حیاتِ شیخ ابراہیم مخدوم جی ملتانیؒ اہل سلاسل کے لیے نمونۂ عمل

0
80

۰۰۰
ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
۰۰۰
شمالی ہندوستان کی جغرافیائی فتوحات مسلمان بادشاہوں کی جنگی مہمات کی رہین منت رہی ہے اسی لیے ہندوستان کے شمالی علاقے ہمیشہ سے سیاسی رساکشیوں اور رقابتوں کا شکار رہے ہیں جبکہ جنوبی ہندوستان کے بیشتر علاقوںکو اللہ کے مقرب اور پاکیزہ ہستیوں نے اپنے علم و عمل اور کردار و روحانی تعلیمات سے فتح کیا جن کی حکمرانی نہ صرف عوام الناس بلکہ بادشاہوں کے قلوب پر جاری تھی۔ ان بزرگان دین کی تعلیمات نے مسلمانوں کی سیاسی، سماجی، علمی، فکری، ثقافتی ، تہذیبی، مذہبی اور روحانی زندگی کو متاثر کیا اور غیر مسلموں کے باطن کو اپنے زہد و دین داری، تقوی و بلند نگاہی، سوز بصیرت و حق شناسی سے منور فرماکر ان کے اذہان و قلوب کو بھی مسخر کیا۔ ان صلحاء امت کی انسانیت نواز تعلیمات کا ہی فیضان تھا کہ قرون وسطی میں جنوبی ہندوستان کے قدیم و دلکش علاقہ دکن میں نہ صرف مسلمانوں کی پہلی و عظیم حکومت یعنی بہمنی سلطنت (749-1048/1348-1638) کا قیام عمل میں آیا بلکہ اسلامی تہذیب و ثقافت کو پروان چڑھنے کا بھرپور موقع بھی ملا ۔825/1422 میں جب بہمنی سلطنت کا پایہ تخت گلبرگہ سے بیدر منتقل ہوا تب حکمرانوں نے اپنی رعایا کی تعلیم و تربیت اور رشد و ہدایت کے لیے ایران، بغداد، نجف، مہان اور ملتان سے صوفیائے کرام بالخصوص سلسلہ قادریہ سے تعلق رکھنے والے بزرگان دین کو بیدر شریف آنے اور یہاں قیام پذیر ہونے کی دعوت دی۔ بیدر کے ممتاز و معروف قادری صوفیائے کرام جن کے آستانے آج بھی مرجع خلائق ہیں ان میں قطب الاقطاب حضرت شیخ ابو الفتح شاہ محمد شمس الدین القادری الملتانیؒ المعروف حضرت ملتانی بادشاہؒ (862-935/1457-1528)کی بارگاہ سرفہرست ہے۔آپؒ کے آباء و اجداد کا تعلق ملتان سے تھا۔ کہا جاتا ہے کہ بہمنی سلطنت میں محمد نامی دو شخصیات کافی مشہور ہوئیں ایک گلبرگہ شریف کے حضرت سید محمد الحسینی گیسودراز بندہ نوازؒ (721-825/1321-1422) اور دوسری شخصیت بیدر شریف کی حضرت شیخ ابو الفتح شاہ محمد شمس الدین القادری الملتانیؒ ۔جن صوفیائے کرام نے ساکنان شہر بیدر کے دلوں میں ایمان کی قندیلیں روشن رکھیں اور اپنے علم و عرفان سے ان کے کردار کو سنوارا ان باصفا ہستیوں میں حضرت ملتانی بادشاہؒ کا خانوادہ بالخصوص آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت شیخ شاہ ابراہیم مخدوم جی القادری الملتانیؒ(المتوفی 970/1562)کا شمار ہوتا ہے۔ حضرت ملتانی بادشاہ ؒکو پانچ صاحبزادگان (i) حضرت شیخ شاہ ابراہیم مخدوم جی القادری الملتانیؒ، (ii) حضرت شیخ اسماعیل قطب جلیل قادری ؒ، (iii) حضرت شیخ اسحاقؒ ، (iv) حضرت شیخ بدر الدینؒ قادری، اور (v) حضرت شیخ فخر الدین قادریؒ تھے۔ حضرت ملتانی بادشاہ ؒکی ہدایت کے مطابق آپ کے بڑے فرزند صاحب تصوف حضرت شیخ شاہ ابراہیم مخدوم جی القادری الملتانیؒ روحانی جانشین مقرر ہوئے۔ آپؒ نے اپنے تبحر علمی اور صفائے باطن سے نہ صرف بیدر شریف بلکہ اطراف و اکناف کے علاقوں میں رہنے اور بسنے والے عقیدتمندوں کو بھی بہرہ ور فرمایا۔ آپؒ نے کدورت، کثافت اور آلودگیوں سے متاثر لوگوں کے اخلاق و کردار کو اپنی روحانی ریاضت سے سنوارنے اور انہیں ہر قسم کے عیوب سے محفوظ فرمانے کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔ حضرت سید شاہ غلام علی قادری الموسویؒ اور محمد عبدالجبار خان ملکاپوری نے بالتربیت مشکوٰۃٖ النبوت اور محبوب ذی المنن تذکرہ اولیائے دکن میں یہ واقع درج کیا ہے کہ آپ کے عہد میں بہمنی سلطنت کے عدلیہ و مذہبی امور کے نگران کار (جسے صدرجہاں کہا جاتا تھا )، انتہائی اثر و رسوخ اور شیعہ طبقہ سے تعلق رکھنے والی شخصیت شاہ جی کو سنی صوفیائے کرام سے سخت نفرت تھی جب شاہ جی نے حضرت ابراہیم مخدوم جی القادری الملتانیؒ کے کشف و کرامات کے بارے میں سنا تو کہا کہ اگر یہ واقعی اللہ کے سچے ولی ہیں تو جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوںگا تو اس وقت آپؒ حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہ الکریم کے فضائل بیان کررہے ہوں گے۔ جب وہ اس ارادہ کے ساتھ آپؒ کی خانقاہ پر پہنچے تو ان کی حیرت کی انتہاء نہ رہی چونکہ اس وقت حضرت ابراہیم مخدوم جی القادری الملتانیؒ حضرت سیدنا علی ابن ابی طالبؓ کے فضائل بیان فرمارہے تھے جسے دیکھ کر صدرجہاں کافی شرمندہ و پشیماں ہوئے اور آپ سے معذرت چاہی۔ حضرت شیخ شاہ ابراہیم مخدوم جی القادری الملتانیؒ عابد و زاہد، بلند ہمت بزرگ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ امراء اور دولت مند طبقات پر زیادہ توجہ نہیں دیتے تھے۔ چونکہ آپؒ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کہ تزکیۂ نفس، تصفیۂ قلب اور تجلیٔ روح کی نعمت اسی شخص کو حاصل ہوسکتی ہے جس کا دل دنیاوی مال و متاع، جاہ و منصب سے پاک اور غیراللہ کی محبت سے خالی ہو۔ روایت میں آتا ہے کہ قطب شاہی حکمراں، ابراہیم قطب شاہ (924-988/1518-1580) نے آپؒ سے باریابی کی اجازت چاہی لیکن آپؒ نے صاف منع فرمادیا۔ یہ استغنا آپ کے والد گرامی کی تربیت کا نتیجہ تھا جیسا کہ اس روایت سے مترشح ہورہا ہے حضرت شیخ شاہ محمد شمس الدین القادری الملتانیؒ کی اولاد تین دن کی بھوک سے بلبلارہی تھی لیکن اس کے باوجود آپؒ نے اس کھانے کو ہاتھ لگانا بھی گوارا نہ کیا جو حکمرانوں کی طرف سے آپؒ کی خانقاہ کو بھیجا گیا تھا۔ جب تک خانقاہوں سے وابستہ لوگ اس حقیقت کو جانتے اور مانتے رہے اس وقت تک خانقاہیں آباد تھیں لیکن جب سے خانقاہوں سے وابستہ افراد مصلحت کے نام پر صاحب ثروت اور اہل اقتدار کے نور نظر بننے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کرنے لگے اور ان کے ساتھ تصویر کشی پر فخر و ناز کرنے لگے تب سے خانقاہی نظام تباہ و تاراج اور خانقاہیں تقریباً ویران ہوگئیں۔ جہاں اب ریاضات و مجاہدات پر رسومات اور خرافات کا غلبہ ہوچکا ہے۔ حقیقی درویش تو وہ ہوتا ہے جس کی صحبت میں ایک لمحہ بھی میسر آجائے تو اہل ثروت اور شاہان وقت اسے اپنی زندگی کا نقطہ عروج سمجھتے ہیں۔یہ بات ہمیں اچھی طرح ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ کوئی بھی شخص اس وقت تک اللہ کا ولی نہیں بن سکتا ہے جب تک کہ اس کی روح بشریت کی تاریکی و تیرگی اور نفسانی خواہشات سے پاک اور وہ دنیا و ما فیھا سے زیادہ محبت الٰہی کو اپنے لیے عزیز ترین سرمایہ نہ سمجھے۔ چنانچہ روایت میں مذکور ہے کہ ایک دفعہ سرور کائناتؐ نے اپنے نامور صحابی یعنی حضرت سیدنا حارثہؓ سے دریافت کیا کہ آپ کی صبح کیسے ہوئی، حضرت سیدنا حارثہؓ نے جواباً فرمایا ایک سچے مومن کی طرح۔ رحمت عالمؐ نے ارشاد فرمایا اے حارثہؓ اپنی بات پر غور کرو کیا کہہ رہے ہو چونکہ ہر چیز کے لیے ایک حقیقت ہوتی ہے۔ اب بتا کہ تیرے ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ حضرت سیدنا حارثہؓ نے جواب دیا یا رسول اللہؐ میں نے اپنے نفس کو دنیا سے علاحدہ کرلیا، میں اس سے دور ہوچکا ہوں اس لیے پتھر، مٹی، سونا، چاندی میرے نزدیک یکساں ہیں۔ ایمان کی اسی حقیقت کا عملی مظاہرہ آپ کو حضرت شیخ شاہ ابراہیم مخدوم جی القادری الملتانیؒ کے اس جواب میں نظر آتا ہے جو آپؒ نے اس دور کے حکمراں کو دیا تھا۔ شرف باریابی کی اجازت سے محروم سلطان ابراہیم قطب شاہ نے حضرت شیخ شاہ ابراہیم مخدوم جی القادری الملتانیؒ سے درخواست کی کہ کم از کم آپؒ اپنے نعلین ہی مجھے بھیج دیں۔ آپؒ نے جواب میں لکھا ’’صوفیوں کی دعائوں کو حاصل کرنا دنیاداروں کا مقصد ہے لیکن میں ہمیشہ ساری امت مسلمہ کی بھلائی کے لیے دعا کرتا ہوں جس کے تم بھی ایک رکن ہو‘‘۔ صاحب اخبار الاخیار لکھتے ہیں کہ آپؒ ضعیف العمری اور پیرانہ سالی کے باوجود راتوں میں قیام فرماتے اور دن میں روزہ رکھتے۔ شیخ ابراہیم مخدوم جی قادریؒ کی شادی گلبرگہ کے جنیدی خاندان میں ہوئی وہ چھ ماہ گلبرگہ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ اور چھ ماہ اپنے والد کی صحبت میں بیدر میں گزارتے۔ آپؒ صاحب تصنیف بزرگ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ قیام گلبرگہ کے دوران وہ تصوف اور سلوک کے موضوع پر کتابیں تصنیف کرتے اور بیدر واپسی کے بعد اپنے والد گرامی کی خدمت میں بغرض تصحیح پیش فرماتے ۔ آپؒ کی بیشتر تصانیف ناپید ہیں ۔البتہ دو کے نام ملتے ہیں (1) مقاصد القادریہ اور رسالہ سلوک۔سلوک کے موضوع پر آپؒ کا مختصر لیکن گراں قدر رسالہ ’مقاصد القادریہ‘ اورینٹل مینوسکرپٹ لائبریری حیدرآباد میں آج بھی محفوظ ہے۔ مقاصد القادریہ کا اُردو ترجمہ جناب محمد ماجد علی القادری الملتانیؒ نے کیا ہے جس میں سات رسالے ہیں اس کتاب میں ماہیت و تعریف ارادت و مرید، مراد، تقوی، ورع، زہد، مراقبہ، ذکر، روح ، کفر ، جوہر ، اخلاص، صلوۃ، نماز، نقش سورۃ الاخلاص، مناجات حضرت خواجہ عبداللہ انصاریؒ، آیتِ شفا، اسمائے حسنی کے فوائد، رویت باری تعالی، نسخہ برائے دفع خارش، دفع دنبل، ادویہ خارش، عقائد اہل سنت والجماعت،صفات و افعال حق تعالیٰ، قضاء و قدر، افعال حسنہ و افعال قبیحہ، حسن و قبح شرعی، تکلیف مالا یطاق، حلال و حرام، کسب رزق، ملائکہ، آسمانی کتب، رسول و نبی میں فرق، عصمت انبیاء و مرسلین، معراج شریف، موت، سوال منکر و نکیر،آخرت، سعادت و شقاوت، انسانی اعضاء کی گواہی، حوض کوثر، پل صراط، محاسبہ، جنت و دوزخ، ثواب و عذاب،گناہ کبیرہ و صغیرہ، مغفرت،خطرات، توبہ، شفاعتِ انبیاء علمائ، شہدا،ایمان، تقلید، ایمان و اسلام میں فرق، ایمان میں کمی و زیادتی، کہانت، کرامت، ولایت، خلافت راشدہ، امام کے شرائط، عشرہ مبشرہ، استہزاء شریعت، مایوسی، علاماتِ قیامت، تواریخ و تذکرات بزرگان دین، کلماتِ حضرت مخدوم جی قدس سرہ العزیز برائے طالبان حق جیسے عناوین پر اہم اور مستند معلومات ملتی ہیں علاوہ ازیں اس کتاب میں وصیت نامہ حضرت شاہ شمس الدین ملتانی بادشاہ قدس سرہ العزیزکا ذکر بھی ملتا ہے۔ رسالہ سلوک میں حضرت ابراہیم مخدوم جی قادری ؒ نے تصوف کے مختلف موضوعات بشمول ذکر، توبہ، تزکیہ نفس کو بیان فرمایا ہے۔تصنیف و تالیف کے علاوہ آپؒ نے مکمل قرآن مجید کو اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا ہے۔ آج کل بیشتر خانقاہوں میں علمی تحقیقات و انکشافات سے زیادہ سماع کی محفل کے انعقاد پر زیادہ توجہات مرکوز کی جارہی ہیں یقینا یہ حاضرین محفل کے لیے روحانی سکون کا سبب ہوسکتا ہے لیکن جب خانقاہوں بالخصوص سلسلہ عالیہ قادریہ ملتانیہ سے تعلق رکھنی والی شخصیات حضرت شیخ شاہ ابراہیم مخدوم جی القادری الملتانیؒ کی مطابعت میں تصنیف و تالیف، تحقیق و تدوین کی طرف مائل ہوں گی اور تصوف پر اپنی تخلیقات کو مختلف زبانو ںمیں شائع کروانے کی کوشش کریں گی تو اس سے پوری انسانیت کو فائدہ ہوگا اور جن لوگوں کے ذہن میں تصوف اور اہل تصوف سے متعلق جو شکوک و شبہات ہیں اس کا ازالہ ہوجائے گا ۔ حضرت شیخ شاہ ابراہیم مخدوم جی القادری الملتانیؒ کی زوجہ محترمہ کا تعلق گلبرگہ شریف کے جنیدی خانوادہ یعنی حضرت شیخ سراج الدین جنیدیؒ (680-781/1281-1379)کے خاندان سے تھا۔ اسی لیے آپ چھ ماہ اپنی اہلیہ کے لیے گلبرگہ میں قیام فرماتے اور اپنے والد گرامی کی صحبت سے فیوض و برکات حاصل کرنے کی غرض سے چھ ماہ بیدر شریف میں سکونت اختیار کرتے۔ آپؒ کا یہ عمل ان لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے جو دنیا و آخرت کے معاملات میں توازن برقرار نہیں رکھ پاتے اور بزعم باطل یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لیے دنیا سے کنارہ کش ہونا از حد ضروری ہے اسی لیے وہ دنیاوی مصروفیات و مشغولیات کو معطل کردیتے ہیں اور اپنی مالی ضروریات کی تکمیل کے لیے مریدین و معتقدین پر اکتفا کرتے ہیں اور ان سے نذرانے بٹورتے ہیں جبکہ سلسلہ عالیہ قادریہ ملتانیہ کے اکابر بزرگان دین نے ہمیشہ حکمرانوں اور عوام الناس سے تحفہ و تحائف اور نذرانے قبول کرنے سے سختی کے ساتھ انکار کیا ہے۔جو نذرانے اِن بزرگان دین کی خدمت میں پیش کیے جاتے تھے اسے وہ بغیر کسی تاخیر کے غرباء و مساکین میں تقسیم کروادیتے تھے اور اپنے مریدین، معتقدین اور متوسلین کو بھی اسی عمل کو اختیار کرنے کی نصیحت فرماتے۔ حضرت شیخ شاہ ابراہیم مخدوم جی القادری الملتانیؒ کو چار صاحبزادے یعنی (i) شیخ رفیعؒ، (ii) شیخ حسینؒ، (iii)شیخ مظفرؒ اور (iv) شیخ لطف اللہؒ اور تین صاحبزادیاں تھیں۔ آپؒ 21 شوال المکرم سن 972/1564 میں بعمر 87 سال معبود حقیقی سے جاملے۔آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا