جدید تدریسی طریقے – تشہیر یا حقیقت

0
0
از ڈاکٹر عاشق حسین
 حماقت خراب پڑھنے پڑھانے، بری تعلیم اور بری سوچ سے پیدا ہوتی ہے۔
میں اپنے دل اور روح کی گہرائیوں سے ان اساتذہ کا احترام کرتا ہوں اور ان کی تعریف کرتا ہوں جو واقعی پڑھانے کے شوقین ہیں۔ یا وہ استاد جو دوسروں کے لیے مثال بننا چاہتا ہے، وہ  استاد جو اپنے کام سے ہمیشہ خوش رہتا ہے، وہ  استاد جسے اسکول کا ہر بچہ پسند کرتا ہے یا اس استادکوجسے ہر طالب علم ساری زندگی یاد رکھتا ہے۔ کیا آپ وہ استاد ہیں؟ میری رائے میں ایک استاد کو پڑھائی اور پڑھانے سے لطف اندوز ہونا چاہیےاور اپنے طلبہ کی زندگی میں جدید ترین علم اور تدریسی طریقہ کار سے انقلاب برپا کرنا چاہیے۔ یہ کچھ اوصاف اور عادات ہیں جو آج ہر استاد میں ہونی چاہئیں جو میرے خیال میں بہت سی دوسری خوبیوں میں سب سے اہم ہیں جو ایک معمولی استاد کو موثر استاد بناتی ہیں۔ جیسا کہ اکثر کہا جاتا ہےکہ "بڑی طاقت کے ساتھ بڑی ذمہ داری آتی ہے۔” ایک استاد کے طور پر آپ کو اپنے پیشے کے ساتھ آنے والی عظیم ذمہ داری سےہر وقت آگاہ اور تیار  رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ کا  مقصد طلبہ کی زندگیوں میں تبدیلی لانا ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کیسے؟
آج ان دنوں کو بھول ہی جانا بہتر ہے جب استاد نظریاتی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ایماندارانہ اور بامقصد زندگی گزارنے کے لیے عملی مشورے بھی دیا کرتے تھے۔ ہر ایک استاد کا بنیادی مقصد اپنے طلباء کے ساتھ علم کا تبادلہ کرنا تھا، خواہ اسے معاشرے کی اس خدمت کے لیے مالی انعامات، نام یا شہرت ملے یا نہ ملے اس کی پرواہ نہیں ہوتی تھی۔ اس وقت کے تمام طلبہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اچھے شہری کی طرح دیانت دار اور بامقصد زندگی گزارنے کے لیے تمام خوبیاں حاصل کر لیتے تھے۔ ماضی کے ان اساتذہ کی لگن اور خلوص کو مدنظر رکھتے ہوئے نہ صرف طلباء بلکہ ان کے والدین اور پورا معاشرہ ان کی اس خدمت پر ان کا احترام  کیا کرتے تھے۔
مگر آج کے اساتذہ کے احترام کو بھول ہی جائیں بلکہ ان دنوں جموں و کشمیر کے اسکولوں میں پڑھانے کے طریقہ کار پر ہونے والی بحثیں کلاس روم میں تدریسی طریقوں کے کردار پر سوالات اٹھا رہی ہیں جس کی متعدد ویڈیوز مختلف اساتذہ سوشل میڈیا سائٹس پر تعریف اور تشہیر حاصل کرنے کے لیے پوسٹ کر رہے ہیں۔ ۔ عوام بڑے پیمانے پر اس جدید تعلیم (گانا، رقص، نظم وغیرہ) کو دیکھ رہے ہیں اور تبصروں کے ذریعے اس طرح کی تعلیم کے مستقبل اور طلباء کے مستقبل پر بحث کر رہے ہیں۔ اگرچہ مختلف اساتذہ کی اس طرح کی مارکیٹنگ کی حکمت عملیوں نے ان کے افسران کو بہت متاثر کیا ہے لیکن سیکھنے سکھانے کا وہ مقصد اب بھی ایک دور کا خواب ہے۔ باقی ملازمین کی طرح آج کل کے استاد کو بھی مخطلف تدریسی انقلاب کے وعدوں اور جدید کلاس رومز کے مستقبل کے لیے کیئ خواب دکھائے جاتے ہیں لیکن حقیقت میں اس طرح کی تعلیم مستقبل میں کہیں بھی نہیں پہنچا پائے گی۔ ضروری نہیں کہ روایتی تعلیم جدید ترین رجحانات سے متصادم ہو لیکن عجیب و غریب تدریس کی اتنی زیادہ تشہیر اس پیشے کو بدنام کر رہی ہے۔
اکیسویں صدی تعلیمی میدان میں انقلاب لے کر آئی ہے۔ اس سائنسی دور میں اساتذہ کا علم اور پڑھانے کا طریقہ کافی حد تک بہتر ہوا۔  اس کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ کی طرف سے بھی خواندگی کی مجموعی سطح کو بہتر بنانے کے لیے مختلف اسکیمیں متعارف کروائی گئی۔  آج تعلیم کی توجہ معمول کے انتظام کے لیے تعلیم یافتہ افراد پیدا کرنے کے بجائے خصوصی پیشہ ورانہ اور صلاحیت سے بھرپور اشخاص پر منتقل ہو گئی ہے۔ ان تمام اسکیموں کو عملی جامہ پہنانے اور پڑھے لکھے غیر پیشہ ور پیدا کرنے کے بجائے تعلیم یافتہ پیشہ ور پیدا کرنےاور تعلیم کا اصلی مقصد حاصل کرنے کے لیے فی الحال ہمیں ان  عجیب و غریب نظمی، گایئکی اور رقص کے طریقہ کار کے بجائے مزید اچھے  اور تکنیکی طور پر جدید تدریسی طریقوں سے پڑھانےکی ضرورت ہے جو کہ ابلاغ کا متبادل ذریعہ ہو سکتا ہے۔ تفریحی طریقوں سے پڑھانا  کچھ حد تک اچھا ہے پر  یہ کبھی کبھی خلفشار کا کام کرتا ہے۔ لہٰذا آج کے اساتذہ کو مضمون کا ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ تکنیکی طور پر ترقی یافتہ ہونا ضروری ہے اور ان میں  وہ تمام خوبیاں ہونی چاہئیں جو  طلبہ کے ایک  دوست، رہبر اور رہنما کی ضرورت کو پورا کریں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مزاحیہ اور کھیل کود  پر مبنی تدریس وقت کی ضرورت ہے لیکن یاد رکھیں اس تدریس کا عملی ہونا ضروری ہے یہاں ہمیں ہر سبق پر شاعری، گانے یا رقص کے بجائے عملی طور پر کچھ روز مرہ زندگی سے وابستہ مثالیں پیش کرنی کی ضرورت ہے۔یہ سچ ہکہ ایک موثر استاد وہ ہوتا ہے جو تخلیقی ہو لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو ہر چیز تخلیق کرنی ہوگی اور استاد کی بجائے موسیقار کی طرح برتاؤ کرنا ہوگا۔ زندگی میں چیزیں ہمیشہ منصوبے کے مطابق نہیں ہوتیں۔ اور جب بات تعلیم کی ہو  یہ خاص طور پر سچ ہے
 اس لیے وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوۓ ان تبدیلیوں کو مثبت انداز کے  ساتھ قبول کرنے کی کوشش کرنا ہمارا فرض بنتا ہے ۔ ایک موثر استاد متعارف کرائی گئی تبدیلیوں یا ہدایات کے بارے میں شکایت نہیں کرتا ہے بلکہ انہیں دونوں ہاتھوں سے گلے لگاتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہر چیلنج کو قبول کرنے کی  صلاحیت رکھتا ہے جو ان کے راستے میں آتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج  اساتذہ کو بہت سے حقیقی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے کہ ناکافی تدریسی ماحول، سماجی حیثیت، ناکافی معاوضہ، سماجی و اقتصادی اور دیگر محکموں کے مقابلے میں وجود اور حالات، تعلیمی نظام کی سنگین خامیاں وغیرہ ۔ تاہم ان مسائل پر قابو پانا مشکل نہیں ہو گا اگر تمام متعلقہ افراد مل جل کر ایسے مسائل کو زمہ داری کے ساتھ حل کریں۔
مختصر یہ کہ تعلیم کو مزید روزگار مبنی بنانے اور اس کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے جاری شدہ عجیب و غریب شاعری، گانے اور رقص والی تدریس کے بجائے سرگرمیوں پر مبنی عملی اور جدید ترین ٹیکنالوجی کی جدید تدریسی تکنیکوں پر زور دیا جانا چاہیے اور ساتھ میں متعلقہ حکام پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ ہر اسکول میں اساتذہ کے لیے مناسب انفراسٹرکچر اور باقی دوسری شرائط وضروری سامان فراہم کیا جائیے تاکہ تدریسی تکنیک کے مجموعی معیار کو بہتر بنایا جا سکے اور اس طرح تعلیم کو بہتر بنایا جا سکے۔ آخر میں ایک اچھے استاد کو میرا یہ پیغام ہکہ  تعلیم سے محبت کی خاطر ہر حال میں اپنا سر بلند رکھیں اور پڑھنے پڑھانے کے اس متبرک پیشہ سے خوش رہیں اور زندگی کی ہر خوشی اس میں ہی تلاش کریں ۔ کامیابی اس ہی میں ہے ۔
قلم کار ڈاکٹر عاشق حسین  گورنمنٹ ڈگری کالج چھاترو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور ان سے  joinchemistry@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا