حجاب پر فیصلے کے بعد!!

0
69

محمد اعظم شاہد

گزشتہ سال کے آخری مہینے دسمبر کے اواخر میں کرناٹک کے ساحلی شہر اڈپی کے سرکاری پی یو گرلز کالج میں مسلم طالبات کے حجاب کے ساتھ کلاسوں میں داخلے پر یکلخت تنازعہ کھڑا کیاگیا ۔ حجاب پر تنازعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر مذہبی منافرت کی آگ بڑھکائی گئی ۔ نفرت کی بھڑکتی آگ پوری ریاست میں پھیلتی گئی اور ملک کے کئی شہروں میں حجاب پر متنازعہ بیان بازی ہونے لگی ۔ اس دوران چھ مسلم طالبات جن کا تعلق شہر اڈپی شہر سے ہے ۔ انہوں نے کرناٹک ہائی کورٹ میں آئین ہند کی دفعہ 19 ؍ اور 25 میں واضح کردہ شہری حقوق کے حوالے سے عرضی داخل کی کہ حجاب پہننا مذہبی آزادی کے دائرے میں آتا ہے جس کی ممانعت آئینی حقوق کی پامالی ہے ۔ عرضی گزاروں کے وکلاء کے دلائل سننے کے دوران کرناٹک کے کالجوں میں ججاب بمقابلہ زعفرانی رومال کا نیا تنازعہ قائم ہوتا چلا گیا ۔ طلباء میں مذہبی منافرت کو عام کرنے کی مذموم سازشیں رچی جانے لگیں، حجاب تنازعہ پر پھیلتے اضطراب اور تشدد پر قابو پانے 5فروری کو ہائی کورٹ نے اپنا عبوری فیصلہ سناتے ہوئے کالجوں میں حتمی فیصلہ آنے تک کسی بھی طرح کے مذہبی لباس کے پہننے پر پابندی لگا دی ۔ یونی فارم پہنے اپنے سروں پر حجاب کے ساتھ کالجوں میں مسلم طالبات کے کالج میں داخلے ، کلاسوں میں حاضری اور پراکٹیکل امتحانات لکھنے سے روکا گیا۔ مسلم طالبات مسلسل احتجاج کرتی رہیں۔ شہری حقوق کی جہد کار تنظیموں نے حجاب کے استعمال کی حمایت کی ۔ گیارہ دن حجاب پر بنے تنازعے پر سماعت کے بعد 25 فروری کو کرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر دو ججوں کی ( تین رکنی ) بنچ نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا ۔ اور 14 مارچ کو اشارے ملے تھے کہ اگلے دن حجاب مسئلہ پر ہائی کورٹ اپنا فیصلہ سنائے گا، اس طرح بالآخر 15 مارچ کو 129 صفحات پر مشتمل اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ حجاب اہم اسلامی مذہبی عمل ERP نہیں ہے ۔ اور کالجوں میں یونی فارم کے ساتھ بلا تفریق مذہب طلباء کو پابند عمل رہنا ہوگا ۔ حکومت کرناٹک کے حکم نامے کی تائید کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں بتایا ہے کہ کالجوں میں طے کردہ یونیفارم پہننے کے قوانین میںکسی بھی طرح حقوق کی پامالی نہیں ہے ۔ اپنے دلائل کی روشنی میں فیصلہ میںکہا گیا ہے کہ حجاب کے استعمال نہیں کرنے سے مذہبی امور کی پاسداری میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آتی ۔
ریاست اور ملک بھر میںحجاب کے خواہاں مسلم طالبات پرامید رہی ہیں کہ ملک کے آئین میں دئے گئے مذہبی معاملات کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے عدالت کا فیصلہ ہر اعتبار سے منصفانہ ہوگا ۔ اور ان ( مسلم طالبات ) کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کی سمت میں متوقع فیصلہ خوش آئند ہوگا ۔ اب چونکہ امتحانات قریب ہیں۔ ایسے میں طلباء اور ان کے والدین کو عدالت کے فیصلے کے پیش نظر امتحان گاہ کو حجاب کے بغیر ہی جانا ہوگا۔ ویسے عدالت کا فیصلہ آنے سے قبل ہی ریاست کے مسلمانوں میں یہ احساس جاگزیں تھاکہ اگر فیصلہ حجاب پہننے کے خلاف آتا ہے تو قانونی مراعات کی رو سے اس معاملے کو سپریم کورٹ کے روبرو بصورت عرضی پیش کیا جانا چاہئے ۔
حکومت کرناٹک نے فیصلہ سنائے جانے والے دن یعنی 15 مارچ کو دارالحکومت بنگلور اور دیگر اضلاع میں امتناعی احکامات جاری کرتے ہوئے دفعہ 144 لاگو کردیا ہے تاکہ عدالتی فیصلے کی حمایت یا مخالفت کے مظاہروں اور احتجاج کو روکا جاسکے ، کئی اضلاع میں 15 مارچ کو کالجوں کے لئے تعطیل کا اعلان بھی کیاگیا ہے ۔
کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنے 129 صفحات پر مشتمل مدلل فیصلہ سناتے ہوئے جن نکات کو اجاگر کیا ہے ، اس پر حکمران حکومت سے جڑے احباب فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے بیانات دے رہے ہیں۔ ٹی وی چینل پر مباحثے ہو رہے ہیں۔ کچھ ایسے بھی مقامی ٹی وی چینل کے اینکر ہیں جو اپنی کم فہمی ، عدم خیر اندیشی اور غیر ذمہ دارانہ رویے کے باعث اس فیصلے کو فرقہ وارانہ رنگ سے پیش کرنے میں آگے آگے ہیں۔ کچھ چینل ایسے بھی ہیں جو مذہبی امور کا نہ گہرا مطالعہ رکھتے ہیں اور نہ ہی انہیں اس ضمن میں کسی بھی زحمت کی ضرورت ہی پیش آتی ہے ۔
وطن عزیز کی مشترکہ تہذیب و ثقافت میں جہاں Unity in diversity ’’کثرت میں وحدت ‘‘ کی دہائی دی جاتی رہی ہے ، یہاں بقائے باہمی اور اپنے تعلیمی مقاصد کے فیض مند حصول کے لئے موجودہ تناظر میں ضروری ہے کہ مسلم طالبات ہوں یا ان کے والدین یاپھر مسلم معاشرے کے ذمہ دار، حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور حجاب کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کریں۔ ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ سے رجوع ہونے اور پھر سماعتوں کے سلسلے اور حتمی فیصلہ ملنے تک متعلقہ وقت درکار ہے ۔ ان حالات میں کسی بھی نوعیت کی شرپسندی ، بیان بازیوں سے مشتعل ہوئے بغیر اپنی دختروں کی تعلیم اوران کے امتحانات لکھنے پر توجہ دینا اولین ترجیح ہونی چاہئے ۔
عدالت کے فیصلے کو محترم سمجھنا ، جمہوری قدروں کا تقاضہ بھی ہے ۔ اور اپنے مفادات اور آئینی مراعات کے حصول کیلئے متحرک رہنا بھی ضروری ہے ۔ جب اپنے حقوق سے انحراف نظر آئے ، یکسوئی کیلئے عدالت عالیہ کے دروازے کھلے ہیں، قانون کے دائرے میں اپنی آواز ، اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے دانشمندی سے کام لینا بھی کارگر اقدام ہوگا۔
امید ہے کہ اس ضمن میں اجتماعی طورپر اقدامات ہوں گے ۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا