لوک سبھا چناؤ ، اس بار ووٹر کا امتحان ہوگا

0
0
شہاب مرزا
9595024421
 لوک سبھا انتخابات قریب ہے اور بہت جلد آپ کے اردگرد نیتاؤں کا ڈیرا ہو گا وہ آپ لوگوں کے ساتھ بیٹھیں گے گھل مل جائیں گے آپ کے ساتھ کھانا کھائیں گے پھر صحن میں بیٹھ کر چائے کی فرمائش کریں گے سیاسی حالات پر گفتگو ہو گی مسائل  کے حل کا بھروسہ ملے گا ساتھ ہی ساتھ کچھ نئے وعدے بھی جوڑ دیے جائیں گے خود کو عام آدمی اور مخلص انسان ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش ہو گی عوام کی پریشانی کو خود کی پریشانی سمجھا جائیے گا پھر دعا کی درخواست کے ساتھ رخصتی ہوگی
عوام کو ان لوگوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جو پانچ سال قبل الیکشن کے وقت آئے تھے پھر الیکشن جیتنے کے  بعد آپ انہیں دیکھنے کے لئے ترس گئے تھے
اب انتخابات میں آپ کی ضرورت تھی تو آپ کی یاد ستا رہی تھی اس لئے آپ کے در پر تشریف فرما ہے
دوسری اہم بات اخبارات میں خبر چھپوائی  جائیگی جس میں لکھا ہو گا فلاں صاحب مسائل کے حل کے لئے وزیر اعلی سے ملاقات کریں گے اگلے دن گرتے پڑتے وزیراعلی کے ساتھ ایک تصویر شائع ہوگی
پھر کامیاب نمائندگی کے دعوے کئے جائیں گے پھر بھی مسئلہ حل نہ ہوتو تو ایک دھرنے یا بھوک ہڑتال کا اعلان کیا جائے گا
سوشل میڈیا پر نیئ نیئ تصاویر اپ لوڈ کی جائیں گی اور کیپشن میں لکھا جائیگا نیئ سوچ ،نیا انقلاب ، یا پھر تبدیلی کا دوسرا نام فلاں فلاں صاحب۔۔۔۔
لیکن بدقسمتی سے ہماری عوام ان لوگوں کی چالوں سے واقف نہیں ہے کیونکہ سیاست کا دوسرا نام منافقت ہے جہاں عوامی خدمت کے نام پر کروڑوں کا بینک بیلنس بنایا جاتا ہے لاکھوں انویسٹ کرکے کروڑوں روپیہ کمانے کا واحد ذریعہ سیاست بن گئی ہے
ترقیاتی فنڈ کے نام پر کروڑوں روپے بطور کمیشن وصول کیے جاتے ہیں
ان لوگوں کا چال چلن دیکھئے انتخابات تک رحمدل ہمدرد اور ملنسار اور انتخابات جیتنے کے بعد ان کے پیر زمین پر نہیں ٹکتے !
یہاں سے وہاں جانے کے لیے ہوائی سفر انکا معمول بن جاتا ہے عوامی مسائل سے ان کا کوئی سروکار نہیں رہتا کبھی کبھی تو ان کے پروٹوکول کے چکر میں کسی مریض کی جان بھی چلی جاتی ہے خواب تو خواب ہوتے ہیں جو دکھایا جائے وہ انسانی نفسیات میں بیٹھ جاتے ہیں
یہاں بہترین اسٹیڈیم’ وہاں عالیشان شادی خانہ بہت بڑے صنعتی شعبے کا قیام جس میں ہربیروزگارنوجوان
 کو روزگار کا موقع ‘ ریاست کی سب سے بڑی یونیورسٹی کی تعمیر ‘غرباء کو ذاتی مکانات کی تقسیم اور بھی کئی سنہرے خواب دکھائے جاتے ہیں جس کے آس میں بھولی بھائی عوام چار سالوں تک انتظار کرتی رہتی ہے اور اگلے انتخابات میں نئے وعدے نئے خواب جن کی تکمیل بھی شاید کبھی ہو جاتی پر!
ان حالات کو مدنظر رکھ کر معروف شاعر راحت اندوری نے کیا خوب کہا تھا
آج جو صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
 کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
اب عوام کو ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ انتخابات قریب ہے اور وعدے وفاؤں کا موسم آنے والاہے بڑے بڑے جلسے ہونگے لاکھوں کے اسٹیج سجائے جائیں گے نوجوانوں کو پیسوں دیکر  پروگرام کامیاب کریں گے بڑے بڑے وعدے اور جھوٹے منصوبوں کا پل باندھ لیں گے پھر چار سالوں تک عوام کو صورت تک نہیں دکھائیں گےان لوگوں کی باتوں پر انکھ بند کرکے یقین کرنا بند کرے اگر یقین کریں گے تو اگلے پانچ سالوں تک دربدر کی ٹھوکریں آپ کا مقدر بن جائیں گے۔۔۔
لیڈران عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں ہتھیلی میں جنت  دکھاتے ہیں لیکن بدلتے وقت کے ساتھ راے دہنگان میں اتنا شعور تو آ گیا ہے کہ وہ اچھے  برے اور نا اہل میں تمیز کرنے لگے ہیںوہ دن ہوا ہوئے جب مندر مسجد اور فرقہ واریت کی بنیاد پر ووٹ مانگے جاتے تھے اور ووٹ دیے بھی جاتے تھے ووٹر امیدوار کی کارکردگی کردار اور صلاحیتوں کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے تاہم ایسا ہی ہو یہ ضروری نہیں ہے سیاست کے بازیگر اپنے ترکش سے کونسا تیر نکال لے اور پورا ماحول بدل دے اس تعلق سے کچھ کہا نہیں جاسکتا اس لیے عوام کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے بقا کے لئے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا
ووٹ دینا ہمارا جمہوری حق ہے ووٹ ضرور دیں لیکن یہ ذہین نشین کریں ووٹ کسی کے حق میں شہادت دینے کے باربر ہے مفت کھانے اور چند پیسوں کے بدلے ووٹ کا استعمال نہ کریں بلکہ ضمیر کی آواز سُنیں پچھلے انتخابات کے وعدے ، وعدوں کی تکمیل کو مدنظر رکھیں اپنے ضمیر سے سوال کریں ضمیر کی آواز بھی سنیں  صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنا آپ کے اختیار میں ہے
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا