مغرب کے طلباء کا اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج اور مظاہرہ

0
73

۰۰۰
ریاض فردوسی
9968012976
۰۰۰
جلتے گھر کو دیکھنے والو پھونس کا چھپر آپ کا ہے
آگے پیچھے تیز ہوا ہے آگے مقدر آپ کا ہے
اس کے قتل پے میں بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا
میرے قتل کے تم بھی چپ ہو اگلا نمبر آپ کا ہے
نواز دیوبندی
زندہ قومیں کسی طرح سے،کسی طریقے سے ظالم اور اس کے ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کرتی ہیں۔
مشہور سائینس داں نیوٹن کے حرکت کے تیسرے کلیہ کے مطابق ہر عمل کا یکساں اور مخالف ردعمل ہوتا ہے۔
7 اکتوبر 2023ء کو حماس نے اسرائیل پر جو حملہ کیا تھا، جس میں تقریبا ایک ہزار کی تعداد میں لوگ مارے گئے،اس کو اگر نیوٹن کے کلیہ کا عمل تسلیم کر لیا جائے تو ردعمل میں اسرائیل کی طرف سے کم از کم اسی تعداد میں فلسطینیوں کو مارا جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ آج کی تاریخ میں پچاس ہزار(50000) کے قریب فلسطینی مسلمان بشمول مرد، عورت اور زیادہ تر معصوم بچے شہید کر دیے گیے۔اس سے واضح ہے کہ اسرائیل کے طرف سے اٹھایا گیا قدم قدرت کے قانون کا انحراف کرکے کیا گیا،یہ ایک فطری ردعمل بالکل نہیں تھا، بلکہ ایک غیر مناسب لامحدود انتقام تھا۔اگر ایسا ہوتا تو آج تک جنگ جاری نہیں رہتی بلکہ دو چار دنوں کے بعد ہی جنگ ختم ہو جاتی اور ہزاروں لوگوں کی جانیں نہیں جاتی،لیکن جس طرح سے جنگ مسلسل جاری ہے اور اسرائیل جس بربریت سے مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023 کے واقعہ کو محض ایک بہانہ بناکر فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کا عزم کر لیا ہے اور آخر میں مسجد اقصیٰ کو شہید کرکے ھیکل سلیمانی تعمیر کرنے کا ارادہ ہے۔
ویسے حماس کے طرف سے اسرائیل پر جو حملہ کیا گیا وہ ایک احمقانہ قدم تھا اور حیرت کی بات ہے
ہم میں سے کسی نے بھی حماس کو قصوروار نہیں ٹھرایا۔(میں نے ایک مضمون اس پر لکھا تھا کہ””کیا ہم سے چوک ہوگء ہے؟””
تو بعض محترم علماء اکرام نے مجھ پر کفر کا فتویٰ تک عائد کر دیا)آج کی تاریخ میں تمام مسلمان دیکھ رہے ہیں کہ کوئی بھی ایک مسلم ملک اسرائیل کے خلاف جنگ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دنیا کے تمام مسلمانوں کی دلی خواہش تھی کہ تمام مسلم ممالک متحد ہو کر اسرائیل کے خلاف کاروائی کرتی لیکن یہ آرزو پوری نہیں ہوئ،لیکن حماس جیسی ایک جہادی تنظیم نے ایک نیوکلیائی ملک پر حملہ کر دیا اور یہ بھی نہیں سوچا کہ اس کے کیا سنگین نتائج برامد ہوں گے،آپ سبھی جانتے ہیں کہ جنگ احد میں مسلمانوں کی جو شکست ہوئی تھی اس کے لیے اللہ تعالی نے ان پچاس (50)تیر اندازوں کو ذمہ دار ٹھرایا جنہیں حضور اکرم نے ایک پہاڑی مقام سے ہٹنے سے منع فرمایا تھا لیکن وہ لوگ مال غنیمت جمع کرنے کی خاطر اپنی جگہ سے ہٹ گیے جس سے مسلمانوں کی جنگ احد میں شکست ہوئی۔ اس جنگ میں ستر صحابہ کرام شہید ہوئے،آحضور کا دندان مبارک شہید ہو گیا اور چہرہ مبارک زخمی ہوگیا۔اللہ تعالی نے صحابہ کرام کے جس گروہ کو قصور وار ٹھرایا وہ جنگ کے بالا مذکورہ منفی نتائج کی وجہ سے ٹھرایا لیکن افسوس کی بات ہے کہ حماس کے حملہ کے بعد اسرائیل کی جوابی کارروائی سے جو منفی نتائج فلسطینی مسلمانوں کے لیے نکلے ہیں اسے دیکھ کر بھی ہم حماس کو کلین چٹ دے رہے ہیں۔
بہر کیف جس طرح سے اسرائیل روزانہ فلسطینی مسلمانوں پر تشدد اور ظلم کر رہا ہے اس سے یہ واضح ہے کہ اسرائیل کا پلان کچھ اور ہے۔اسرائیل کے وزیراعظم کو بار بار یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک وہ حماس کو مکمل برباد نہیں کر دیتا۔زبانی طور پر تو اسرائیل کے وزیر اعظم کا اصل نشانہ حماس ہے لیکن حقیقت میں اس کا حدف فلسطینی عوام ہے۔ اسرائیلی یرغمالیوں کے رشتہ داروں کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں اسرائیلی وزیراعظم نے صاف کہا ہے کہ جنگ کے تمام مقاصد حاصل کیے بغیر جنگ بندی کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔فلسطینی عوام نے سات(7) اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ نہیں کیا تھا تو پھر کیوں اسرائیل روزانہ فلسطینی عوام کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ اسرائیل کا ارادہ سات اکتوبر کا بدلہ لینا نہیں ہے بلکہ اس واقعہ کے بہانے فلسطین کے مسئلہ کا حل اس طرح کرنا چاہتا ہے کہ نہ رہیں گے فلسطینی عوام اور نہ ہی وہ فلسطین کا مطالبہ کریں گے۔
نا رہے گی بانس،نا بجے گی باںسوری۔
اب جو باتیں منکشف ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ دونوں کو پتہ تھا کہ حماس اسرائیل پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔اسرائیل سوچ رہا تھا کہ اگر یہ حملہ ہو جاتا ہے تو ہمارا نقصان زیادہ تو نہیں ہوگا لیکن ہمیں ایک موقع مل جائے گا کہ فلسطین کا مسئلہ ہی ختم کر دیں گے اور دوسرا یہ کہ ہم دنیا کو بتایں گے کہ اسرائیل پر ایک دہشت گردانہ حملہ ہوا ہے۔
اس سے دنیا کی ہمدردی ہمارے طرف مبذول ہو جائے گی اور لوگ حماس کی مذمت کریں گے اور پھر ہم کو جوابی حملہ کرنے کا جواز مل جائے گا،اور اس حملے میں ہم غزہ پٹی کو خالی کرا لیں گے اور دو ریاستی فارمولا حل کا معاملہ ہی ختم کر دیں گے۔
اسرائیل کو یہ بھی معلوم تھا کہ اس جوابی حملہ کے خلاف میں جہادی تنظیموں کی طرف سے ردعمل بھی آ? گا اور جب آئے گا تو اسے بھی دیکھ لیں گے،اور ساتھ ہی ساتھ ایران بھی Provoked ہو جائے گا۔یہ تھی اسرائیل کی پلاننگ۔
(یہ 9/11 کی طرح کی پلاننگ تھی جس کے بہانے سے دہشت گردوں کو پناہ دینے والا ملک امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا)
