ڈاکٹر مرضیہ عارف( بھوپال)
٭ اردو ہندوستان میں مشترکہ تہذیب کی علامت اور سرتیج بہادر سپرو کے بقول ’’ہندو اور مسلمانوں کا ناقابل تقسیم ترکہ ہے‘‘ جبکہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کا خیال ہے کہ ’’اس زبان کی تنظیم وتربیت میں اگر ہندوئوں کی شرکت نہ ہوتی تو یہ کبھی وجود میں نہ آتی‘‘، یہ بڑے سچے اور حقیقی خیالات ہیں جن کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ اردو جس خطہ ارض کی پیداوار ہے وہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے، رنگا رنگ معاشرت، لین دین اور رسومات کے حامل لوگ بستے ہیں ، جنہوں نے اپنے پیغام،خیالات اور تعلیمات کیلئے اس زبان کو وسیلہ اظہار بنایا۔ بزرگان دین کے ملفوظات ہوں یا قرآن وحدیث کے تراجم اور تفاسیر، شعراء اور ادیبوں کا تخلیقی سرمایہ ہو یا سماجی ومعاشرتی مسائل پر ان کی اخلاقی تحریریں، مذہبی ہستیوں کی سوانح عمریاں ہوں یا نعتیہ شاعری اور صوفیانہ کلام، ان سب کی تخلیق واشاعت میں ہندو، مسلمان اور سکھوں کا مساوی حصہ رہا ہے اور یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ بعض میدانوں میں مسلمانوں سے بھی زیادہ ہندوئوں کے اردو زبان پر احسانات ہیں ایسی ہی ایک ہستی کا نام منشی نول کشور ہے جن کی صد سالہ برسی ۱۹۹۵ء میں منائی گئی۔ منشی نول کشور ۳ جنوری ۱۸۳۶ء میں بستولی ضلع علی گڑھ میں پیدا ہوئے، ان کے دادا مغل حکمراں شاہ عالم کے زمانہ میں آگرہ کے شاہی خاندان میں سب سے بڑے عہدیدار تھے، اٹھارہ برس کی عمر میں آگرہ کالج سے علوم مشرقی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ لاہور چلے گئے اور مشہور اردو صحافی منشی ہرسکھ رائے ایڈیٹر ’’کوہ نور‘‘ کی زیر تربیت صحافت طباعت اوراشاعت کے عملی تجربات حاصل کئے، ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کے بعد ۱۸۵۸ء میں منشی جی لکھنؤ چلے آئے اور یہاں کے محلہ رکاب گنج میں ایک چھوٹاسا پریس جس کے مالک اسے بند کرنا چاہئے تھے، حاصل کرکے نول کشور پریس قائم کیا، اس وقت ان کی عمر صرف ۲۲ سال تھی عمر کے ساتھ حوصلے بھی جوان تھے۔ پریس کے قیام کے علاوہ انہوں نے ایک اردو روزنامہ ’’اودھ اخبار‘‘ کے نام سے اپنی ہی ادارت میں جاری کیا اور پریس کے قیام کے بعد سب سے پہلے فارسی کی درسی کتابیں جو اس زمانے میں پڑھائی جاتی تھیں کی طرف توجہ دی، یہ کتابیں ہندوستان کے مختلف مقامات پر قلمی نسخوں کی شکل میں موجود تھیں ، منشی نول کشور نے علمی، ادبی، تاریخی اور دوسرے علوم کے قلمی نسخوں کو حاصل کرنے کیلئے دور دراز مقامات تک اپنے نمائندوں کو بھیجا، اسی طرح مطبع نول کشور سے شعراء کے دیوان ہی نہیں الگ الگ فنون پر قیمتی کتابیں بھی طبع ہونے لگیں، ’’شاہ نامہ فردوسی‘‘ ’’دیوانِ حافظ‘‘ ’’گلستان سعدی‘‘ ان کے پریس سے ایک سے زیادہ بار زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آئیں۔ اس سے قبل تمام ضروری اور درسی کتب کے قلمی نسخے بڑی دشواری کے بعد اور گراں قیمت پر تیار ہوتے تھے، اکثر اساتذہ اور طلباء صرف ایک قلمی کتب سے کام چلانے پر مجبور تھے۔ نول کشور پریس کے اشاعتی کام کے بعد یہ دقت دور ہوگئی۔ فارسی اور اردو کے سرکردہ عالم منشی نول کشور اپنی ذات میں کسی انجمن سے کم نہ تھے انہوں نے اردو زبان میں مختلف علوم وفنون کی ہزاروں کتابیں شائع کیں اور مشرقی زبانوں کی معروف کتابوں کے ارد میں ترجمے کرواکر انہیں بھی شائع کرایا، منشی جی کے اس دارالترجمہ والتصنیف میں عربی، فارسی، اردو، ہندی، سنسکرت، بنگالی، مراٹھی اور پنجابی زبانوں کے ادیبوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ مذہبی کتابوں کی اشاعت تو منشی جی کا سب سے مرغوب مشغلہ تھا، ان کی وسیع القلبی کا یہ حال تھا کہ سبھی مذاہب کی کتابیں نہایت اہتمام سے شائع کرتے اور اس طرح ایک مذہب کے ماننے والوں کو دوسروں سے قریب لانے کیلئے کوشاں رہتے ، نول کشور پریس میں قرآن پاک کی طباعت کا خاص اہتمام تھا، ملازمین جب تک غسل اور وضو نہ کرلیتے مشین کے قریب بھی نہیں جاسکتے تھے، طباعت کے بعد چھپائی کے پتھروں کا دھلا ہوا پانی ایک حوض میں جمع کردیا جاتا اور وہاں سے بعد میں گومتی دریا کے وسط میں لے جاکر بہا دیا جاتا، اسی طرح قرآن شریف کی طباعت میں جو صفحات خراب ہوجاتے ان کو چن چن کر محفوظ کرلیا جاتا اور دریا میں بہا دیا جاتا۔ منشی نول کشور نے اپنی زندگی میں ۱۸۵۸ء سے ۱۸۹۵ء کے درمیان ۳۷ برس میں مذہب، تاریخ، ادب، صنعت وحرفت، فلسفہ، حساب، جغرافیہ، سائنس مصوری اور نجوم ورمل جیسے مختلف فنون پر چار ہزار کتابیں شائع کیں جن میں دنیا کی سب سے ضخیم کتاب ’’طلسمِ ہوش ربا‘‘ بھی شامل ہے ان کے پریس میں بارہ سو ملازم بیک وقت کام کیا کرتے تھے اور اسے ایشیا کا سب سے بڑا پریس ہونے کا اعزاز حاصل تھا جس کی شاخیں کان پور، پٹیالا، لاہور اور لندن میں کام کرنے لگیں تھیں۔ دنیا میں مشرقی علوم کی شاید ہی کوئی لائبریری ایسی ہو جہاں نول کشور پریس کی مطبوعات موجود نہ ہوں۔ اردو زبان ، ادب، صحافت اور مذہبی لٹریچر کے لئے منشی نول کشور نے جو خدمات انجام دیں، اس کی بناء پر مقتدر عالم سید آغا مہدی کی رائے ہے۔ ’’ انصاف پسند طبقہ آج یہ رائے قائم کرنے پر مجبور ہے کہ نول کشور کا مسلمانوں پر خصوصی احسان ہے کہ انہوں نے شیعہ وسنی لٹریچر اس وقت چھاپنا شروع کیا، جب عیسائیت اسلام کو کچلنے کا سامان کررہی تھی‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ منشی نول کشور انسان دوست غریب پرور اور سیکولر مزاج کے انسان تھے، ان کے پریس میں اس وقت کے رواج کے مطابق ہاتھ کی مشینیں استعمال ہوتی تھیں، ایسی سو سے زیادہ مشینوں کیلئے انہوں نے ایک ایک نگراں اور اس کا مددگار مقرر کررکھا تھا، جب بھی کوئی مددگار اپنی مشین پر کام کی مہارت حاصل کرلیاتو منشی جی اس شرط کے ساتھ اپنی دستی مشن اس کے حوالے کردیتے کہ وہ اسے اپنے گھر پر لگاکرطباعت کرے اور کام ان کے پریس سے حاصل کرلے۔ آمدنی میں آدھی رقم اس کو دے دیتے اور آدھی مشین کی قیمت کے طو رپر وضع کرلیتے۔ اس ہمدردانہ رویہ کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں معمولی ہیلپر پریس کے مالک بن گئے اور لکھنؤ میں چھاپہ خانوں کی تعداد بڑھتی گئی،اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ بہت کم مدت میں ایک عظیم الشان اور قیمتی کتابوں کا ذخیرہ طباعت واشاعت کی منزلوں سے گزر کر علمی دنیا کے سامنے آگیا۔ حالانکہ منشی جی کی مشینیں پرانے قسم کی معمولی ہینڈ پریس کی مشینیں تھیں، آج کے دورمیں جدید ترین تیز رفتار پرنٹنگ مشینوں سے اتنا کام نہیں لیا جاسکتا، جتنا کہ منشی نول کشور نے کیا، جو ان کی خداداد صلاحیت اور ذہانت کا نتیجہ تھا، انہوں نے ۱۸۵۷ء کے شروع میں طباعت کے کام کا آغاز کیا تھا، اس وقت ان کی عمر بائیس سال سے زیادہ نہیں تھی اور ۵۹ سال کی عمر میں ۱۸۹۵ء میں جب منشی جی نے وفات پائی تو گویا صرف ۳۷ برس کے عرصہ میں انہوں نے مختلف زبانوں میں علوم وفنون کا نادر ونایاب ذخیرہ دنیا کے سامنے پیش کردیا۔ علومِ مشرقیہ کے اس محسن کی عظیم خدمات کے اعتراف میں برطانوی سرکار نے ۱۸۷۷ء میں انہیں ملکہ وکٹوریا کے دربار کے موقع پر ’’قیصر ہند‘‘ کے اعلیٰ اعزاز سے نوازا اور دربار میں شہزادگان نیز تعلقہ دارانِ اودھ سے ممتاز جگہ دی ، مرزا غالبؔ نے بھی اپنے خطوط میں ان کا ذکر نہایت تحسین کے ساتھ کیا ہے،نول کشور کی کوئی مستقل تصنیف نہیں ملتی مگر فارسی اور اردو کی متعدد کتابوں پر ان کے دیباچے اور تقریظیں ضرور موجود ہیں جن سے منشی جی کی تحریر اور علمی ذوق کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک بڑے علمی ذخیرے کو زمانہ کی دستبرد سے بچاکر کتابوں کی صورت میں لوگوںتک پہونچایا بالخصوص اردو زبان کی اشاعت اور اس کے ادبی سرمایہ کی حفاظت میں ان کا احسان ناقابل فراموش ہے۔(یو این این) www.arifaziz.inE-mail:arifazizbpl@rediffmail.comMob.09425673760