محمد راشد
انسانی فطرت مختلف النوع رویوں کا مجموعہ ہے۔ کچھ لوگ منفی بات میں سے بھی مثبت پہلو نکالنے کا رویہ اپناتے ہیں، جب کہ کچھ کا رویہ مثبت بات میں سے بھی منفی پہلو کشیدکر لیتا ہے۔ اول الذکر لوگ زندگی کے تمام حالات سے سے لطف اندوز ہوتے ہیں ، جب کہ ثانی الذکر لوگ زندگی کے حسین لمحات میں غیر اطمینانی کے شاکی ہوتے ہیں۔ برستی بارش کے قطرے سیپ اور سانپ دونوں کے منہ پرگرتے ہیں، لیکن سیپ اس قطرے کو موتی اور سانپ زہر میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یہی معاملہ مثبت اور منفی سوچ کا ہے۔منفی سوچ کا حامل شخص منفی روش کے دھارے میں بہہ کر معاشرے میں مایوسی کو جنم دیکر نہ صرف اپنی ذات کو بلکہ دوسروں کو مسائل اور پریشانیوں میں الجھاتا چلا جاتا ہے، جبکہ مثبت سوچ کا حامل انسان، معاشرے کے لیے امیدکی کرن ہوتا ہییہ زندگی کینازک اور کٹھن حالات میں بھی خوشی و امید کے دیپ جلاکرمسائل کو سلجھاتا ہے اور ان ہی مسائل میں رہ کر نئی راہیں بھی تلاش کر لیتا ہے۔نیز یہ معاشرے میں موجود برائی کو ختم کرنے اور مثبت تبدیلی لانے کے لیے اپنے حصے کی شمع جلانے پر یقین رکھتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ مثبت سوچ انسان کی شخصیت، صحت، تخلیقی صلاحیت اور جرات پر تعمیری اثرات مرتب کرتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ آج منفی سوچ ہمارے معاشرے کی رگوں میں سرایت کر چکی ہے۔معمولی معمولی باتوں پر تنقید کرنا لو گوں کا شیوہ بن گیا ہے۔ کسی کی تعریف کرنے پر آئیں تو اس اسے اوج ثریا پر پہونچا دیا جاتا ہے، اور اگر کسی کو ذلیل کرنے پر آجائیں تو ایک معمولی سی غلطی اور لغزش کو ہدفِ تنقید بناکر اسے تحت الثریٰ میں پہونچا دیا جا تا ہے۔ کسی سیاسی و مذہبی جماعت کے کارکن ہوں یا کسی مسلک و فرقے کے افراد کوئی اپنے مخالف کی کسی اچھی بات کی تعریف نہیں کرتا، ہاں اگر ان کی کوئی بری یا خلاف مزاج بات نظر آ جائے تو اس کا واویلا کرنا فرض سمجھا جاتا ہے۔ ان کے تمام کارناموں کو ایک جملہ میں رد کر کے فضا میں ایک ایسا زہر گھول دیا جاتا ہے کہ ایک سادہ لوح انسان کے دل میں ان کے تئیں نفرت و عداوت کی آگ بھڑکنے لگتی ہے۔ حالانکہ کسی کی ذات کو نشانہ تنقید بنانے سے پہلے ناقد کو اپنے مخا طب کے جملہ حالات کا جائزہ لینا چاہئے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس سے غلطی کا صدور سہوا ہو گیا ہو۔ یا اگر قصدا ً کیا تو آخر اس کے اسباب و محر کات کیا تھے۔ کہیں ایسا تو نہیں بر بنائے مصلحت اس نے غیر جانب دارنہ یا غیر دانشمندانہ اقدام کیا ہو۔
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج سوشل میڈیا پر نام نہاد نقاد اور مفکرین کا ایک ایسا جم غفیر ہے جوکسی تحریر کو پڑھنے اور اس کے تما م پہلوؤں پر غور کرنے سے پہلے لن ترانیوں، دشنام ترازیوں ، اور اجتہادات کے نا پیدا کنار سمندر میں غوطہ زن ہو جاتے ہیں۔ جس کے جو منھ میں آتا ہے بول جاتاہے نہ فرق مراتب ہے، نہ نسبتوں کا خیال، نہ علم وعمل کا کوئی وقار! کئی کئی گھنٹے بلکہ کئی کئی روز تک اس پر لاحاصل بحث کرکے نہ صرف اپنی شبیہ خراب کرتے ہیں بلکہ اپنا قیمتی وقت بھی ضائع کرتے ہیں۔ کبھی ایسا ہو تا ہے کہ باوجود ممانعت اور تنبیہ کے جھگڑے پر اتر آتے ہیں۔ انجام کار ان کے مصلح اور مفکر بننے کا خمار پل بھر میں نفرت وعداوت میں تبدیل ہوکر معاشرے میں مزید مایوسی اور ناچاکی کی مسموم فضا کو ہوا دیتا ہے۔
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصہ کی کوئی شمع جلائے جاتے
یہ منفی سوچ اور ایک آپسی چپقلش ہی کا نتیجہ ہے کہ آزادی کے بعد سے ہی مسلمانوں کے لئے سرزمیں ہند باوجود وسعت کے تنگ ہوتی جارہی ہے۔ ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت( قوم مسلم) ابھی تک اپنا کوئی حقیقی سیاسی قائد منتخب نہیں کر سکی۔ بہت ساریمخلص قائد قوم و ملت کی بھلائی اور بہتری کے لئے پورے عزم و حوصلہ کے ساتھ منصہ شہود پر آئے ؛ لیکن منفی مزاج اور دریدہ ذہن کی شاطرانہ چال سے ان کے سارے جذبات اور خواب سپرد خاک ہوگئے۔ستم با لائے ستم یہ سلسلہ تا ہنوز جاری ہیاس کی جڑیں کمزور ہو نے کے بجائیمزید تناور ہوتی جارہی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج بہت سارے لوگ قوم مسلم کی سسکتی ہوئی حالت کو دیکھ کر جذبہ قیادت سے سرشار ہوکر میدان عمل میں آنا چاہتے ہیں؛ لیکن جب وہ اپنے دیگر سیاسی بھائیوں کا حشر دیکھتے ہیں تو وہ کبیدہ خاطر ہوکر اپنے آپ کو سیاست سے دور رہنے میں بھلائی سمجھتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کچھ شاطر دماغ عیاری اور مکاری کے سایہ میں اخلاص و جانثاری کا لبادہ اوڑھ کر قوم مسلم کی ڈوبتی کشتی کو پار کرانے کے لئے منظر عام پر آتے ہیں۔ لیکن قیادت کا کلادہ اپنے گردن میں ڈالنے کے بعد میر جعفر اور میر صادق کی صفوں میں اپنا نام درج کراکے اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ کو خراب کرتے ہیں۔ جس کی مثالیں ایک نہیں سیکڑوں مل سکتی ہیں۔دوسری طرف اقلیت ہوتے ہوئے پورے اخلاص اور شعور کے ساتھ یہ بھی حکمت عملی اپنائی کہ ہم نے سیکولر مزاج ہندوؤں کو سپورٹ کیا، اوران کو تقویت پہونچائی، اور جو فرقہ پرست ہیں ان کو کمزور کرنے کی کوشش کی، اسی حکمت عملی پر ہم نے اب تک عمل کیا ہے، اور پورے اخلاص کے ساتھ کیا ہے، لیکن اس حکمت عملی کا نتیجہ اور ثمرہ اب تک رونما نہیں ہو سکا۔ ہم نیسیکولر سمجھ کر جس بھی پارٹی پر اعتماد کیا ہر بار اسنے ہمیں ڈسا ہے اس لئے اب بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔۔المؤمن لا لدغ من جحر مرتن(مسلمان کبھی ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا) ہم تو ہزاروں بار ڈسے جا چکے ہیں۔
بی جے پی پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک کی جو صورت حال ہے وہ ہر کس وناکس پر عیاں ہے۔بالخصوص شہریت ترمیمی ایکٹ کے بعد ملک کی جو فضا ہے شاید ایسی نفرت و عداوت اور ظلم و بربریت کے مظاہر زمین و آسما ن نے کبھی نہ دیکھا ہو۔ نا ہنجا ر پولیس اور شر پسندوں نے معصوم طلبہ اور طالبات کے ساتھ جو آگ اور خون کی ہولی کھیلی اس سے آئین ہند کی روح سیکولرزم اور جمہوریت ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت شرمسار ہوگئی۔ غم و غصہ میں ڈوبا پورا ملک مذہب اور نسل سے قطع نظر متحد ہوکر غاصب و جابر حکومت کے خلاف محاذآرائی کے لئے چیخ چیخ کر پکار رہا ہے۔ ایسے نازک حالات میں انتہائی ضروری ہے کہ جملہ مکاتب فکر اور ملی تنظیمیں مسلکی اختلاف سے قطع نظر ایک دوسرے پر تنقید کرنے ، باہم دست گریباں ہونے کے بجائے ایک مؤ ثر اور مثبت انداز میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر برادران وطن کے ساتھ حسن اخلاق کا مظاہرہ کریں، ان کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملیں اور اسلام کی سچی تصویر ان کے سامنے پیش کریں۔ نیز موجودہ حکومت کی ناپاک سازشوں سے لوگوں کو روشناش کرائیں، باہم متحد ہوکران کے ناپاک منصوبوں کو نیست ونابود کرنیاور ملک کی جمہوریت اور آئین ہند کے تحفظ اور بقا کے لئے ایک تعمیری اور انقلابی اقدام کریں
ہمیں یہ سمجھنا چاہئیے کہ جہاں ہم قانون کے پاس ولحاظ کے پابند ہیں وہیں ہم شریعت کے بھی پابند ہیں۔ اور یہی تو دین اسلام کی خوبی ہے کہ وہ انسان کو رنج والم اور فرحت وشادمانی دونوں میں حد اعتدال سے باہر نہیں جانے دیتا۔کسی قائدیا کسی تنظیم کی نااہلیت اور بزدلی کا ماتم کرنا،کسی کو سر عام رسوا کرنااور لعن طعن کرکے اصلاح کی امید کرنا حماقت ہے اس سے حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید ابتر ہونگے۔ ہمارے ایمانی وجود کا یہ تقاضہ ہے کہ ہم اپنی حکمت عملی پر بڑے ٹھنڈے دل و دماغ سے بہت بصیرت کے ساتھ نظر ثانی کریں کسی کی ذاتی راے سے اتفاق نہیں تو ان کو مخلصانہ مشورہ دیں اور اصابت راے کے لیے دعائیں کریں۔ ملک اور مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں مثبت سوچ اور مثبت جذبات رکھیں۔ اپنے اردگرد لوگوں میں مثبت سوچ کو فروغ دیں۔ گناہوں سے توبہ کریں اور اپنے اعمال کو درست کریں ۔ایک اچھے شہری کی حیثیت سے اپنے فرائض ایمانداری سے انجام دیں اور یقین رکھیں کہ تبدیلی آنے والی ہے اسلئے کہ جب اضطراب اوربے چینی حد سے بڑھ جاتے ہیں تو لوگ مسائل کے ذمہ داروں سے انتقام لیتے ہیں۔ اْن کا بہتر شعور اور مثبت سوچ انہیں نئی اور بہتر قیادت کی تلاش میں اْ ن کی مدد کرتاہے۔ یقین رکھیئے کہ ایک نئی اور خوشگوار صبح طلوع ہونے والی ہے سر زمین ہند ایک بار پھر بدترین حالات اور بدکرداررہبر نمارہزنوں سے پاک ہوگی۔انشاء اللہ