لیکن اسرائیل کا یہ سارا حساب و کتاب الٹا پڑ گیا۔اسرائیل نے جس طرح سے غیر مقاتلین ( Non Combatants) خاص کر بچوں کو اپنے ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا،اسپتالوں کو بموں سے اڑایا اس کے خلاف شدید ردعمل آیا لیکن یہ ردعمل صرف اور صرف مسلم ممالک سے نہیں آیا بلکہ مغربی دنیا کے بیشتر ممالک سے آنے شروع ہو گیے اور اسرائیل پر فلسطینیوں کی نسل کشی (Genocide) کے الزام لگنے لگے،اس کے خلاف پوری دنیا میں نعرے لگنے لگے، احتجاج ہونے لگے اور جنگ بندی کے لیے آوازیں بلند کرنے لگیں۔یہ مزاحمت مسلمان،عیسائی اور خود یہودی عوام الناس اور خواص کی طرف سے آنے لگے۔اسرائیل نے ایسے زبردست ردعمل کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا،اس نے سمجھا تھا کہ سارے لوگ مردہ ہی ہو چکے ہیں،لیکن ہر قوم میں اچھے لوگوں کی تعداد موجود ہے۔یہ سب دیکھ کر دہشت گرد ملک اسرائیل سوچ میں پڑ گیا۔اس نے سوچا تھا کہ سارے کا سارا ردعمل ہمارے حق میں ہوگا لیکن ردعمل اس کے خلاف ہونے لگا۔ Public Opinion اسرائیل کے خلاف ہونے لگا۔اب اس نے Rethinking شروع کی۔اب لوگوں کا دھیان ہٹانے کے لیے اسرائیل نے ایران کو اکسانے کی بات سوچنے لگا۔اس نے ملک شام میں ایران کے Embassy پر حملہ کیا،Embassy پر حملہ ملک پر حملہ کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔سفارت خانے پر حملہ ہونے سے ایران ادھیڑ بن میں پڑ گیا۔ایران سمجھ رہا تھا کہ یہ اسرائیل کی چال یے کہ ایران جنگ کے میدان میں کودے تاکہ امریکہ ایران کے خلاف اسرائیل کا ساتھ دے۔ایران بھلے ہی پردے کے پیچھے سے اسرائیل کے خلاف حماس اور حزب اللہ کی مدد کر رہا تھا لیکن وہ بلاواسطہ جنگ میں شریک ہونا نہیں چاہتا تھا،لیکن اسرائیل کے حملے سے ایران کو اپنی شناخت برقرار رکھنے اور اپنی عزت بچانے کے لیے اسرائیل پر تین سو میزائلوں سے حملہ کیا لیکن اس حملہ میں اسرائیل کو کوئی جانی نقصان نہیں ہوا،ایک بھی بندہ نہیں مرا، ایران کے نینیانوے فی صد میزائلوں کو Iron dome نے تباہ کر دیا۔اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ ایران کا ایک ڈراما تھا اور اس ہونے والے ڈراما کی خبر امریکہ کو غالباً تھی۔اسرائیل کا پلان آدھا کامیاب ہوا اور آدھا کامیاب نہیں یوا کیونکہ اسرائیل ایران کو جنگ میں ملوث کرنے میں ناکام ہو گیا۔اس پورے گیم میں صرف مظلوم فلسطینی مسلمانوں کا غیر معمولی جانی او مالی نقصان ہوا،ہاں فلسطین کا مسئلہ جو پہلے مشرق وسطیٰ کا مسئلہ تھا ستر سالوں میں دوسری جنگ عظیم کے بعد اب ایک عالمگیر مسئلہ (Global Issue) بن گیا۔
دنیا بھر کے نوجوان طبقہ کی ہمدردی اسرائیل سے ہٹ کر فلسطین کے طرف منتقل ہو گیی۔حالیہ دنوں میں کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ نے فلسطینی عوام کے حق میں زبردست مظاہرے کیے۔طلبہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ امریکی یونیورسٹییز ایسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری بند کر دیں جو اسراییل کی فوجی لحاظ سے مدد کرتی ہو۔مسلم ممالک کے مسلمان جو ترکی اور ایران کو اپنا مسیحا سمجھ رہے تھے ان دونوں ممالک کے ساتھ کل ستاون ملکوں کی مجبوری بے چارگی اور لاچاری دیکھ کر مسلمان خوابوں کی دنیا سے باہر آ گیے ہیں اور تھوڑی بہت حقیقت پسند بن گئے ہیں،مسلمان بھی سمجھ گئے کہ ایران اور ترکی کی دھمکی محض دھمکی ہے،میدان میں لڑنے کی طاقت بالکل نہیں ہے۔
اس وقت دنیا میں مسلمانوں کے پاس دو طرح کی قیادتیں ہیں ایک سیاسی قیادت اور دوسری مذہبی قیادت۔سیاسی قیادت کم و بیش مسئلہ کا حل کے لیے اس نتیجہ پر پہونچ چکی ہے کہ مصالحت کا طریقہ ہی صحیح طریقہ ہے اور ابھی بھی اسی کو اختیار کر لینا چاہیے۔سیاسی قائدین جنگ و جدال کے نتیجے دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہونچے ہیں۔ دوسری جانب مسلمانوں کی مذہبی قیادت کم و بیش دنیا بھر میں یہ سمجھتی ہے کہ ہم جنگ سے فلسطین کا مسئلہ کا حل کر سکتے ہیں۔مذہبی علماء کا یہ خیال ہے کہ ہم جنگ کریں گے اور اللہ تعالی کی نصرت ہمارے ساتھ ہوگی۔یہ دونوں ہی راستے انبیاء علیہم السلام نے بھی اختیار کیے۔جب طاقت کا موقع آیا تو طاقت کا استعمال کیا،نہیں ہے تو مصالحت کا طریقہ استعمال کیں۔سیاسی قیادت یہ سوچتی ہے کہ عالمی سطح پر پہلی جنگ عظیم میں مسلمان شکست کھا گئے۔اب جب تک طاقت کا توازن تبدیل نہیں ہو جاتا اس وقت کسی بھی جگہ مسلمانوں کے لیے مصالحت کے سوا اور کوئی متبادل راستہ بھی نہیں ہے۔
فلسطین کا مسئلہ کوئی علاقائی مسئلہ نہیں ہے،یہ دو ریاستوں کا بھی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ عالمی قوتوں کا مسئلہ ہے۔ عالمی قوتوں نے اسرائیل کو وجود بخشا ہے۔اقوام متحدہ کا ادارہ اس کو تسلیم کر چکا ہے۔اسرائیل کے خلاف کی گئی جنگ ایک ملک یا ریاست کے خلاف جنگ نہیں ہے، بلکہ یہ جنگ َعالمی نظم کے ساتھ ہے۔ہم اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ عالمی قوتوں کے ساتھ جنگ کریں۔ سیاسی قیادت اس حالات سے اچھی طرح سے واقف ہے۔اس لیے اس کے فیصلے بارہاں اسی مصالحت کے اصول پر مبنی ہوتی ہے۔
موجودہ زمانے میں جنگ کی نوعیت بالکل تبدیل ہو گیی ہے۔ یہ کوئی پانی پت کے میدان میں تلواروں اور توپوں سے لڑی جانے والی جنگ نہیں ہے۔اب جو جنگ ہوتی ہے وہ بہت ہی مہلک ہتھیاروں سے ہوتی ہیں،اس لییجب جنگ ہوگی تو اس میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوگی،اس میں لوگ مرے گیں،بلڈنگیں، مکانات برباد ہوں گے۔جنگ لڑنے والے لوگ اخلاقیات کی پرواہ نہیں کریں گے،شہر کا شہر ویران ہو جائے گا،چاروں طرف لاشیں ہی لاشیں نظر آئیں گی۔
یہ سب کچھ ہوگا۔
اس لیے جنگ میں کودنے سے پہلے ملکوں یا جہادی تنظیموں کو جنگ کے متوقع اور غیر متوقع نتائج سے باخبر رہنے کی ضرورت ہے،جنگ میں ہونے والے نقصانات کا تلافی ہو پائے گا یا نہیں اسے بھی بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔جنگجو ملکوں کو اپنی حربی اصلحہ پر نظر ثانی کرنی ہوگی،جیت اگر خوب غیر یقینی ہو تو جنگ سے پرہیز کرنے میں بھلائی ہے۔بالفرض اگر جنگ ہو بھی جائے تو جنگ کے جو آداب و قوانین ہے اس کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔ جنگ میں دونوں فریقین پابند ہیں کہ وہ اخلاقی حدود سے تجاوز نہیں کریں گے۔جنگ کرتے وقت ہم ان آداب کا خیال رکھیں گے جو ہمیشہ سے طے ہیں،اس وقت بھی دنیا میں طے ہیں۔مثال کے طور پر ہم غیر مقاتلیین کے خلاف کوئی اقدام نہیں کریں گے۔ہم شہری آبادی کے خلاف کوئی اقدام نہیں کریں گے،ہم بچوں اور عورتوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کریں گے۔اس میں اگر کوئی تجاوز ہوتا ہے،حدود سے آگے بڑھ کر کوئی چیز ہوتی ہے تو یہ سراسر ظلم ہے،اسے دنیا کو بتایا بھی جائے گا۔اس پر احتجاج کرنا بھی بالکل حق ہے،لیکن یہ بات کے جنگ میں نقصان نہ ہو یہ بات بالکل ممکن نہیں۔
لاشوں کے ڈھیر نہیں لگے یہ بھی ممکن نہیں۔
آخر میں!
امام حسین علی جدہ و علیہ السّلام کی وصیت!
امام حسین رضی اللہ عنۃ نے مدینے سے مکہ کی طرف روانگی کے وقت یہ وصیت نامہ لکھا،اس پر اپنی مہر ثبت کی اور اپنے بھائی محمد حنفیہ رضی اللہ عنہ کے حوالے کیا۔
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔یہ وصیت حسین ابن علی کی طرف سے بھائی محمد حنفیہ کے نام۔
حسین توحید و یگانگت پروردگار کی اور اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے عبد اور اس کے رسول ہیں اور نبی کریم ائین حق (اسلام) الل کی طرف سے لوگوں کے لئے مبعوث ک? گ? ہیں اور بہشت و دوزخ حق ہے۔
روزِ جزا بغیر کسی شک کے وقوع پذیر ہوگا اور الل? وحد? لا شریک تمام انسانوں کو اس دن دوبارہ زندہ کرے گا‘‘۔
امام حسین رض الل عن نے اس وصیت نامے میں توحید و نبوت و معاد کے بارے میں اپنا عقیدہ بیان کرنے کے بعد اپنے سفر کے مقاصد اس طرح بیان فرمائے:
’’میں خود خواہی یا سیر و تفریح کے لئے مدینہ سے نہیں نکل رہا اور نہ ہی میرے سفر کا مقصد فساد اور ظلم ہے بلکہ میرے اس سفر کا مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ اپنے اس سفر کے دوران امت کے مفاسد کی اصلاح کروں۔اپنے جد امجد رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قوانین اور ان کی سنتوں کو زندہ کروں اور اپنے پدر بزرگوار علی کرم اللہ وجہ اور ان سے قبل خلفاء ثلاثہ کا راستہ اور ان کا طرز عمل کو اپناوں،
پس جو شخص یہ حقیقت قبول کرتا ہے(اور میری پیروی کرتا ہے) اس نے گویا اللہ کے راستے کو قبول کیا اور جو شخص بھی میرے اس ہدف اور میری اس ارزو کو رد کرتا ہے(میری پیروی نہیں کرتا) میں صبر و استقامت کے ساتھ اپنا راستہ اختیار رکھوں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میرے اور ان افراد کے درمیان فیصلہ کردے گا اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا اور حاکم مطلق ہے۔ بھائی یہ میری وصیت اپ کے لئے اور ہر صالح اور نیک بندوں کے لئے ہے اور اللہ تعالیٰ سے توفیق کا طلبگار ہوں اور اسی پر توکل کرتا ہوں اور اسی کی طرف میری بازگشت ہے‘‘

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا