شہریت قانون پراحتجاج جاری

0
0

، کامن سول کوڈ کی تیاری

 

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلیemail:ghaussiwani@gmail.comGhaus Siwani ki Mehfil/Facebook

پورا ملک شہریت قانون کی آگ میں جل رہاہے۔ شہروں سے دیہاتوں تک احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔ اس دوران مرکزی سرکار کامن سول کوڈ لانے کی تیاری میں مصروف ہے۔حالانکہ جس طرح شہریت بل اور مجوزہ این آرسی کے نشانے پر مسلمان ہیں، اسی طرح کامن سول کوڈ کا مقصد بھی مسلم پرسنل لاء کو ختم کرنے کے سواکچھ اور نہیں ہے۔کشمیر سے دفعہ 370 کو ختم کیا گیاکیونکہ یہاں مسلمان ہیں مگر دفعہ 371کے تحت جو خطے آتے ہیں،ان کی رعایات میں کوئی کمی نہیں کی گئی کیونکہ یہاں مسلمان نشانے پر نہیں آتے۔بالکل یہی رویہ اب کامن سول کوڈ کے نفاذ کے بارے میں بھی حکومت اپنانے والی ہے۔اس کی زد میں آنے والے غیرمسلم طبقات کو تو رعایت دی جائے گی مگر مسلمانوں کو نہیں دی جائے گی۔ شہریت قانون کے بعد حکومت میں بیٹھے لوگوں نے اشارہ دیدیا ہے کہ اب باری کامن سول کوڈ کی ہے۔اس پر کئی اہم اخبارات اور نیوز چینلوں نے اسپیشل اسٹوریز کی ہیں مگر شہریت قانون کے شور میں کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی۔ایک اور نئے قانون کی تیاری مودی سرکار -2 کے انتخابی منشور میں کئے گئے تین بڑے وعدے سات ماہ کے اندر پورے ہوگئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تینوں وعدے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے دیرینہ مطالبوں میں شامل تھے۔ بی جے پی نے اپنے 2019 کے انتخابی منشور میں جموں وکشمیر سے آرٹیکل 370 کو ہٹانے ، شہریت لاء میں ترمیم اور تین طلاق میں سدھارکا وعدہ کیا تھا۔ سیاسی گلیاروں میں خبرگرم ہے کہ حکومت اب آنے والے وقت میں یکساں سول کوڈ اور آبادی پر قابو پانے سے متعلق قوانین پر کام کرے گی ۔جب وزیر داخلہ امت شاہ نے راجیہ سبھا میں بحث اور پاس کرانے کے لئے شہریت ترمیمی بل پیش کیا تھا تو انہوں نے بی جے پی کے منشور کا بھی حوالہ دیا تھا۔ شاہ نے کہا کہ جو لوگ ہم پر ووٹ بینک کی سیاست کا الزام لگارہے ہیں ، میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ انتخابی منشور حکومت کی پالیسیوں کا اعلان ہے اور عوام اس پر یقین کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے الیکشن سے قبل یہ ارادہ عوام کے سامنے رکھا تھا جس کو عوام کی حمایت حاصل ہوئی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ مینڈیٹ سے بڑا کچھ اور نہیں ہوسکتا۔ اس کے جواب میں ، کانگریس کے آنند شرما نے کہا کہ’ کسی بھی پارٹی کا منشور آئین سے ٹکرا نہیں سکتا ، اور نہ ہی اس سے آگے جاسکتا ہے۔ ہم سب نے آئین میں حلف لیا ہے اور آئین اہم ہے۔‘بہرحال پارلیمنٹ میں شہریت ترمیمی بل کی منظوری کے ساتھ ہی ، بی جے پی کا تیسرا بڑا وعدہ پورا ہوا ہے۔ اب بی جے پی کے اندر اور سنگھ پریوار کے لوگوں کی نظریں کامن سول کوڈ ایکٹ پر لگی ہیں۔ بی جے پی نے اپنے منشور میں یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ بی جے پی یکساں شہری کوڈ بنانے کے لئے پرعزم ہے۔ اس میں مزید کہا گیا کہ بی جے پی کا خیال ہے کہ جب تک ہندوستان میں یکساں شہری ضابطہ اختیار نہیں کیا جاتا ، صنفی مساوات قائم نہیں ہوسکتا۔حالانکہ آرایس ایس اور بی جے پی کے لیڈران کہہ رہے ہیں کہ آبادی پر کنٹرول کے قانون پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔کامن سول کوڈ پر لاء کمیشن کام کر رہا ہے   ملک میں یکساں سول کوڈ لاگو کرنے کے امکان کا پتہ لگانے کے لئے مودی حکومت بہت پہلے لاء کمیشن کو خط لکھ چکی ہے اور اب کمیشن اس سلسلے میں تیاریاں بھی مکمل کر چکاہے۔ پارلیمنٹ کے آنے والے اجلاسوں میں کامن سول کوڈ کا قانون بھی لایا جاسکتاہے۔ غور طلب ہے کہ ملک میں یکساں سول کوڈ کا سوال آزادی کے بعد سے ہی سیاسی مسئلہ بنتا رہا ہے۔یاد رہے کہ 1955-56 کے پارلیمنٹ سیشن میں قدامت پسند ہندوؤں نے نہرو کے ہندو کوڈ بل کی جی توڑ مخالفت کی تھی کیونکہ یہ بل ہندووں میں تعدد ازواج کی مخالفت کرتا تھا ، طلاق کی صورت میں مطلقہ بیوی کو گذارا بھتہ دینے، جائیداد میں بیٹے بیٹیوں اور بیواؤں کو مساوی حقوق دینے کی وکالت کرتا تھا۔  وقت، وقت پر سپریم کورٹ کے فیصلوں اور ہندو پرسنل لاء میں ہوئے ترمیم کے چلتے آج یہ ساری چیزیں قابل اطلاق ہو چکی ہیں اور اب دیگر مذاہب کے پرسنل لاء کو ختم کر یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی بات چل نکلی ہے ۔کہا جارہاہے کہ یکساں سول کوڈ کا آئین کے تحت فراہم کردہ مذہبی آزادی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔حالانکہ اس سوال کا کسی کے پاس جواب نہیں کہ جب سبھی مذاہب کے پرسنل قوانین ختم کردیئے جائینگے تو مذہبی آزادی کہاں بچی؟ مذہبی آزادی کا مطلب صرف اپنے طریقے پر عبادت کرنا نہیں ہے بلکہ اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنا بھی ہے۔واضح ہوکہ آئین کے آرٹیکل 25 کے مطابق ہندو پرسنل لاء کے تحت ہندو، سکھ، جین اور بدھ مت وغیرہ مذاہب آتے ہیں جبکہ مسلم و عیسائی کمیونٹی کا اپنا اپنا پرسنل لاء ہے۔یہ بھی دھیان رہے کہ ہندو پرسنل لاء کو پارلیمنٹ نے تیار کیا تھا، جب کہ مسلم پرسنل لاء ، قرآن ، احادیث اور شرعی کتابوں کی بنیاد پر بنا ہے۔ اسی طرح عیسائیوں کے پرسنل قوانین عیسائی علماء کے تیار کردہ ہیں جن کی بنیاد بائبل کی تعلیمات اور قدیم روایات بتائی جاتی ہیں۔کامن سول کوڈ کی حمایت کیوں؟ یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی بات اگرچہ ماضی میں اٹھتی رہی ہے مگر اس معاملے کو لے کر سب سے بڑا مطالبہ سال 1985 کے شاہ بانو کیس میں کھڑا ہوا تھا۔ کورٹ نے شاہ بانو کے سابق شوہر کو گزارا الاؤنس دینے کا حکم دیا تھا لیکن اس وقت کی راجیو گاندھی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو پلٹنے کے لئے مسلمانوں کے مطالبے پرپارلیمنٹ میں مسلم پرسنل لاء بل پیش کر دیا تھا۔ اس بل کی مخالفت میں بی جے پی کے علاوہ کمیونسٹ پارٹیاں بھی تھیں اور خود کانگریس کے اندربھی اس کی مخالفت ہوئی تھی مگر راجیو گاندھی کے سامنے ان کے ممبران پارلیمنٹ منہ بند کرنے پر مجبور تھے۔ اس وقت بھی بی جے پی کے علاوہ دیگر سیکولر پارٹیاں بھی چاہتی ہیں کہ ملک میں کامن سول کوڈ نافذ ہو اور مسلم پرسنل سمیت تمام پرسنل قوانین ختم کئے جائیں مگر سبھی پارٹیاں اس کے لئے اتفاق رائے چاہتی ہیں جب کہ بی جے پی سیاست کرنا چاہتی ہے۔ ملک کا سیکولر اور وہ طبقہ جو کبھی بھی بی جے پی کو ووٹ نہیں دیتا وہ بھی کامن سول کوڈ کا حامی ہے۔ خود سپریم کورٹ اس سلسلے میں کئی بار مرکزی حکومت سے جواب طلب کرچکا ہے۔ سوال یہ بھی اٹھایا جارہاہے کہ مذہب کے نام پر ستی رواج اور بچوں کی شادی جیسی رسوم ہندو مذہب میں بھی تھیں لیکن سخت قانون بنا کر انہیں 19 ویں صدی میں ہی بہترکرلیا گیا تھاتو پھر مطلقہ کا گزارہ بھتہ ،تعدد ازواج جیسی برائیوں کو 21 ویں صدی کے اسلام میں کیوں نہیں درست کیا جا سکتا؟  یہ بھی کہا جارہاہے کہ جب پورے ملک کے لئے تعزیراتی قوانین ایک ہیں تو عائلی قوانین ایک کیوں نہیں ہوسکتے؟ جب مسلمان تعزیراتی قوانین کو قبول کرتے ہیں تو عائلی قوانین میں ملکی قوانین کو کیوں نہیں قبول کرسکتے؟مسلمانوںکی مخالفت  ہمارے ملک میں سب سے بڑی اقلیتی آبادی مسلمانوں کی ہے۔ اسی لئے جب جب یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی بات ہوتی ہے تو اسے مسلم پرسنل لاء پر حملہ سمجھ لیا جاتا ہے اور اس وقت تو بی جے پی کی حکومت ہے جو مسلمانوں کو کچوکے لگانے کے لئے مشہور ہے تو ظاہر ہے کہ اسے اسلام دشمنی کا ہی ایک نیا انداز سمجھا جائے گا۔یہی سبب ہے کہ اس معاملے کو لے کر سبھی مسلم فرقوں کے علماء ایک رائے نظر آتے ہیں۔ایک موقع پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی نے کہا تھا’ہم سب لوگ ایک معاہدہ کے تحت اس ملک میں رہ رہے ہیں۔یہ اگریمنٹ کانسٹی ٹیوشن کے تحت ہے۔ مذہب، روایت کو ماننے کی آزادی ہے۔ یونیفارم سول کوڈ کو نافذ کرنے کا مطلب ہے اس معاہدہ کی خلاف ورزی۔‘یکساں سول کوڈ کی راہ آسان نہیں لاء کمیشن کے چیرمین جسٹس بی ایس چوہان کا کہنا ہے کہ کامن سول کوڈ کی راہ آسان نہیں ہے۔ ان کے مطابق شمال مشرقی ریاستوں میں تعدد ازواج وغیرہ کے مروجہ روایتی قوانین میں تبدیلی کے لئے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہو گی۔جسٹس بی ایس چوہان کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ ہندوستان میں کہیں بھی یکساں سول کوڈ لاگو نہیں ہے۔ گوا میں پہلے سے ہی یکساں سول کوڈ نافذ ہے۔ وہاں پرتگالی قانون کی طرز پر تمام مذہب کے لئے ایک جیسا قانون لاگو ہے۔ جسٹس چوہان کا اشارہ اس جانب تھا کہ بھارت کی الگ الگ ریاستوں میں الگ الگ قوانین نافذ ہیں اورگوا میں نافذ یکساں سول کوڈ پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔(یو این این)

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا