جمہوریت اورآئین کو بچانے کی لڑائی

0
0

 

حنیف ترین

 

جو گِر کے اُٹھتے ہیں اُن کا ہارنا مشکل
جو سر سے باندھیں کفن، اُن کا مارنا مشکل

شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کے خلاف عوامی احتجاج بڑھتا جارہاہے،مگراس احتجاج کوفرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش ہورہی ہے۔اس کی ابتدا وزارت داخلہ نے یہ بیان دے کرکی تھی کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پلنے والے یہ جہادی ملک دشمن ہیں۔ تبھی تو ہرطرح کا بلوہ،تشدد، آگ زنی، پبلک اورسرکاری پراپرٹی کو برباد کرنے میں لگے ہیں مگر جیسے جیسے جامعہ کی ویڈیوز وائرل ہوئیں اور احتجاج پورے ملک میں پھیلا، تب حکومت اسے قوت کے بل پرکچلنے کیلئے اُٹھ کھڑی ہوگئی۔ بی جے پی کی اقتداروالی ریاستوںمیں ظلم وجبر کا وہ ننگاناچ ہواجس کی مثال پچھلے 70سالوں میں ملنی مشکل ہے۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ کابیان کہ جتنی پبلک اورسرکاری املاک بربادہوئی ہے، وہ ان ہی لوگوں سے وصول کی جائے گی جو احتجاج میں شامل تھے اوریوپی پولیس کا بے دریغ لاٹھی چارج، اورآنسوگیس کے علاوہ گولیوں کااستعمال،جس میں 26لوگوں کی موت اور ہزاروں لوگوں کا زخمی ہونا، ہزاروں لوگوں کو جیل بھیج دیا جانا اورصرف مرادآباد میں ساڑھے 10 ہزار لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کیاجانا،بہت سے لوگوں پرنیاترمیمی ایکٹ (ایس پی اے)کا لگایاجانا فرقہ پرستی اورتعصب کاجیتاجاگتانمونہ ہے۔
یہ ایک شہر کی بات نہیں ہے بلکہ ان تمام اضلاع کی بات ہے جہاں احتجاج ہوئے تھے۔ خصوصاًمسلم بستیوں میں جمعہ کے دن ہر مسجد کے سامنے ہی نہیں بلکہ گلی کوچوں میں بھی پولیس کی ڈیوٹی لگائی گئی جسے دیکھ کرایسالگتا ہے جیسے سرکار نے ریاست کے اقلیتی بستیوں کو’پولیس اسٹیٹ‘ بنادیاہو۔ احتجاجی مظاہروں کی شروعات اگرچہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اورعلی گڑھ مسلم یورنیورسٹی سے ہوئی ،مگراس میںجواہرلال نہرو یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی سمیت ہندوستان وبیرون ملک کی121یونیورسٹی کے طلبہ اس مہم کے ساتھ کھڑے دکھائی دئیے اور اہم بات یہ بھی ہے کہ ہرمذہب کے طلبہ نے ان احتجاجی مظاہروںمیںاپنی شمولیت درج کرائی۔ کچھ طلبہ نے توصدرجمہوریہ سے یونیورسٹی کے کنووکیشن میں ڈگری وسرٹیفکیٹس لینے تک سے انکارکردیاکیوں کہ انہوںنے ہی ’شہریت ترمیمی بل‘ پردستخط کیے تھے۔ کلکتہ یونیورسٹی کے کنووکیشن میں وہاں کے گورنر کو طلبہ نے شریک نہیں ہونے دیا اور احتجاج کرتے ہوئے ان کی کارکوچاروں طرف سے گھیر لیا۔ جیسے جیسے لوگوں کی سمجھ میں آرہاہے کہ یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ آئین اور جمہوریت کی بقا کا مسئلہ ہے، لوگ ان مظاہروں میں اپنی حصہ داری بڑھارہے ہیں۔انہیں یہ لگتا ہے کہ تبدیل شدہ صورتحال میں ہماری گنگاجمنی تہذیب ،رواداری، محبت اوراکثریتی واقلیتی طبقے کے درمیان پچھلے ہزارسالوں میں جو میل محبت بنی ہے، وہ سب ختم ہوجائے گی۔ احتجاج میں حصہ لینے والوں کا عمومی تاثر یہ بھی ہے کہ موجودہ حکومت فرقہ پرستی اورتعصب پھیلاکراورمسلمانوں کو وطن دشمن بتاکر صرف اکثریتوں کے ووٹ لیناچاہتی ہے۔
بی جے پی نے اناہزارے کی تحریک اور کانگریس کے خلاف عائد ٹوجی اسپیکٹرم گھوٹالے کے جھوٹے الزام کے سہارے عام انتخابات جیتاتھا۔یہ الگ بات ہے کہ ٹوجی معاملہ میں عائد الزامات کو عدلیہ نے پوری طرح سے غلط ثابت کردیا۔جبکہ2019کے انتخابات میں پاکستان پرحملہ اورپلوامہ اٹیک کا بدلہ لینے کے نعرے کے بیچ لڑاگیااور دیش پریم کے نعروں کی بدولت بی جے پی نے فتح حاصل کی تھی۔ 2019کی جیت کے بعدتو بی جے پی کیسے اپنے اصل رنگ میں نظر آنے لگی،یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔اس نے پہلے مسلم عورتوں کے ساتھ ہمدردی کے نام پرتین طلاق کابل پاس کیا، پھر ہندوستان کی واحدمسلم اکثریتی ریاست کشمیرکے خصوصی اختیارکوختم کیااورپھراسی درمیان بابری مسجدجیسے حساس کیس میںعدالت عظمیٰ کارام مندر کے حق میں فیصلہ آیامگران سب کے باوجودمسلمانوںکا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیااورلوگوںنے نہایت صبروسکون کے ساتھ اس کو قبول کرلیالیکن اب جب سرکارنئے قانون کے ذریعہ مسلمانوںکودونمبر کاشہری بنا دینا چاہتی ہے تو مسلمان بیدارہوئے اور انہوںنے اپنے غصے کااظہارکیا۔
یہی وجہ ہے کہ پورے ملک میں احتجاج کاسلسلہ جاری ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیںکہ حکومت شہریت ترمیمی بل نہایت ہڑبڑاہٹ میں لے کر آئی، اسے یہ بالکل بھی اندازہ نہیں تھاکہ اس قانون کے خلاف اکثریتی طبقہ کی جانب سے بھی آواز اٹھے گی۔ اس کے خواب وخیال میں بھی یہ نہیں تھا کہ اکثریتی طبقہ اس طرح سڑکوں پر اُتر کر احتجاج درج کرائے گا۔
دراصل لوگ خاموش صرف اس لیے تھے کہ حکومت نے اب تک آئین کے ساتھ چھیڑچھاڑ نہیں کی تھی لیکن شہریت ترمیمی بل پاس ہونے کے بعداکثریتی طبقے کا پڑھا لکھا،سمجھ دار، دانشور طبقہ بیدار ہوا اور لوگ دیکھتے ہی دیکھتے طلبہ اوراقلیتوں کے ساتھ سڑکوں پر کھڑے نظر آنے لگ گئے ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت ڈرگئی اوراسی خوف کے سبب وہ اس قانون کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے پر آمادہ دکھائی دینے لگی۔ بدلتے ماحول کو دیکھتے ہوئے حکومت نے احتجاج کو روکنے کی کوشش کرنے کے ساتھ ہی ساتھ عوام کو اپنی بات سمجھانے کیلئے پارٹی فورم کے ذریعہ ریلیوں کا سلسلہ بھی شروع کردیاوراعلان کیاگیاہے کہ پارٹی ورکر تین کروڑ لوگوں کے پاس جاکر انھیں اس بل کے حق میں لائیں گے۔ مگرافسوس صرف اس بات کاہے کہ ان ریلیوں میں سبھی نعرے مسلمانوں کے خلاف لگائے جارہے ہیں،کچھ نعرے تو نہایت قابل اعتراض اور ناقابل برداشت ہیں۔ کیا آپ نے نہیںدیکھا کہ لکھنؤ میں پرینکاگاندھی کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کیاگیا؟ میرٹھ کے ایس پی ہندوستانی مسلمانوں کو کس طرح پاکستان جانے کے لیے کہتے نظرآئے جنہیںیہ بھی کہتے سناگیا کہ ’کھاتے یہاں کاہو اورگاتے پاکستان کاہو‘۔ اورجب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوںنے بھی حکومت کے لوگوںکی طرح سفیدجھوٹ کاسہارا لیااور بغیر کسی ثبوت کے یہ شوشہ چھوڑدیا کہ وہاں لوگ ’پاکستان زندہ باد‘کے نعرے لگارہے تھے۔
اس وقت ملک کے تقریباً سارے آئینی اداروں نے حکومت کی ماتحتی قبول کرلی ہے۔وہاں پرکام کرنے والے لوگوں کواپنے پالے میںکرنے کی عجیب عجیب انداز سے کوشش ہورہی ہے۔حدتوجب ہوگئی، جب سابق آرمی چیف بپن راوت نے فوجی سربراہ کے عہدہ پر رہتے ہوئے ایک تقریب میں یہ بیان دیا کہ ’وہ لیڈرنہیںہیں جو غلط سمت میں لوگوں کی رہنمائی کریں۔ جیسا کہ ہم کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کوبڑی تعداد میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ عوامی مجمع کو شہروں میں آتش زنی اورتشدد کیلئے بھڑکا رہے ہیں، یہ لیڈرشپ نہیں ہے‘۔ مگر انھوں نے اس ترمیمی بل کا نام نہیں لیا، مگران کااشارہ اسی بل کے خلاف اٹھنے والی طلبہ کی تحریک ہی تھی۔ فوج کے جنرل کا اس طرح کا بیان اپنے اندر کئی معنی لیے ہوئے ہے اور یہ ایک خاص فکر کاغماز بھی ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہ بیان نہایت متنازعہ ہے جس کی مخالفت دور دور تک سنائی دیتی ہے۔پھرآرایس ایس چیف کایہ بیان کہ ہندوستان میں رہنے والے 130 کروڑ لوگ ہندو ہیں،انتہائی قابل اعتراض ہے ،جوملک کو ’ہندو راشٹر‘بنانے کے آر ایس ایس کے عزم کو بہ اندازِ دیگر پتہ دیتا ہے۔
حکومت یہ نہیں سمجھ پا رہی کہ آج اس کمپیوٹر ایج میں دنیا ایک گاؤں میں تبدیل ہوچکی ہے۔ وہ یہ بھی نہیں دیکھ پارہی ہے کہ اس کے خلاف اب توپوری دنیا میں احتجاج ہورہے ہیں۔ اسرائیل جیسے ملک میں بھی ہندوستانی طلبہ نے مظاہرہ کیاہے۔ بنگلہ دیش نے تو ہم سے اپنے بنگلہ دیشیوں کی لسٹ تک مانگ لی ہے۔ مختصر یہ کہ اس وقت اپنے ملک کے آئین کو بچانے ،جمہوریت کی بقا اور عزت واحترام کے ہمراہ اپنے وجود کوبچانے کایہ وقت آیاہے۔ لہٰذا اس کالے قانون کو مکمل طورپرہٹائے جانے تک ہمیں یہ لڑائی اپنے ہندو،سکھ، عیسائی اور باقی بھائیوں کے ساتھ مل کر لڑنے کی ضرورت ہے:
ستونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
چلو ستم کی جہاں تک سیاہ رات چلے

 

 

¡¡
Dr. Hanif Tarin
صدر’مرکزعالمی اردومجلس‘بٹلہ ہاؤس،جامعہ نگر،نئی دہلی25-
# : 9971730422
tarinhanif@gmail.com

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا