کیا گاؤں کے لیے ہسپتال ضروری نہیں ہے؟

0
0

گایتری
لنکرنسر، راجستھان

وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن یکم فروری کو 2024-25 کا بجٹ پیش کریں گی۔ جس میں دیگر بنیادی شعبے کے ساتھ ساتھ سب کی نظریں اس بات پر بھی ہوں گی کہ صحت کے شعبے میں کتنا بجٹ مختص کیا گیا ہے؟ درحقیقت کسی بھی قوم کی خوشحالی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کے باشندے کتنے صحت مند ہیں۔ کیونکہ اگر صحت اچھی ہوگی تو جسمانی نشوونما کے ساتھ ذہنی نشوونما بھی بہترہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً ہر سال بجٹ کے دوران صحت کے شعبے میں فنڈز میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ سال 2023-24 کے بجٹ میں صحت کے شعبے کے لیے 89,155 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے جو کہ پچھلے بجٹ سے 13 فیصد زیادہ ہے۔ دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے پر بھی خصوصی زور دیا جا رہا ہے۔نیشنل ہیلتھ مشن کی ویب سائٹ پر دیے گئے دیہی صحت کے اعداد و شمار 2020 کے مطابق ملک میں کل 15921 سب ہیلتھ سنٹر، 30813پرائمری ہیلتھ سنٹر، 5649 کمیونٹی ہیلتھ سنٹر، 1193 سب ڈویژنل ہسپتال اور 810 ضلعی ہسپتال ہیں۔آر ایچ ایس کے مطابق ملک بھر میں بالترتیب 24 فیصدسب ہیلتھ سنٹر، 29 فیصد پرائمری ہیلتھ سنٹر اور 38 فیصد کمیونٹی ہیلتھ سینٹرز کی کمی ہے۔حالانکہ ایک خوشی کی بات یہ ہے کہ اس وقت ملک میں10453پرائمری ہیلتھ سنٹر ایسے بھی ہیں جو ہفتے میں 24 گھنٹے اپنی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے زیادہ مراکز صحت ہونے کے باوجود دیہی علاقوں میں قائم ہیلتھ سنٹر کی حالت ابتر کیوں ہے؟ کیا خستہ حال، بے سہارا، غیر فعال اور اکثر مردہ مراکز صحت پر انحصار کرنے سے دیہی علاقوں کے لوگوں کی صحت بہتر ہو سکتی ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ ان پرائمری ہیلتھ سنٹر میں نرسیں یا ہیلتھ ورکرز صرف ویکسینیشن کے لیے اور بعض خاص مواقع پر کاغذی کارروائیوں کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ باقی دنوں میں یہ ہیلتھ سنٹر مکمل طور پر ٹھپ رہتا ہے۔ جہاںنہ کوئی ڈاکٹر ہے اور نہ ہی کوئی اور سہولت میشر ہوتا ہے۔ایسے میںگائوں والے مجبوری میں جھولا چھاپ ڈاکٹروں کے پاس جاکر اپنی صحت اور پیسہ برباد کرتے ہیں۔ بعض اوقات انہیں اس کی وجہ سے اپنی جان بھی گنوانی پڑتی ہے۔ دیہاتیوں کو بلاک میں واقع پی ایچ سی جانے کے لیے طویل فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ یہ درست ہے کہ حکومت کے پاس ڈیلیوری اور فیملی پلاننگ کے لیے بلاک سطح پر اچھے انتظامات ہیں۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں، بچہ اور ماں دونوں محفوظ اور صحت مند گھر لوٹتے ہیں۔ ایمبولینس کی سہولت موجود ہے۔ آشا دیدی بھی گھر گھر جا کر حاملہ خواتین کی صحت کی حفاظت کے بارے میں معلومات دیتی ہیں۔ لیکن عملی طور پر دیہی علاقوں میں چلنے والے بہت سے صحت مراکز ایک دھوکے سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔تاہم ملک کے کچھ دور دراز دیہات ایسے بھی ہیں جہاں ہسپتال کے نام پر ایک پرائمری ہیلتھ سنٹر لوگوں کے لیے زندگی بچانے والے سے کم نہیں۔ لیکن کئی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے گاؤں والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسا ہی ایک بنیادی صحت مرکز راجستھان کے بیکانیر ضلع کے لنکرنسر بلاک کا بنجروالی گاؤں ہے۔ تقریباً 400 کی آبادی والے اس گاؤں میں ایک پرائمری ہیلتھ سنٹرکام کر رہا ہے۔ جہاں لوگوں کو صحت سے متعلق بہت سی سہولیات میسر ہیں۔ اس سلسلے میں گاؤں کے ایک نوجوان میگھوال رام کا کہنا ہے کہ اس گاؤں کا نام بنجھر برادری کے نام پر پڑا ہے جو ایک درج فہرست قبائل اور انتہائی غریب طبقہ ہے۔ تاہم، اس کے علاوہ، اس گاؤں میں اونچی ذات کے لوگ بھی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس گاؤں میں حکومت کی طرف سے ایک بنیادی صحت مرکز فراہم کیا گیا ہے۔ لیکن ایک طرح سے یہ نامکمل ہے کیونکہ ہسپتال میں سہولیات تو ہیں لیکن ڈاکٹر تعینات نہیں۔ ایسے میں یہ ہسپتال نامکمل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر ہفتے میں صرف ایک بار یہاں آتے ہیں۔ ایسے میں دوسرے دنوں میں اگر گاؤں والوں کو صحت سے متعلق مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انہیں بلاک لنکرنسر یا بیکانیر کے بڑے اسپتال جانا پڑتا ہے۔
گاؤں کے ایک اور نوجوان منیرام کا کہنا ہے کہ 2014 میں گاؤں کے تقریباً 84 فیصد لوگ ویکسینیشن سے محروم تھے کیونکہ گاؤں کے بنیادی مرکز صحت میں ویکسینیشن دینے کے لیے کوئی عملہ موجود نہیں تھا۔ جن خاندانوں کے پاس وسائل تھے وہ حفاظتی ٹیکے لگوانے شہر گئے لیکن بیشتر غریب اس سے محروم رہے۔ اگر یہاں بھی ڈاکٹر دستیاب ہوتے تو گاؤں والوں کو اس قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ گاؤں کی 17 سالہ لڑکی کومل کا کہنا ہے کہ اس گاؤں میں ہیلتھ سنٹر تو ہے لیکن اس میں مکمل سہولیات نہیں ہیں۔ ڈاکٹر کی عدم موجودگی کی وجہ سے علاج نہیں ہو پا رہا ہے۔ حاملہ خواتین کو اس میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ اس اسپتال میں نارمل ڈلیوری ہوتی ہے لیکن اگر ڈلیوری کے دوران کوئی مسئلہ پیش آجائے تو خاتون کو ضلع اسپتال لے جانا پڑتا ہے جو اس گاؤں سے تقریباً 3 گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔ اگر ہسپتال میں دیگر سہولیات کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کی مستقل بحالی ہو جائے تو لوگوں بالخصوص خواتین، بوڑھوں اور نومولود بچوں کے علاج معالجے کی بہت زیادہ سہولیات میسر آئیں گی۔تاہم اسپتال میں تعینات نرس کملیش کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ آٹھ سالوں سے گاؤں کے اس اسپتال میں تعینات ہیں۔وہ بتاتی ہیں کہ اس ہسپتال میں ہر قسم کی سہولیات میسر ہیں۔ بچوں کو خصوصی ویکسینیشن دی جاتی ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ یہاں مستقل طور پر کوئی ڈاکٹر تعینات نہیں ہے جس کی وجہ سے گاؤں والوں کو علاج کرانے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر ایمرجنسی کے دوران گاؤں کے غریب لوگوں کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ اپنی سطح پر لوگوں کا علاج کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے باوجود ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ کام نہیں کر پا رہی ہیں۔ تاہم، سہولیات کی دستیابی گاؤں میں ہسپتال کی دستیابی سے ختم نہیں ہوتی، سب سے اہم بات اس میں ڈاکٹر کی تعیناتی ہے۔ جس پر حکومت اور محکمہ صحت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف ہسپتال بنانے سے حکومت اور محکمہ کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے؟ کیا گاؤں میں تمام سہولیات سے آراستہ ہسپتال ہونا ضروری نہیں ہے؟ (چرخہ فیچرس)

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا