فہیم حیدر ندوی
آ پ کی پیدائش ۹ ؍نومبر ۱۸۸۸ ء کو بر طانوی ہندوستان کے شہر سیالکوٹ میں ہوئی ۔آپ کے والد محترم کا نام
شیخ نور محمد تھا آپ کشمیری برہمن نسل سے تھے اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں آپ کے ایک جد نے اسلام قبول کیا اور آپ کے آباء اجداد اٹھارہوی صدی کے آخر یا انیسوی صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے اور یہیں آباد ہو گئے۔آپ کے والد شیخ نور محمد دیندار آدمی تھے اور دینی تعلیم کو ہی کافی سمجھتے تھے لہذا حسب دستور قر آن شریف سے آپ کی تعلیم کا آغاز ہو ا ‘لگ بھگ ایک سال کے بعد ایک مشہور و معروف عالم دین مولانا سید میر حسن نے آپ کے والد محترم سے ملا قات کر کہا کہ اپنے بیٹے کی تعلیم کو مدرسہ تک محدود نہ رکھیں بلکہ جدید تعلیم بھی بہت ضروری ہے
https://en.wikipedia.org/wiki/Muhammad_Iqbal
اور اپنی خواہش ظاہر کی کہ علامہ اقبال کو آپ کی تر بیت میں دے دیںچنانچہ مولانا سید میر حسن کی تربیت میں آپ کے والد نے دے دیا ‘یہاں آپ نے اردو ‘ فارسی اورعربی ادب پڑھنا شروع کر دیا ‘مولاتا سید میر حسن ان عظیم استادوں میں سے تھے جن کے لئے زندگی کا بس ایک ہی مقصد پڑھنا اور پڑھا نا ہوا کرتی تھی اور یہ پڑھنا پڑھا نا صرف کتاب خوانی نہیں تھی بلکہ اس زمانے میں استاد مرشد ہوا کرتے تھے میر حسن تمام اسلامی علوم سے آگاہ تھے اور علوم جدید پر بھی اچھی پکڑ تھی اس کے علاوہ ادبیات ‘ معقولات ‘لسا نیات اورریاضیات میں بھی مہارت رکھتے تھے شاگردوں کو پڑھاتے وقت ادبی رنگ اختیارکیا کرتے تھے تاکہ علم صرف حافظہ بن کر نہ رہ جائے بلکہ احساس بن جائے۔آپ کی زندگی میں انسانی تعلق کا بہت پاس و لحا ظ تھا ‘آپ حد درجہ شفیق ‘منکسرالمزاج‘قانع‘متین‘سادہ اور خوش طبع شخص تھے فجر کی نماز پڑھنے کے بعد قبر ستان جانا‘دوستوں اور عزیزوں کے قبر پر جاکر فاتحہ پڑھنا آپ کی روٹین میں شامل تھا علامہ اقبال آپ کے عزیز شاگرد تھے اور ڈاکٹر علامہ اقبال بھی خوداپنے ااستاد پر فدا رہتے تھے علامہ اقبال کی شخصیت کی مجموعی تشکیل میںجو عناصر نظر آتے ہیںان میں سے بیشتر آپ کے استاد کی صحبت اور تعلیم کا کرشمہ ہے سید میر حسن سر سید احمد خاں کے قائل تھے اور مسلمانوں کے لئے علی گڑھ تحریک کو مفید سمجھتے تھے اس وجہ سے علامہ اقبال کے دل میں بھی سر سید احمد خاں کی محبت پیدا ہوگئی‘مسلمانوں کی خیر خواہی کی چیز تو علامہ اقبال کے گھر کی چیز تھی مگر میر حسن کی تربیت نے اس جذبے کو ایک علمی اور عملی سمت دی۔علامہ اقبال سمجھ بوجھ اور ذہانت میں اپنے ہم عمر بچوں سے بہت آگے تھے آپ کے اندر انہماک اور استغراق تھا جو بڑے لوگوں کے اندر پایا جا تا ہے آپ کتابی کیڑے نہیں تھے کتاب کی لت پڑ جائے تو انسان محض ایک دماغی وجود بن جاتا ہے زندگی اور اس کے بیچ ایک فاصلہ پیدا ہوجاتا ہے زندگی کے حقائق اور تجر بات صرف دماغ میں منجمد ہو کر رہ جاتے ہیں خون گرم کا حصہ نہیں بنتے ہیںآپ کو کھیل کود بھی پسند تھا بچوں کی طر ح شوخیاں بھی کرتے تھے حاضر جواب بھی بہت تھے اس طر ح قدرت نے آپ کو صوفی باپ اورعالم استاد عطا کیا تھا باپ کے قلبی فیضان نے جن حقائق کو اجما لا محسوس کر وایا تھا استاد کی تعلیم سے تفصیلا معلوم بھی ہو گئے‘سولہ سال کی عمر میں آپ نے میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویزن سے پاس کیا انٹر میڈیٹ میں داخلہ ہوا پڑھائی بھی شروع ہوگئی اور اسی زمانے سے آپ کی شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوا ‘یو ں تو شعروشاعری سے بچپن ہی سے دلچسپی تھی مگر اس وقت سنجیدہ نہیں تھے نہ کسی کو سناتے نہ محفوظ رکھتے بلکہ خود لکھتے اور پھا ڑ کر پھینک دیتے تھے لیکن اب شعر گوئی آپ کے لئے صرف ایک مشغلہ نہیں رہا بلکہ روح کا تقا ضا بن چکی تھی اس وقت داغ پورا بر صغیر داغ کے نام سے گونج رہا تھا خصوصا اردو زبان پر داغ کی معجزانہ گرفت کا معترف ہر کوئی تھا اقبال کو بھی یہی گرفت در کار تھی علامہ اقبال نے داغ کی شاگردی اختیار کر لی مگر یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک نہیں چل سکا‘متحدہ ہندوستان میں اردو شاعری کے جتنے بھی روپ تھے ان میں داغ کا نام سب سے آگے تھا اس وقت تک علامہ اقبال کی امتیازی خصوصیت ظاہر نہیں تھی مگرداغ اپنی بصیرت سے یہ سمجھ گئے تھے کہ اس ہیرے کو تراشا نہیں جا سکتا اور یہ کہہ کر آپ کو فارغ کر دیا کہ اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں کے برابر ہے 1899 ء میں ایم ۔اے کیا اورپورے پنجاب میں اول نمبر سے پا س کیا اس دوران شاعری کا سلسلہ چلتا رہا مگر مشاعروں میں
شر کت نہیں کرتے تھے 1899 ء کی ایک شام کو آپ کے ہم جماعت نے حکیم امین الدین کی محفل میں آپ کو کھینچ کر لے گئے جہاں بڑے بڑے سکہ ہند اساتذہ اور شاگردوں کی جماعت شریک محفل تھی سننے والوں کا بھی ہجوم تھاعلامہ اقبال چونکہ بالکل نئے تھے اس لئے ان کا نام مبتدیوں میں پکا را گیا ‘غزل پڑھنی شروع کی اور جب اس شعر پر پہو نچے کہـ۔۔۔۔۔۔
موتی سمجھ کر چن لئے شان کریمی نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قطرے جو تھے میرے عرق انفعال کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔تو اچھے اچھے استاد اچھل پڑے اور بے اختیار داد دینے لگے‘یہی سے اقبال کو بحیثیت شاعر شہرت ملی اور شہرت کا آغاز ہوا‘اسی زمانے میں انجمن حمایت اسلام سے تعلق پیدا ہوا جو آخر تک قائم رہا‘علامہ اقبال کی شہرت و مقبولیت نے انجمن حمایت اسلام کے بہت سارے کاموں کو آسان کر دیا اور پنجاب کے مسلمانوں میں سماجی سطح پر دینی شعور پیدا ہونا شروع ہوگیا جن میں علامہ اقبال کی شاعری نے بنیادی کر دار ادا کیا۔ علامہ اقبال کی شاعری میں مذہبی رواداری پائی جاتی ہے علامہ اقبال کسی ایک مذہب کے شاعر نہیں تھے آپ کی شاعری مذہبی رواداری پر مبنی تھی مذہبی رواداری کا مفہوم یہ ہے کہ تمام مذاہب کے پیرو کار میں باہمی احترام و محبت اور رواداری کا جذبہ ہو آپ کی شاعری سے مذہبی رواداری کا درس ملتا ہے عموما لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ دس مختلف خیالات رکھنے والے آدمیوں کے مختلف اور متضاد خیالات کو درست قرار دینارواداری ہے جبکہ یہ حقیقت میں رواداری نہیں منافقت ہے رواداری کے معنی یہ ہے کہ جن لوگوں کے عقائد یا اعمال ہمارے نزدیک غلط ہیں ان کو ہم بر داشت کریں‘ان کے جذبات کا لحاظ کرکے ان پر ایسی نکتہ چینی نہ کریںجو ان کو رنج پہو نچانے والی ہو اور انہیں ان کے اعتقاد سے پھیرنے یا ان کے عمل سے روکنے کے لئے زبر دستی کا طریقہ اختیار نہ کریں‘اس قسم کا تحمل اور اس طریقے سے لو گوں کے اعتقاد و عمل کی آزادی دینا نہ صرف ایک مستحسن فعل ہے بلکہ مختلف خیال جماعتوں میں امن و سلامتی کو بر قراررکھنے کے لئے ضروری ہے علامہ اقبال کی مقبولیت کی وجہ ان کی شاعری میں مذہبی رواداری کا ہونا ہے آپ کی شاعری وآپ کی فکر اور نصب العین انسانیت ہے آپ ہمیشہ انسانیت اور عالم انسانیت کی تعمیر نو کی بہتر مستقبل کے بارے میں سوچتے تھے آپ ہر مذہب و ملت کے لئے مشعل راہ تھے اس لئے پوری دنیا میں علامہ اقبال کو پڑھا جاتا ہے بیسوی صدی کے آپ مشہور و معروف شاعر ‘مصنف اور سیاستدا ں تھے آ پ کی شخصیت اور شاعری میں مذہبی رواداری کی وجہ سے حکومت کی طرف سے آپ کو سر کا خطاب ملا۔جنوبی ایشیاء کے اردو اور ہندی بولنے والے لوگ محمد اقبال کوشاعر مشرق سے جانتے ہیںعلامہ اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے جو ہمیشہ بر صغیر کے مسلمانوں اور تمام انسانوں کے لئے مشعل راہ بنی رہے گی یہی وجہ ہے کہ اقبال کو دنیا کے ہر حصے ہیں پڑھا جاتا ہے علامہ اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجا گر کیا۔علامہ اقبال کی شاعری کے چند اشعار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری زندگی شمع کی صورت ہوخدا یا میری
زندگی ہو میری پروانے کی صورت یارب علم کی شمع سے ہو مجھ کومحبت یا رب
کون یہ کہتا ہے کہ خدا نظر نہیں آتا وہی تو نظر آتا ہے جب کچھ نظر نہیں آتا
تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی
دل میں خدا کا ہونا لازم ہے اقبال سجدوں میں پڑے رہنے سے جنت نہیں ملتی
نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کے لئے
یہ علم یہ حکمت یہ تد بر یہ حکومت پیتے ہے لہو دیتے ہے تعلیم مسا وات
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
نہیں اللہ کو اس مومن کی پرواہ کہ جس کی روح خوابیدہ ہے ا ب تک
میرا دل کیا لگے مکتب میں ہم دم نہ ہو اک بھی جواں جب تک بیدار
سجدوں سے تیرے کیا ہوا صدیاں گزر گئیں دنیا تیری بدل دے وہ سجدہ تلاش کر
ایمان تیرا لٹ گیا رہزن کے ہاتھوں سے ایمان تیرا بچا لے وہ رہبر تلاش کر
کرے سوار ا ونٹ پہ اپنے غلام کو پیدل ہی خود چلے وہ آقا تلاش کر
سکریٹری
ادارہ ادب اسلامی ہند بتیامغربی چمپارن
بڑی مسجد روڈ ‘دوار دیوی چوک ‘بتیا
https://lazawal.com/?page_id=