‌ضبط (افسانہ)

0
0

تخلیق کار: ڈاکٹر محمد مستمر

‌شاید کم و بیش 25 سال بعد مجھے مدرسے کے احاطے میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ 25 سال پہلے جہاں سے میں نے درجہ پنجم اور عربی واردوکی تعلیم حاصل کی تھی ۔۔۔۔۔جہاں پر بچے چھٹی ہونے تک بلند آواز کے ساتھ قرآنی آیات کا دور کیا کرتے ہیں۔ بچے قرآنی آیات کو یاد کرتے وقت جب ہلتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان پر وجد کی کیفیت طاری ہے ۔۔۔۔۔اور فضا میں تحلیل ہوتی ہوئیں صدائیں کانوں میں ایک الگ ہی قسم کا رس گھولتی ہیں ۔۔۔۔۔یعنی ہلتے ہوئے بچوں کا نظارہ ایک الگ ہی سماں پیدا کرتا ہے۔
‌ آج مدرسے میں پنچایت تھی۔ کمیٹی کے سبھی ممبران کو بلایا گیا تھا۔ میرے بڑے بھائی بھی مدرسے کی کمیٹی کے ممبر ہیں۔ اتفاق سے وہ گھر پر نہیں تھے اور مجبورا مجھے پنچایت میں شرکت کرنی پڑتی ہے۔ میں بھی اتفاق سے گاؤں گیا ہوا تھا۔
‌جیسے ہی میں مدرسے کے احاطے میں داخل ھوتا ھوں۔ مجھے اپنے بچپن کی تمام باتیں رہ رہ کر یاد آنے لگتی ہیں۔۔۔۔ میں سوچنے لگ جاتا ہوں کہ وقت ہے کہ دبے پاؤں نکل جاتا ہے۔۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ ابھی کل ہی کی تو باتیں ہیں جب میں یہاں پڑھنے آیا کرتا تھا۔۔۔۔۔ میں ابھی اسی تانے بانے میں الجھا ہوا تھاکہ ایک صاحب مجھے آگے بڑھنے کا اشارہ کر دیتے ہیں۔۔۔۔ میں چونک سا جاتا ہوں اور آگے بڑھ کر سب کے ساتھ ہال کمرے میں پہنچ جاتا ہوں۔ جہاں سب لوگ درے پر بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔۔۔ فقط ناظم صاحب کے لئے ایک کرسی پڑی ہوئی تھی۔
‌ مجھے کسی طرح کا علم نہیں تھا کہ پنچایت کس بابت کی جارہی ہے۔ بس گھر سے پتہ چلتا ہے کہ مدرسہ کی طرف سے سے بلاوا آیا ہے۔۔۔۔ پنچایت ہے۔۔۔۔ مجھے پتا بھی کیسے چلتا۔۔۔۔؟ گاؤں میں تو رہنا نہیں ہوتا۔۔۔۔ گاؤں چھوڑے ہوئے بھی ایک زمانہ ہو گیا ہے۔۔۔۔ نہ ہی میں کسی دوسرے ممبر سے پوچھ تاچھ کرتا ہوں کہ کس معاملے سے متعلق پنچایت ہو رہی۔۔۔۔یا میٹنگ ہو رہی ہے۔۔۔۔
‌میٹنگ کی کارروائی شروع کی جاتی ہے۔۔۔۔۔ ناظم صاحب کرسی پر جلوہ افروز ہو جاتے ہیں۔ہال میں استاد صاحبان، ممبران اور دیگر حضرات کو ملاکر کم و بیش پچاس افراد ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ آپس میں دو دو، تین تین افراد مل کر کانا پھوسی شروع کردیتے ہیں۔۔۔۔ ایک دوسرے کے کانوں میں کھسر پھسر کرتے رہتے ہیں۔۔۔۔ایک میں ہی اکیلا شخص تھا جو خاموش بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔میں ایک دوسرے کا جائزہ لے رہا تھا۔۔۔۔۔ اور کنکھیوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ ناظم صاحب جیسے ہی کرسی پر جلوہ افروز ہوتے ہیں تو سب سے مئودبانہ درخواست کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ برائے مہربانی سب خاموش ہو جائیے۔۔۔۔ پورے مجمع میں ایک دم سناٹا چھا جاتا ہے۔ سبھی حضرات اپنے اپنے چہرے ناظم صاحب کی طرف موڑ لیتے ہیں۔۔۔۔۔ اور ٹکٹکی باندھ کر اپنی اپنی نظریں ناظم صاحب کی طرف مرکوز کر لیتے ہیں۔
‌ تھوڑی دیر مجمع میں خاموشی چھائی رہتی ہے۔۔۔۔ پھر ناظم صاحب مجمع سے مخاطب ہوتے ہیں۔
‌” السلام علیکم۔۔۔۔!! دیکھئے۔۔۔۔۔!! میرے محترم بھائیو۔۔۔۔۔! اور دوستو ۔۔۔۔!آپ حضرات کو آج یہاں اس لیے بلایا گیا ہے کہ مولانا نجیب الرحمن نے استعفی دے دیا ہے۔ مولانا نجیب الرحمن صاحب کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے مدرسے کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔۔۔۔۔ میں ہی کیا۔۔۔۔۔بچے بھی ان کے پڑھانے کے طریقے سے مانوس ہیں ۔ان کے طریقہ تدریس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔۔۔۔ میں نےکبھی ان کی کسی سے کوئی شکایت نہیں سنی۔۔۔۔۔ بات چاہے ان کی تعلیم کی ہو۔۔۔۔ یا اخلاق کی۔۔۔۔ یا ان کے نظم ونسق کی۔۔۔۔۔ ہر پہلوان کا قابل تعریف ہے ۔۔۔۔”
‌چند ساعت کے لئے ناظم صاحب اپنی بات کو موقوف کر دیتے ہیں۔ مجمع میں مکمل طور پر سکوت طاری ہو جاتا ہے۔ بس درسگاہوں میں سے بچوں کی ہلکی ہلکی شور کی ملی جلی آوازیں آ رہی تھیں۔۔۔۔کوئی کچھ نہیں بولتا ہے۔ ناظم صاحب اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔
‌”مگر نہ جانے کیوں۔۔۔۔۔؟ سمجھ میں نہیں آتا کہ انہوں نے استعفی کیوں دے دیا ہے ۔۔۔۔۔؟
‌ ایک صاحب درمیان میں سوال کرتے ہیں۔
‌ "کیا نجیب صاحب نے استعفیٰ کی وجہ نہیں لکھی۔۔۔۔؟!”
‌ ”وہی بات تو میں بھی کہہ رہاہوں۔۔۔۔” ناظم صاحب کہتے ہیں۔
‌ پھر ذرا ادھرادھر جائزہ لےکر۔۔۔۔۔
‌ "اور آپ لوگوں کو یہاں بلانے کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ جس مدرس کی کارکردگی میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا۔ جس نے سدا اپنی ڈیوٹی اور کام کو بحسن وخوبی انجام دیا ہو۔۔۔۔۔ ہم ایسے مدرس کو کھونا نہیں چاہتے۔ جب تک مولانا وجہ نہیں بتاتے ہم انہیں یہاں سے جانے نہیں دے سکتے۔۔۔۔ کیوں بھائیو ۔۔۔۔۔۔؟!!آپ کا کیا خیال ہے ۔۔۔۔۔؟!”
‌ ”ہاں۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔۔کیوں نہیں۔۔۔۔؟ بغیر وجہ پوچھے ایسے کیسے جانے دیں گے۔۔۔۔۔؟”
‌ مجمع میں سے ایک ساتھ کئی ملی جلی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔
‌” میں بھی یہی چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ اور اسی لئے آپ لوگوں کو یہاں جمع کیا گیا ہے کہ کل کو کوئی یہ نہ کہے۔۔۔۔۔”
‌ ناظم صاحب بات کہتے کہتے جملہ ادھورا چھوڑ دیتے ہیں ۔
‌مجمع میں سے ایک ممبر کھڑے ہو کر کہتا ہے۔
‌ مولانا نجیب الرحمن سے پوچھ لیاجائے۔۔۔۔۔”
‌ "ہاں۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔! ٹھیک بات تو ہے۔۔۔۔” کئی لوگ ایک ساتھ بول پڑتے ہیں۔
‌ مولانا نجیب الرحمن سب سے آگے بالکل خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ نظریں نیچی کئے ہوئے اور گردن جھکائے ہوئے۔۔۔۔۔ جب لوگ ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو میری نظریں ان کے چہرے پر ٹھہر جاتی ہیں ۔کوئی چالیس کے آس پاس عمر ہو گی۔ رنگ گورا۔۔۔۔۔ چہرے پر سیاہ ریش اور اس میں ذقن پر دو چار سفید بال بہت ہی جاذب نظر لگ رہے تھے۔ درمیانہ قد ۔۔۔۔۔ٹھکا ہوا بدن۔۔۔۔۔لبیں ترشی ہوئیں۔۔۔۔ آنکھوں پر چھوٹے گلاس کا چشمہ لگا ہوا۔۔۔۔۔ سراپا نورانی مجسم۔
‌ مولانا نجیب الرحمن کو سب کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ کم و بیش پچاس آدمیوں کی نگاہیں ان کے چہرے پر مرکوز ہوجاتی ہیں۔۔۔۔کچھ دیر وہ خاموش کھڑے رہتے ہیں۔ ۔۔۔مجمع میں تجسس بڑھتا جاتا ہے۔۔۔۔۔ایسا لگ رہا تھاکہ جلد ہی حقیقت سے پردہ وا ہونے والا ہے۔۔۔۔۔۔ مولانا کے منہ سے کچھ نہیں نکلتا۔۔۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کی زبان گنگ کر دی گئی ہو۔۔۔۔۔۔یا زبان کو لقوہ مار گیا ہو۔
‌آپ بولتے کیوں نہیں ۔۔۔۔۔؟مولانا۔۔۔۔۔!”ناظم صاحب کہتے ہیں۔
‌ ہاں۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ آپ بولتے کیوں نہیں۔۔۔۔۔؟!استعفی کی وجہ کیوں نہیں بتاتے۔۔۔۔۔؟” ایک ساتھ کئی ممبر گویا ہوتے ہیں۔
‌ "آپ سب لوگ خاموش ہو جائیے ۔۔۔۔۔۔” ناظم صاحب مجمع کو چپ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
‌ جی مولانا اگر آپ کو ہماری یا مدرسے کے کسی فرد کی طرف سے کوئی تکلیف ہے تو بتائیے ۔۔۔۔۔ اگر کسی نے آپ کو کوئی اونچی نیچی بات کہی ہے تو بتائیے۔۔۔۔۔!”
‌مولانا پھر بھی خاموش رہتے ہیں۔
‌ "آپ کچھ بولتے کیوں نہیں۔۔۔۔۔؟آخر استعفی کی وجہ کیا ہے۔۔۔۔۔؟”
‌ اب کی مرتبہ ناظم صاحب زور دے کر سوال کرتے ہیں۔
‌” اگر آپ استعفے کی وجہ نہ جانیں تو بہتر ہی ہوگا۔”
‌ مولانا مختصر سا جواب دے کر پھر خاموش ہو جاتے ہیں۔
‌” آخر اس میں حرج ہی کیا ہے۔۔۔۔۔؟!”
‌ "میں اس بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہوں گا۔۔۔۔”
‌” تو پھر ہم آپ کو ایسے جانے نہیں دیں گے۔”
‌ ناظم صاحب مولانا پر اپنا حق جتانے کی کوشش کرتے ہیں۔
‌” بس میں اب یہاں نہیں رہ سکتا ہوں۔۔۔۔۔”
‌” یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی۔۔۔۔۔ وجہ بھی نہیں بتاتے۔۔۔۔۔ رہنا بھی نہیں چاہتے۔۔۔۔۔ آخر ہم سے کوئی غلطی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔ میں نے تو سب لوگوں کو اس لیے بلایا ہے کہ کل کو کوئی یہ نہ کہے کہ ناظم صاحب نے اتنا اچھا مدرس اپنے ذاتی مفاد کی وجہ سے نکال دیا ہوگا۔”
‌” خدارا آپ اس بات کو آگے مت بڑھائیے۔۔۔۔۔!!”
‌ سبھی لوگ ایک زبان ہو جاتے ہیں۔
‌” نہیں۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔۔ یہ بھی کوئی بات ہے۔۔۔۔۔۔ ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔ آپ کو استعفی کا جواب پیش کرنا ہی ہوگا۔۔۔۔ مولانا کو وجہ بتانی ہی ہوگی۔۔۔۔۔”
‌ مولانا اب بے بس ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔وہ دبی زبان میں اپنی بات شروع کرتے ہیں۔
‌” میں جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا۔۔۔۔۔کیونکہ جہاں تک ہوسکا ہے آج تک میں نے سچ ہی بولنے کی کوشش کی ہے۔۔۔۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ میری درسگاہ میں شعیب نام کا جو بچہ ہے، ناظم صاحب بھی جانتے ہیں۔۔۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ نے اسے بہت ہی حسین وجمیل بنایا ہے۔۔۔۔۔۔۔جس کی عمر دس بارہ برس کے درمیان ہے۔۔۔۔۔ میں دو برسوں سے اسے مسلسل دیکھ رہا ہوں ۔۔۔۔۔میں جب بھی اسے دیکھتا ہوں میرے اندر کا شیطان جاگ جاتا ہے۔۔۔۔۔ میں ہر روز نہ جانے کتنی مرتبہ اپنے نفس کا خون کرتا ہوں۔۔۔۔۔ کس طرح اپنے اوپر ضبط کر پاتا ہوں، یہ میں ہی جانتا ہوں۔۔۔۔۔ اس سے پہلے مجھ سے کوئی گناہ سرزد ہو۔۔۔۔۔۔ میں لغزش پا ہوئوں۔۔۔۔۔ میرے لئے یہی بہتر ہے کہ میں یہاں سے چلا ہی جاؤں۔۔۔۔۔۔”
‌ اتنا سننا تھا کہ پورے مجمع میں سکوت طاری ہو جاتا ہے اور سب ایک دوسرے کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر حونقوں کی طرح دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔
‌ میں دیکھتا ہوں کے مولانا کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اور بدن میں ارتعاش پیدا ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔۔اور وہ خاموشی کے ساتھ نیچے بیٹھ جاتے ہیں۔
‌ختم شدہ
Attachments area

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا