یہی سڑک بن جاتی ہے حادثا ت کا باعث

0
85

عبدالباسط
سرنکوٹ،پونچھ

’’میرے والد محترم کی چند دن پہلے آچانک طبعیت ناساز ہو گئی تھی۔ انہیں ڈاکٹر کے پاس پہنچانے تک ہمیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ہمارے گھر سے تقریباً ایک گھنٹے سے زیادہ سفر جو عیدگاہ مرہوٹ بس اڈہ، جہاں پر چھوٹی سی ڈسپنسری بھی ہے وہاں تک ہمیں پیدل چلنا پڑتا ہے اور ہمیں رات کے تقریبا ایک بجے مقامی لوگوں کو گھر گھر سے نیند سے بیدار کرنا پڑا اور پھر والد صاحب کو چار پائی پر اٹھا کر لایا گیا۔ جب عیدگاہ مرہوٹ کے ہسپتال میں پہنچے تو اس وقت وہاں پر کوئی ڈاکٹر موجود نہیں تھا اور وہاں جو ہسپتال کی طرف سے ایمبولینس تھی وہ بھی ہمیں نہیں دی گئی۔ جس کی مدد سے ہمارا مریض وقت پر سرنکوٹ ہسپتال تک پہنچ سکے کیوں کہ جب ہم نے ایمبولینس مانگی تو ڈرائیور نے یہ کہتے ہوئے ہمیں صاف طور پر انکار کر دیا کہ سڑک کی ایسی حالت میںمیں رات کے وقت اس پرسے ہرگز جانے کو تیار نہیں ہوں۔ پھر ہم نے کسی طرح لوکل ڈرائیور سے رابطہ کر کے اس کی گاڑی ہائر کی اور صرف نو کلومیٹر کا ہم نے اسے دو ہزار کرایہ اداکیا۔

لیکن پھر بھی ہم اس ہسپتال تک بھی وقت پر نہ پہنچ سکے کیونکہ ڈھائی بجے ہم وہاں پر پہنچے تب کوئی ڈاکٹر وہاں پر موجود نہیں تھا پوری رات میرے والد تکلیف سے لڑتے رہے اور صبح جب ڈاکٹر آئے تو انہوں نے دیکھتے ہی بولا کہ ان کی حالت زیادہ خراب ہو گئی ہے۔ انہیں راجوڑی میڈیکل لے جائے۔ یہ ساری چیزیں سڑک کی خستہ حالت کی وجہ سے ہوئیں۔ اگر سڑک صحیح ہوتی تو ہمیںوقت پر ایمبولنس مل جاتی۔ ہم والد صاحب کوجلدی اسپتال لے آتے اور رات کو ہی ان کا کچھ نہ کچھ بہترعلاج کیا جاتا۔ ہمیں اتنا خرچہ نہ اٹھانا پڑتا اور دوسری ڈسٹرکٹ میں نہ جانا پڑتا۔ ‘‘یہ کہنا ہے گاؤں ہاڑی کے ایک محلہ کلس مسوری کے سجادنامی 27سال کے مقامی شخص کا۔یہ گائوں جموں کشمیر کے سرحدی ضلع پو نچھ کے سرنکوٹ میں واقع ہے۔جہاں کی سڑک کی حالت ایسی ہے کہ کبھی بھی کوئی حادثہ پیش آسکتا ہے۔
میں عرصہ دراز سے سوچ رہا ہوں کہ کب ہم بھی اس خستہ حال سڑک کی محرومی سے آزاد ہوں گے اور راحت کی سانس لیں گے؟ مجھے انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ آج کے اس جدید دور میں جہاں انسان زمیں پر بیٹھ کر چاند پر چندریان کو چلا رہا ہے اور سورج پر اپنے مشن بھیج رہا ہے اور گھر بیٹھ کر دنیا بھر کی سیر کر رہا ہے اور ہر وہ کام بآسانی کر رہا ہے جو ناممکن لگتا تھا۔وہیں کچھ جگہیں ایسی بھی ہیں جہاں آج تک لوگ سڑک سے بھی محروم ہیں۔یہ سڑک سرنکوٹ سے ہاڑی مرہوٹ کی طرف جاتی ہے اور انتہائی خراب حالت میں ہے۔جہاں آئے دن حادثات کا باعث بنتی ہے۔ یہ سڑک صرف ہاڑی مرہوٹ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ مختلف علاقہ جات اس میں آتے ہیں جس میں گاؤں رجاڑھہ، ڈوڈی اور اوپر ہاڑی وغیرہ بھی شامل ہیں ۔
سڑک کی اس خستہ حالت سے پریشان ہو کر گاؤں ہاڑی اور رجاڑھہ کے کچھ مقامی باشندوں نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سڑک ہمارے لئے جان لیوا بنی ہوئی ہے۔ آئے دن یہاں حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ سال 2019 میں ایک بھیانک حادثہ میں ایک ماں نے اپنا بیٹا کھودیا تھا۔اسی طرح گاؤں ہاڑی مرہوٹ کے کچھ طلباء جن کا نام عبدالواب،محمد آصف اور محمد زاہد ہے،جو گورنمنٹ ڈگری کالج سرنکوٹ میں زیرِ تعلیم ہیں، ان کا بھی کہنا ہے کہ ہم ہر دن سڑک کی خستہ حالی کی وجہ سے بڑی مشکل سے کالج تک پہنچتے ہیں ۔کئی بار اتنی دیر ہو جاتی ہے کہ ہماری دو کلاسز مس ہو جاتی ہیں اور سب سے زیادہ مشکل ہمارے لئے یہ بنی ہوئی ہے کہ سرنکوٹ کا کرایہ تیس روپے تھا۔لیکن دوران کورنہ اس کاکرایہ بڑھا کر چالیس روپیہ فی سواری کر دیاکیا گیا تھا۔جوکرونا ختم ہونے کے بعد بھی آج تک کم نہیں کیا گیا۔ آج ڈرائیور جتنا من کرتا ہے سواری بٹھاتے ہیں اور کرایہ پورا چالیس روپے لیتے ہیں۔
ان طلبہ نے بتایا کہ ایک بار ہم تین چار لڑکوں نے مل کر ڈرائیور سے بات کی ہم نے بولا کہ اب کرونا بھی نہیں ہے، سواریاں بھی آپ جتنا من چاہے اتنی بٹھاتے ہو، پھر 40 روپے کس بات کی اور ہم تو اسٹوڈنٹ ہیں ہمارا کرایہ تو کم ہونا چاہیے؟ ڈرائیور نے ہمیں جواب دیا کہ شکر کرو ایسی سڑک پر ہم اپنی گاڑی لے آتے ہیں ورنہ اس جان لیوا سڑک پر کون گاڑی لاتا ہے ؟یہ بات سن کر ہم بھی خاموش ہو گئے ۔ اب ہم بھی اتنا کرایہ دے کر جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بات تو اس ڈرائیورکی بھی صحیح ہے۔ پھر یہاں گاڑی بھی کون لائے گا؟ اسی حوالے سے گاؤں ہاڑی کے سابق سرپنچ قاضی محمد اکرم کہتے ہیںکہ ’’واقع ہی سڑک کی اس خستہ حالی سے عوام کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔میں نے خود بھی سڑک کے حوالے سے ضلع انتظامہ سے کافی بار بات چیت کی ہے لیکن اس کا کوئی مثبت حل نہیں نکلا۔اگر عصر حاضر کی عکاسی کی جائے تو جہاں دنیا بھر میں لوگوں کو گورنمنٹ نے طرح طرح کی سہولیات سے نوازا ہے وہیں گاؤں ہاڑی کی سڑک کی یہ حالت کیوں؟ آخر کب تک ہم لوگ محرومیوں کا شکار رہیں گے۔
آج ہاڑی، مرہوٹ اور ڈوڈی، رجاڑھہ کی غریب عوام جہاں آج سے ستر سال پہلے تھی وہی کھڑی ہے۔ نہ کوئی سہولیات نہ کوئی مددگارایسے میں کیسے یہاں کے نوجوان تعلیم کے زیور سے آرستہ ہوں؟ کیسے آئے گی یہاںتبدیلیاں؟ کیسے غریب کو بھی جینے کا حق ملے گا؟کیسے بیمار انسان کو جلد از کسی اچھے ہستپال وقت پر پہنچایا جائے گا؟ اس سڑک پر گاڑی چلانے والے ایک ڈرائیور مقصود احمد ملک نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس سڑک پر جب گاڑی چلاتے ہیں تو یقین مانو گھر سے ہم یہی سوچ کر آتے ہیں کہ پتہ نہیں کب کیا ہو جائے، کیونکہ یہ سڑک ایسی ہے کہ دن کو بھی بہت سارے حادثہ ہوتے رہتے ہیں اور دوسری چیز یہ کہ اس سڑک پر گاڑی صرف ایک ہفتے چلانے کے بعد ہی ہمیں سروس کرانی پڑتی ہے۔ اسی لیے ہم کرایہ 40 روپے لیتے ہیں کیونکہ ایک تو تیل بھی مہنگا ہے اور پھر گاڑیوں کا نقصان بھی بہت ہوتا ہے۔ ٹائر کی بہت بری حالت ہو جاتی ہے۔ تو ہمیں ہر ہفتے کے بعد گاڑی کی سروس کرانی ہی پڑتی ہے۔ تب جا کر ہم اس سڑک پر دوبارہ آسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ اس وقت ملک میں سڑکوں کی کل لمبائی 6,215,797کیلو میٹر ہے۔ جو امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی ہے۔اس میں دیہی علاقوں کی سڑکوں کا سب سے اہم رول ہے۔ اس وقت ملک میں 4,535,511کیلومیٹر دیہی سڑکیں ہیں جو کل سڑکوں کا قریب 73فیصدی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں دیہی سڑکوں کی کیا اور کتنی اہمیت ہے۔دیہی سڑکوں کی تعمیر کا کام پردھان منتری گرام سڑک یوجنا (پی ایم جی ایس وائی)کے تحت کیا جاتا ہے۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ آخر ہاڑی مرہوٹ کی سڑک کو اس اسکیم سے اب تک محروم کیوں رکھا گیا ہے؟کیونکہ اگرترقی کا سب سے اہم ذریعہ بہتر سڑک ہے تووہیں خستہ حال سڑک حادثا ت کا باعث بن جاتی ہے۔(چرخہ فیچرس)
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا