نگینہ منصور ساکھرکر
واشی نوی ممبئی
آج فیس بک واٹس اپ ہو یا شوشل میڈیا کا کوئی بھی ایپ اخباروں کی سرخیاں بھی عائشہ کی معصوم مسکراہٹ ۔،۔۔۔اپنی شوہر کے لیے محبت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے والدین کی بے بسی۔۔۔۔، تو خاوند کی بے رخی کی داستان بیان کر رہی تھی ہر کوئی جہیز کی بھینٹ چڑھتی بیٹیوں کے درد اور سسکتے ماں باپ کا کرب محسوس کر رہا ہے ۔۔۔۔۔عائشہ کی خودکشی نے ان ساری جہیز کی ماری بیٹیوں کی ایک بار پھر کہانی دہرا دی ہے!
کوئی جلا دی گئی! دفنا دی گئی! مار دی گئی ! کسی کا گلا گھونٹ دیا گیا تو کسی کو ریت دیا گیا ۔۔۔۔۔پیٹرول اور گھاسلیٹ کے ڈبے بھی مرتی انسانیت دیکھ کر سہم گئے ہیں مگر ایک ہم ہیں کہ” رسم و رواج کے نام پر تو سسرال کی مانگ پر” جہیز جیسی لعنت کو سرعام خوشی خوشی فروغ دے رہے ہیں
دوسروں کا درد صرف محسوس ہوتا ہے درد تو تب دیتا ہے جب خود پر گزرتی ہے لالچی رشتہ چاہے قریب میں کرو یا دور کا ہو ہمیشہ تکلیف ہی دیتا ہے حال ہی میں۔ میں نے اپنے ایک رشتہ دار کی شادی میں شرکت کی سونا چاندی کے زیورات تو قیمتی کپڑوں اور سامان کا ڈھیر لگا تھا 550 لیٹر کا فریج تو میںگالونژریڈ واشنگ مشین فوڈ پروسیسر سے لے کر جدید طرز کے اسائشی سامان جہیز میں دیے گئے مجھ سے رہا نہیں گیا تو پوچھ لیا کہ آپا اتنا سامان؟! بیٹی تو آپ نے اپنی بہن کے گھر بیہانی ہے تو یہ تام جھام کس لیے ؟ان سے رہا نہیں گیا تو آنسو نکل پڑے بولیں لالچ رشتے داری نہیں دیکھتا اس کی لالچی ساس یعنی میری سگی بہن کا منہ جہیز دے کر بدلے میں اپنی بیٹی کی خوشی خرید رہی ہوں بس!!!!
یہ بس ! جو تھا اس ایک "بس” کے لئے ہرماں باپ اپنا سکھ چین داؤ پر لگاتے ہے گھر بار بھیج دیتا ہے ” بس!” ایک "بس” کی خاطر ہماری بیٹیاں ان لالچی لوگوں کی ظلم کا نشانہ بن رہی ہیں ہماری بیٹیوں کے سر پر موت منڈلاتی ہے "اس جہیز کی بھینٹ چڑھتی انسانیت کا جنازہ اٹھا رہے ہیں ہم۔!” ۔۔۔۔۔۔کیوں کے سب نے رسم بنا دی ہے باپ کی مجبوری کی سودے بازی کی! بیٹی کی خوشی کو خریدنے کی کوشش میں انسانیت مرتی جا رہی ہے اور لالچی بھیڑیےجیت رہے ہیں
کوئی انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے کی سیر اس طرح کرائے کی بیٹی کی خوشی برباد نہ ہو بس!
9769600126