کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق

0
81

۰۰۰
: قاری ایم عالم فرقانی
مقیم: جدہ سعودی عرب
۰۰۰
مکاتب کی تعداد روز بروز بڑھتی ہی جارہی ہے جس کو دیکھو وہی مکتب کھولنے کے لیے بے چین و بے قرار ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد امت مسلمہ پر ایک ایسا دور آیا جس میں اہل علم و قلم کی خوب آزمائشیں ہوئیں۔ ان کے اقتصادی و معاشرتی زندگی کو مفلوج کرنے کی سازشوں کے شور ہر سو اٹھنے لگے۔ بے دست و پا کرنے کے سارے ہتھکنڈے اپنائے جانے لگے۔ جس سے نبرد آزما ہوکر علماء حق نے چپہ چپہ میں مکاتب کی داغ بیل ڈالی۔جس کا مقصد امت محمدی کو تعلیم سے روشناس کرانا تھا۔ اس وقت کے بانیان مکاتب نے مخلصانہ طور پر اپنے جگر کے خون خاص سے سینچا تھا۔ چونکہ الحاد و لادینیت سر چڑھ کر بول رہی تھی۔ ایمانی قومیں و دینی بصیرت کو مسخ کرنے کے لئے بڑی چابک دستی سے اغیار کے ذریعہ عمل میں لایا جارہا تھا۔ وحدانیت کی جڑ اْکھاڑ پھینکنے کی منظم سازشیں رچ جارہی تھیں۔ اسلام دشمن ساری طاقتیں و صلاحیتیں بیجا استعمال کی جارہی تھیں۔ شرعی حرارت و حلاوت کے سارے نقوش حتمی ختم کرنے کی تدبیریں استقرار پکڑ چکی تھیں۔ لیکن ایسے پرفتن و بربریت کے دور کو ہمارے اکابر علمائے حق نے بھانپ لیا اور منہ توڑ جواب دینے میں کوئی بھی کسر باقی نہیں رکھی۔ سر پر کفن باندھ کر شیر ببر کی طرح میدان میں کود پڑے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کی ملحدوں کے کمر ایسے ٹوٹے کہ بیساکھی بھی کام نہ آ سکی۔ کیونکہ اکابرین کی نگاہیں دوربین تھیں۔ اور مکاتب کے قیام کو عمل میں لانا صرف اور صرف ایمان کی حفاظت و نگہبانی کرنی تھی۔ دہریوں کے حملوں کا جواب علمی و عملی انداز میں دینا مقصد تھا۔ لیکن افسوس صد افسوس: آج لوگوں نے مکاتب کو ذریعہ معاش سمجھ رکھا ہے۔ کمائی کا مرکز بنا رکھا ہے۔ ان مکتبوں کے نام سے فصلی چندہ اصولنے کو اپنا نصب العین سمجھتے ہیں۔ مکاتب کے نام پر قوم و ملت کے زکوٰۃ و صدقات پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ اللہ ایسے نظمائے مکاتب کے حرام خوری سے محفوظ فرمائے۔ میں نے اپنی سابقہ تحریر میں ضلع مہراج گنج کے ایک مشہور و معروف دینی علمی و اصلاحی ادارہ دار العلوم فیض محمدی کا ذکر کیا تھا۔ جس کے بانی ایشیا کے مشہور عالم دین ، قاطع شرک و بدعت ، باطل کی چھاتی پر پرچم حق لہرانے والا۔ دہریوں یا ملحدوں کا جم کر مقابلہ کرنے والا۔ فیض محمدی جیسے گلشن کو اپنے خون سے سیراب کرنے والا ، علمی آہنی دیوار کھڑا کرنے والا، حوادثات زمانہ کے تھپیڑوں کو مسکرا کر جواب دینے والا۔ مردہ دلوں میں روح پھونکنے والا، طالبان علوم نبْوّت میں قرآن و حدیث متعارف کروانے والا۔ مظلوموں کے ٹیستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھنے والا اسلام کی آن بان شان جناب قاری محمّد طیب القاسمی ہیں۔ اللہ قاری صاحب کو صحت و تندرسی سے نواز دے۔ ویسے تو مہراج گنج میں اور بھی ادارے ہیں۔ بلڈنگیں بھی ہو سکتا ہو ذکر کرد مدرسے سے زیادہ بڑی اور خوب صورت ہوں۔ ان میں کچھ مدرسے ایسے بھی ہیں جو آزادی سے پہلے قائم کیے گئے تھے۔ لیکن آج سسکیاں لینے پر مجبور ہیں۔ عمارت تو پرشکوہ ہے لیکن طلباء کی تعداد نہیں کے برابر ہے۔ تعلیمی خدمات سے بھی کوسوں دور ہیں۔ لیکن جہاں تک فیض محمدی کا معاملہ ہے تو یہ کیسی فرد بشر سے مخفی نہیں۔ قاری صاحب نے بڑی محبت و مودت سے تعمیر کیا اور آج حال یہ ہے کہ نہ بچوں کی کمی ہے اور نہ اساتذہ کی۔ جہاں تک معاملہ ہے تعلیم کا چاہے دینی تعلیم ہو یا دْنیاوی تعلیم تو میں پورے ہوش و حواس کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس سے اچھی پڑھائی تو میرے ضلع میں کہیں دیکھنے کو شاید ملے۔ جن لوگوں نے سو سو سال سے کچھ نہیں کیا قاری صاحب نے محض چند سالوں میں کر کے دکھا دیا۔ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پتا نہیں کیوں جب اچھے ادارے کی بات آتی ہے تو میں جذباتی ہو جاتا ہوں۔ اور حق کی کھل کر بے باکی کے ساتھ تائید کرتا ہوں۔ لوگ مجھے کوسے کوستے رہیں ، میری ذات پر کیچڑ اچھالے اچھالتے رہیں۔
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق۔
بہر حال ہمارے علاقے میں کچھ مکاتب ایسے بھی ہیں جن کا رمضان میں خوب چندہ ہوتا ہے۔ روداد اور رسیدیں کلرفل، جبکہ کیفیت یہ ہے کہ ان مکتبوں/مدرسوں میں ایک بھی بچے زیرِ تعلیم نہیں ہوتے ہیں۔ ناظم صاحب سارا پیسہ سونس کی طرح ڈکار لیتے ہیں، اور جب کسی دینی محفل میں جاتے ہیں تو باتیں اتنی دینی ہوتی ہیں مانو کوئی فرشتہ آسمان سے اتر کر زمین پر آگیا ہو۔ اللہ ایسے بھی علمائ￿ سو سے حفاظت فرمائے جو انسانی لبادہ اوڑھ کر دھوکہ دے رہے ہیں۔ شناخت کر کے ایسے لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ ان کے خلاف تقریر /تحریر نہیں بلکہ تحریک چلائی جائے، ان کی دسیسہ کاری کو منظر عام پر لایا جائے۔ ان کو مجرمین کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ میں بلا مبالغہ کہتاہوں کہ قوم کی زکوٰۃ کو غلط طریقے سے استعمال کرنے والے علماء سوء ہی کی وجہ سے اللہ کی مدد نہیں آرہی ہے۔ ان کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے ہی آج مسلم ذلیل و خوار ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا