ہیبت قلی خان حسرت

0
353

Syeda Jenifar Rezvi

سیدہ جنیفر رضوی

phn: 7872873542 ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ
Email Id : [email protected]

 

ہیبت قلی خان حسرت کا شمار دبستان مرشدآباد کے مایہ ناز شاعروں اور انشا پردارزوں میں ہوتا ہے آپ کو اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں عبور حاصل تھا ۔ آپ صاحب دیوان شاعر تھے ہزاروں کی تعداد رمیں آپ نے اشعار کہے ہیں آپ کے تقریباً دو ہزار اشعار پر مبنی دیوان کا قلمی نسخہ اتر پردیش کے شہر رام پور کے کتب خانے میں موجود ہے ۔ آپ اپنی حاضر جوابی اور لطیفہ گوئی کی وجہ سے ہر دل عزیز تھے۔
ڈاکٹر رضا علی خاں آپ کی شاعری کی تعریف کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’ مرشدآباد اردو کا ایک قدیم مرکز‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
’’ حسرت کی شاعری اس دور کے دیگر شعراء کے کلام سے زیادہ پاک و صاف ہے ۔ حسرتؔ کی شاعری کا عاشق اپنے محبوب سے ایسا سہما ہوا ہے کہ وہ اپنے عشق کا پورا تجربہ بیان کرنے سے قاصر ہے مثال کے طور پر کچھ اشعار ملا خط ہیں : (ص ۔۸۶)
کلفت ایام سے حسرتؔ یہاں
عمر میں کیا خاک بسر کر گیا
یک بیک یاد تمہاری جو مجھے آئی ہے
جی ہی جانے ہے جو کچھ دل پہ گزر جاتی ہے
ہو جاوے ایک توجہ ادھر بھی اگر کبھی
اتنا بڑا یہ کام ترے رو برو نہیں
ہوں جا کی پرستش میں کیوں کیا یاروں
آتا ہے وہ بت دیکھو اﷲ اﷲ

آپ کا اسم گرامی میر محمد حیات، تخلص حسرتؔ اور ہیبت قلی خاں لقب تھا ۔ آپ عظیم آباد کے رہنے والے تھے آپ شوکت جنگ جو نواب علی وردی کے نواسے تھے ان کے عہد میں دبستان مرشدآباد تشریف لائے اور ان کی ملازمت اختیار کی لیکن ۱۷۵۶؁؁ء میں جب علی وردی کا انتقال ہوا تو تخت نشینی کیلئے ان کے دونوں نواسوں سراج الدولہ اور شوکت جنگ میں جنگ ہوئی جس میں سراج الدولہ کو فتح حاصل اور شوکت جنگ جنگ میں مارے گئے پھر آپ نے سراج الدولہ کی سرکاری میں داروغہ اور عرضی بیگی کی ملازمت حاصل کر لی اور پھر ہمیشہ کیلئے دبستان مرشدآباد میں سکونت اختیار کر لی ۔ سراج الدولہ کی عہد میں ان کی زندگی نہایت عیش و عشرت سے بسر ہو رہی تھی لیکن قسمت کس وقت دھوکہ دے یہ کسی کو نہیں معلوم ان کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ جنگ پلاسی کے بعد تمام نوابین کے اختیارات میں رفتہ رفتہ کمی واقع ہونے لگی جس کا براہ راست اثر شاہی ملازمین میں پڑنے لگا ۔ نواب مبارک الدولہ کے عہد حکومت میں آپ کو بہت تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا تھاکیونکہ اس عہد میں دبستان مرشدآباد کے نظامت پر انگریزوں کی گرفت مظبوط ہونے لگی تھی ۔ ملازمت سے مقامی لوگ ہٹائے جا رہے تھے آپ کو بھی بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑا مگر اس کے بعد بھی آپ نے دبستان مرشدآباد کو خیر باد نہیں کہا اور ۱۷۹۵؁ء میں اس دار فانی سے رخصت ہوئے اور نواب ببر علی خان کے عہد نظامت میں مرشدآباد ہی کے قبرستان میں آپ دفن ہیں ۔
ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں کہ :
’’ آپ محمد باقر حزیں کے بہنوئی اور شاگرد تھے‘‘
مگر نساخ اور اضغر انیس اپنی کتاب ’’مغربی بنگال میں اردو کا ایک اہم مرکز مرشدآباد ‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ
’’ مرزا مطہر کے شاگردوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے ‘‘۔ (ص۔ ۱۰۸)
ان کے کچھ اشعار ملا خط ہیں :
سنا ہے آج مے خانہ میں جام مے پہ مستون نے
لٹایا دین و دنیا دونوں ہمت اس کو کہتے ہیں
نہ جانوں ، کرے کیا ، حنا کا لگانا
عجب طرح کا عشق حسرتؔ نے ٹھا نا
ہیبت قلی خاں حسرتؔ کا تذکروں میں ذکر نظریات
’’ بہار سخن میں شیام سندر لال برق لکھتے ہیں کہ فارسی کیں اچھا ملکہ تھا ۔ صاحب دیوان فارس تھے ۔ فارسی کلام میں محاورات کو نہایت خوبی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ خلیق و متواضع بزرگ تھے ۔ مدّتوں رام پور فرح ّآباد میں قیام پذیر رہے ۔ فارسی زبان کے شاعر تھے کبھی کبھی اردو میں بھی طبع آزمائی کی ہے ۔۱۲۳۴ ھ میں انتقال کیا :
شعر :
ہوشیاری میں جو آرام نہ پایا میں نے
جان کر آپ کو دیوانہ بنایا میں نے
شمع کے طور آفتِ الفت
سر سے پائوں تلک چلانی ہے
درد دل کس سے میں کروں اظہار
سن سکے کون کس کی چھانی ہے (ص۔ ۴۷)
بیاضی سخن میں عبدالشکور لکھتے ہیں :
’’ ہیبت قلی خاں حسرت عظیم آبادی شاگرد مظہرؔ ۔ ایک شعر بیاضی میں ہے باقی و اﷲ علم بالعواب ‘‘

کعبہ بھی ہم گئے نہ گیا ان بتوں کا عشق
اس درد کی خدا کے بھی گھر میں دوا نہیں
دو تذکرہ میں عبدالکلیم الدیں احمد فرماتے ہیں :
’’ حسرت تخلص ، عظیم آبادی ، اسمش میر محمد حیات ، مخاطب بحظاب ہیبت علی خاں ، از شاگردان میر باقر حزینؔ تخلص ، وبقول بعضے (از) شاگردان مرزا جان جانان مظہر بود ۔ چندے بر قاقت نو اب شوکت جنگ خلف نواب صولت جنگ ناظم پورنیہ و مدتے بخدمت داروغی عرض نواب سراج الدولہ بہادر ناظم بنگالہ سرفرازی یافتہ ۔ آخر در زمرہ متوسلان نواب مبارک الدولہ مبارک علی خان بہادر منسلک بود ۔ بغراخی حال می گزانید ۔ آخر ہمان جابر حمت الہٰی پیوست دیوانش قریب دو ہزار بیت باشد ۔ این چند شعر متنخبات دیوان اوست۔
جفا کر کے نہ کھو دے ہاتھ سے جان
نہ پاوے گا پھر ایسا با وفا دل
صنم تو چھوڑ کر حسرتؔ کو اپنے
ہوا غیروں کا جا کر ہمنشیں حیف ۔ (ص۔ ۱۸۴)
تذکرہ گلشن سخن میں مزدان علی خان مبتلا لکھنوی لکھتے ہیں کہ :
’’ میر محمد حیات متخلص بہ حسرتؔ و ملقب یہ ہیبت قلی خاں ۔ متوطن عظیم آباد ۔ چند سال بخدمت داروغگی عرص نواب سراج الدولہ ناظم بنگالہ صرف نمود۔ الحال کہ ۱۱۹۴؁ء ہجرت دو زمرہ متوسلان نواب مبارک الدولہ بہ پریشانی بسر می برد۔نکتہ سنج خوش بیان و سخنور شیریں زبانست دیوانش دو ہزار بیت ۔ ادوست
رات کا بیچ ہوا یہ خواب مرا
مل گیا صبح آفتاب مرا
تمہیں خدا کی سوں اے جان لو ہوا سو ہوا
بھلا دو غصّے کو آو چلو ہوا سو ہوا ۔ (ص ۔ ۱۰۰)
گلشن ہند میں میرزا علی لطف لکھتے ہیں کہ
’’ حسرتؔ تخلص ، ہیبت قلی خاں لقب ، ساکن عظیم آباد کے ، شاگرد میرزا جان جاناں مظہر کے تھے ۔ چند روز انہوں نے رفاقت نواب شوکت جنگ کی ، کہ خلف نواب صولت جنگ ناظم پرگنہ کے تھے ، کی ہے ۔ اور کچھ دنوں ان کی خدمت عرض و معروض کی نواب سراج الدولہ ناظم بنگالہ کے حضور میں رہی ہے ۔ ۱۱۹۵؁ء گیارہ سو پچانوے ہجری کے اندر نواب مبارک الدولہ میر مبارک علی خاں بہادر صو بہ بنک کی رفافت میں نہایت غربت اور پر یشانی کے ساتھ اوقات بسر کرتے تھے ۔ ۱۲۱۰ ھ بارہ سو دس ہجری میں اس سرائے فانی سے سفر گئے ۔ بڑے ہی لطیفہ گو اور حا ضر جواب تھے ‘ بذلہ گو ئی اور علم مجلس میں انتخاب تھے ‘‘ (ص ۸۶ سے ۷۸)
بسکہ دکھ دیتا ہے میرے دل کو وہ بد خو مرا
کل نہیں پاتا ہے مارے درد کے پہلو

آپ کے کلام میں غزلوں کے علاوہ رباعیات بھی ملتی ہیں۔ انھوں نے مختلف اصناف کے ساتھ ساتھ رُباعی پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔

ناشاد کا میرے حال جیسے نہ گیا
جی تک میں دیا ، ملال جی سے نہ گیا
یہ لوحِ مزار پر ہماری لکنا
سہم گئے پر تیرا خیال جی سے نہ گیا

میخانہ میں کیا پھرے ہے مٹکی مٹکی
زاہد واعظ سے دور ، بھٹکی بھٹکی
قاصی سے ڈرے نہ محتسب سے ہر گز
یہ دخترِ رز ہے جس سے اٹکی اٹکی

زاہد جو نہیں ہے میرے دل سے آگاہ
کہتا ہے کہ ’’کافر ہے تو اے روئے سیاہ
ہوں جس کی پرستش میں کہوں کیا یارو
آتا ہے وہ بت ، دیکھو اللّٰلہ! اللّٰلہ !

حسرتؔ اردو ادب کے ان اہم ستونوں میں ہیں جن کی ادبی خدمات نے اٹھارہویں صدی کے دوسرے نصف میں مرشدآباد کو ملک گیر شہرت بخشی تھی اور مشرقی ہند کا ایک عظیم ادبی مرکز بنایا تھا۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا