کا یہ انٹرویو میں نے ہندوستان اخبار میں پڑھا تھا، تاریخ ذہن سے محو ہے)

آج کل بنک کاری نظام کی جدید کاری زوروں پر ہے۔اور ڈیجیٹلائزڈ لین دین کافی سیٹ ہو چکی ہے۔بینکوں نے اپنے صارفین کو Saving Account متعارف کروایا ہوا ہے۔جہاں آپ کی بچت محفوظ رکھے جانے کا انتظام ہے۔مگر یہ سوال باقی رہتا ہے کہ سیونگ تو وہی کراۓ گا جو ضروریات پوری کرنے کے بعد بچت کر پاۓ گا۔جس کی کمائی اچھی ہوتی ہوگی۔وہ شخص کیا سیونگ کے متعلق سوچے گا جس کی اپنی چھوٹی چھوٹی اور لازمی ضرورتیں پوری نہیں ہو پاتیں۔اس لیے سماج کے خود کفیل طبقے کو کبھی کبھار ایسے لوگوں کی مدد کرکے سماج سازی اور دینی اخوت کا ثبوت دینا چاہیے۔کبھی کسی کو بیس تیس روپے دے کر امداد کر دینا اس پر بڑا احسان کرنے جیسا ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا