بینام گیلانی
وزیر اعلٰی نتش کمار اور تیجسوی یادو کی راہیں الگ ہو چکی ہیں۔امکان غالب ہے کہ جب آپ قارئین اخبارات میں اس مضمون کا مطالعہ کر رہے ہوں گے نتش کمار اپنی اکثریت پیش کر چکے ہوں گے یا پھر اقتدار کی کرسی سے اتر چکے ہوں گے۔نتش کمار کی اس جدائی کی سب سے بڑی ذمہدار کانگریس پارٹی ہی کے سر جاتی ہے اور کسی کے سر نہیں۔ کانگریس کی تاریخ رہی ہے کہ جب بھی حزب مخالف کا اتحاد قائم ہوا۔اس خود غرض پارٹی نے محض اپنے مفاد کیلئے اس اتحاد کو پاش پاش کر کے رکھ دیا ہے۔اس سے سدا بی جے پی کو فائیدہ ہوا ہے۔کانگریس در اصل آج بھی احساس برتری کی شکار ہے۔یا پھر بی جے پی اور کانگریس میں خفیہ معاہدہ ہوا ہو کہ قومی طور پر یا ہم یا تم۔دوسرا کوئی نہیں۔جس طرح بی جے پی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ "کوئی ایسا سگا نہیں جسے اس نے ٹھگا نہیں”.یہ بات بی جے پی ہی کی طرح کانگریس پر بھی صادر آتی ہے۔جب لالو یادو مسند اقتدار پر براجمان تھے اور آپ کی شریمتی سونیا گاندھی سے بہت زیادہ بن رہی تھی۔اسی وقت کانگریسیوں پر احساس برتری کا بھوت سوار ہوا اور کانگریس نے لالو جی کی جڑیں کاٹنا شروع کر دیا۔نتیجہ کے طور پر لالو جی کے ہاتھوں سے عنان اقتدار جاتا رہا۔یہی حال کانگریس نے ملائم سنگھ یادو اور اکھیلیش یادو کے ساتھ بھی کیا۔کئی انتخاب میں کانگریس اور سماج وادی پارٹی میں اتحاد ہوا لیکن عین وقت پر کانگریس کو اپنی برتری کا جنون سوار ہوا اور سیٹوں کی تقسیم کی بنیاد پر دونوں کا اتحاد ختم ہو گیا۔ ایسا کئی دفعہ عمل پزیر ہوا۔کانگریس پارٹی جس کے ساتھ اتحاد کرتی ہے اسی کے جڑیں کھودنا شروع کر دیتی ہے۔سماج وادی پارٹی کے ساتھ بھی اس نے ایسا ہی کیا۔یہی سبب ہے کہ اب کوئی بھی سیاسی جماعت اس سے اتحاد کرنے کی قائل نظر نہیں آتی ہے۔اس کے کئی اسباب ہیں۔اول یہ کہ اسے آج بھی احساس برتری ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت ساری ریاستیں ایسی ہیں جہاں اگر یہ تنہا انتخاب میں اتر جائے تو ایک دو سیٹ لانا بھی محال ہو جائے۔ناچیز کو حیرت اس امر پر ہے کہ درج بالا حقیقت سے آگاہ کانگریس پارٹی بھی ہے اور کئی دفعہ تجربے سے گزر بھی چکی ہے۔ پھر بھی احساس برتری کی شکار ہے۔اس کی اسی فطرت کے باعث بار بار بی جے پی فتحیاب ہو رہی ہے۔کیونکہ کانگریس جب بھی کسی اتحاد سے ہٹتی ہے۔تو عین وقت پر ہٹتی ہے۔تاکہ اس اتحاد کو پھر کچھ کرنے یا خود کو استحکام دینے کا موقع ہی نہیں ملے۔یا اگر کسی طرح اتحاد میں رہی اور وہ اتحاد کسی طرح کامیابی سے ہم کنار ہوا تو بعد میں اسی اتحاد میں شامل جماعتوں کی پشت میں خنجر زنی کرنے لگتی ہے۔اس کی یہی فطرت ابھی تک اسے اقتدار سے دور رکھے ہوئے ہے۔اب بہار ہی میں لے لیا جائے۔بہار میں کانگریس کی کیا حیثیت ہے۔یوں تو اس کے 14 ارکان اسمبلی ہیں لیکن یہ کس طرح جیت کر آئے یہ بات کہیں ڈھکی چھپی نہیں ہے۔یہ تو اب ہندوستان کی ہر ریاست میں بیساکھیوں کے بل پر ہی چل رہی ہے۔لیکن صد افسوس وہ اس بیساکھی کو ہی توڑنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔جس کا انجام ہوتا ہے کہ وہ اتحاد ہی ختم ہو جاتا ہے۔جس کے بل پر کانگریس کچھ سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔اگر کانگریس یہ تصور کرتی ہے کہ وہ ہندوستان کی سب سے پرانی پاٹی ہے اور آج بھی بہت مضبوط و مستحکم پارٹی ہے تو وہ بہار میں تنہا انتخاب لڑ کر دکھائے۔چودہ تو بہت دور کی بات ہے چار سیٹ لانا بھی محال ہو جائیگا۔لیکن کانگریس آج بھی ماضی میں جی رہی ہے۔کیونکہ اس کا حال ناگفتہ بہ ہے۔ادھر کچھ ماہ سے یہ اپنے ماضی کے احیا کے لئے کوشاں ہے۔اس نے بھارت جوڑو یاترا نکالی جس میں ہیرو کے طور پر راہول گاندھی کو پیش کیا گیا۔کسی حد تک اسے کامیابی بھی ملی۔مذکورہ یاترا میں کچھ لوگ اس کے ساتھ ائے۔ہر جگہ ایک جم غفیر نظر آیا۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس یاترا کے بل پر کانگریس اپنا گم گشتہ وقار دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی۔ہے۔لیکن اس کے بعد جو چار ریاستوں میں اسمبلی انتخاب عمل پزیر ہوا اس سے مایوسی ہی حاصل ہوئی۔
یہ جو بہار کے وزیر اعلیٰ نتش کمار نے ایک دفعہ پھر کروٹ لی ہے یعنی انہوں نیجو بی جے پی سے پھر اتحاد کیا ہے۔یہ بھی کانگریس ہی کے سبب ہوا ہے۔وہ یوں کہ جب نتش کمار I.N.D.I.A کی تشکیل کے لئے بہت زیادہ کوشاں نظر ائے۔ان کے متعلق یہ بھی کافی مشہور تھا کہ آپ وزارت عظمیٰ کے خواہش مند ہیں۔بلکہ یوں کہ لیا جائے کہ آپ کا اگلا ہدف وزارت عظمیٰ ہی ہے۔ایسے میں موصوف کی حرکات و سکنات سے اندازہ لگانا کوئی مشکل امر نہیں تھا۔لیکن صرف کانگریس ہی نہیں اس اتحاد میں تمام پارٹیوں کے سربراہان انہیں سمجھنے سے قاصر رہے۔پھر کانگریس اپنی فطرت کے مطابق خود کے قدیم اور بڑی پارٹی ہونے کے زعم میں کنوینر کا عہدہ حاصل کر گیا۔جبکہ اس عہدے کے شدید متمنی وزیر اعلیٰ نتش کمار تھے۔کونکہ ان کے کنوینر ہونے سے ان کے وزارت عظمیٰ کے دعوے کو تقویت ملتی۔اس کا سبب یہ ہے کہ یہ عام فہم امر ہے کہ جو بھی I.N.D.I.A اتحاد کا کنوینر ہوگا امید قوی ہے کہ وہی وزیر عظم عہدے کا دعویدار ہوگا۔بس اسی نکتے نے نتش کمار کو عظیم اتحاد سے تعلق ترک کرنے کو مجبور کیا۔کیونکہ موصوف کو یہ یقین ہو گیا کہ کانگریس ان کے خواب کو تعبیر سے ہم کنار نہیں ہونے دیگی۔ دوسری جانب نتش کمار کو یہ بھی یقین ہو گیا کہ کانگریس خود انہیں I.N.D.I.A اتحاد پر حاوی نہیں ہونے دے گی۔چنانچہ مایوسی و محرومی کے عالم میں بغیر انجام پر غور و خوض کئے بڑی ہی تعجیل میں نتش کمار اتنا بڑا قدم اٹھا بیٹھے۔جس سے بہار کا انتخاب متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔یہاں بی جے پی نے بھی بہار کے ووٹ کو منتشر کرنے کے لئے یہ بڑی سازش رچی۔اگر نتش کمار اس عظیم اتحاد میں شامل رہتے تو بیشتر ووٹ یکطرفہ طور پر اسی عظیم اتحاد کو جاتا۔کیونکہ مسلمانوں کی پسندیدہ دونوں ہی پارٹیاں(راجد اور جد یو)یکجا ہوتیں چنانچہ ایک بھی مسلم ووٹ کسی اور کو جانے کا سوال ہی نہیں تھا۔اب چونکہ راجد بھی اسی عظیم اتحاد کا حصہ تھا اور نتش کمار تو بزات خود اس اتحاد کے سربراہ تھے۔سو کرمی اور یادو کا بھی ووٹ ادھر ادھر ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا۔نتیجہ کے طور پر بہار کی بیشتر سیٹیں عظیم اتحاد کی جھولی میں گرنے کے قوی اور پختہ امکانات روشن تھے۔اس ووٹ کو بکھیرنے کے لئے نتش کمار کو ٹوٹنا ناگزیر تھا۔سو بی جے پی نے انہیں عظیم اتحاد سے توڑنے میں کامیاب ہوئی۔اس ٹوٹنے میں کانگریس کے احساس برتری نے اہم کردار ادا کیا ہے۔لیکن صرف کانگریس کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہوگا۔اس میں راجد کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لالو جی کو اب اپنے مزید زندہ رہنے کا یقین نہیں رہا۔شاید یہی سبب ہے کہ وہ اب بلا تاخیر تیجسوی یادو کو تخت نشیں دیکھنا چاہتے ہیں۔نتش کے عظیم اتحاد سے ہٹنے کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے۔جب I.N.D.I.A اتحاد قائم ہو ہی گیا تھا۔تب لالو یادو کو کم از کم قومی انتخاب کا انتظار تو کرنا ہی چاہئے تھا۔پھر لالو جی اس قدر بھی اپنی زندگی سے مایوس کیوں ہیں۔وہ کل ہی تھوڑے فوت ہونے جا رہے ہیں۔خود تیجسوی یادو کو بھی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے کچھ صبر و ضبط سے کام لینا چاہئے تھا۔لیکن معلوم نہیں کیوں دونوں ہی باپ بیٹے کے سر پر اقتدار کا بھوت سوار ہو گیا۔جبکہ اقتدار کی ساری سہولت تیجسوی کو حاصل تھی۔پھر تیجسوی نائب وزیر اعلیٰ بھی تھے۔اس کے باوجود وہ کچھ ماہ مزید انتظار نہیں کر سکے۔انجام کار بالکل ہی اقتدار ہاتھوں سے نکل گیا۔اقتدار تو جانے کا گیا ہی۔
اب ED کا عذاب بھی سر پر آن پڑا ہے۔یوں تو لالو خاندان اور ED کا معاملہ پرانا ہے۔لیکن جیسے ہی نتش عظیم اتحاد سے الگ ہوئے ED کی کاروائی میں شدت پیدا ہو گئی۔ویسے بھی بقول اروند کیجریوال مودی جنرل الکشن سے قبل تمام بڑے بڑے حزب مخالف کے لیڈران کو ED وغیرہ کے ذریعہ جیل میں ڈالنے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں اور جو مشاہدے میں آرہا ہے وہ بھی اسی بات کی شہادت دے رہا ہے۔
benamgilani@gmail.com