کم یاب سماجی کارکن نایاب غریب پرور

0
0
شفیع احمد قاسمی
روز مرہ کی طرح جمعہ کی شام جب افتاب غروب ہوا، تو اس نے تنہا اپنی رو پوشی نہیں کی، بلکہ مشرقی چمپارن کے معروف علاقہ چندن بارہ کے ایک در نایاب کو ہماری نگاہوں سے رو پوش کر دیا، وہ چندن بارہ اور اس کے اطراف و اکناف کے لیے وقت کے مسیحا سے کم نہ تھے ، اس سے میری مراد ہر دل عزیز جناب اکرام الحق صاحب رحم اللہ علیہ ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ، ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ، غم و اندوہ کی اس سخت گھڑی میں ہم ان کے اہل خانہ کے ساتھ برابر کے شریک ہیں ، وہ سابق سرپنچ و سیکریٹری مدرسہ مظہر العلوم چندن بارہ تھے، مرحوم بے مثال ا?دمی تھے، خاموشی ان کے چہرے سے عیاں تھی، ملنسار و با اخلاق تھے، بے حد متواضع اور خدمت گزار تھے، ہر ایک سے ٹوٹ کر محبت کر تے تھے، نرم دلی اور نرم خوئی کے وہ خوگر تھے، ان کے اخلاق کے دسترخوان پر خدمت خلق گل سرسبد کی حیثیت رکھتی تھی، ان کی زندگی کے ہر پہلو سے خلق خدا کی خدمت نمایاں ہوتی تھی، جیسے دنیا میں وہ اسی مشن کو لیکر ائے تھے، اور دن رات خدمت خلق ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، ان کی خدمات کا دائرہ صرف چندن بارہ تک ہی محدود نہیں تھا،  بلکہ اطراف و مضافات کے علاقوں کو بھی اپنی خدمات سے سیراب کرتے تھے، ایک لمبے عرصے تک اپنے علاقے کا سرپنچ رہ کر بھی خدمات انجام دیں، کچھ دنوں سے وہ اس پدھ پر براجمان نہیں تھے، لیکن کبھی بھی خلق خدا کی خدمت سے منہ نہیں موڑا ، علاقے کا کوئی بھی پیچیدہ مسئلہ درپیش ہو، جاکر اس کی گتھیوں کو سلجھاتے، خاندان اور کنبے میں اپسی ناچاقی ہوگئی ہو، ان میں صلح صفائی کراتے۔
مدرسہ مظہر العلوم کی ذمہ دار ی
چندن بارہ مشرقی چمپارن کا ایک زر خیز علاقہ ہے، وہاں ایک قدیم ادارہ مدرسہ مظہر العلوم واقع ہے، جو علاقہ اور اطراف و اکناف میں اپنا علمی فیضان نچھاور کر رہا ہے، اس ادارہ کے فیض یافتگان کی خاصی بڑی تعداد ہے، جو خدمات دین میں مصروف عمل ہیں، غالباً اس کے بانی بھی حضرت مرحوم کے باء  واجداد ہی تھے ، ادارہ کی دیکھ ریکھ اسی خاندان کے ذمہ تھی ، چنانچہ مرحوم نے بھی ایک لمبے عرصے تک مدرسہ ہذا کی خدمت کی ، اور تقریباً  بیس بائیس سال تک سیکرٹری رہے، اور ان کے زمانہ اقتدار میں کافی ترقی بھی ہوئی، خصوصاً تعمیراتی ترقی خوب ہوئی ،مدرسے کی جانب مغرب  ایک بوسیدہ کھپڑیل کی کچی عمارت تھی ، اسے منہدم کرا گیا ، پھر وہاں مکمل ایک بلڈنگ بن کر کھڑی ہوگئی، جو برسہا برس تک  ان کی یادگار رہے گی، اور ان کی خدمت کی منہ بولتی تصویر بنی رہے گی۔
مطب سے خلق خدا کی خدمت کا انوکھا کارنامہ
حالیہ دنوں مہنگائی نے اچھے اچھوں کی کمر توڑ دی ہے، اس وقت گھر چلانا مشکل ہی نہیں بہت ہی دقت طلب کام ہے ، پھر دوائیوں کی گرانی کا کیا پوچھنا، وہ تو اس پر مستزاد ہے، خدا اس زمانے میں کسی کو ڈاکٹر کا منہ نہ دیکھائے، اس زمانے میں ڈاکٹرز مہذب ڈاکووں سے کم نہیں ہیں، بڑی تہذیب سے لوٹتے ہیں، اور کسی کو شبہ تک نہیں ہوتا، تعجب ہے، کہ مرحوم بھی اسی پیشہ سے وابستہ تھے، لیکن وہ کسی مسیحا سے کم نہیں تھے، خدمت خلق کا ایسا جذبہ کارفرما تھا، کہ ان کا مطب ان کے لئے ذریعہ معاش نہ تھا، بلکہ مخلوق خدا کی خدمت کا دفتر تھا ، اس سمان چھوتی مہنگائی میں وہ کسی کو دوا دیتے ، تو عموماً دس پندرہ روپے کے درمیان کی ہوتی تھی، اور کسی کو اس سے بھی کم پیسے کی دوا دیتے تھے اور شاید ہی کسی کو  چالیس پچاس روپے کی دوا دیتے ہوں۔
راقم الحروف کو ایک مرتبہ گردن کی تکلیف عود کر ا?ئی ، یہ شکایت مجھے بیت العلوم کے زمانہ تدریس میں ہوئی تھی، علاج کے لئے پہلے اعظم گڑھ پھر بنارس گیا ،ایک معروف و نامور ڈاکٹر کو دیکھایا ، پہلی مرتبہ میں پچیس سو روپے کا بل بن گیا، یہ واقعہ اج سے تقریباً دس سال پہلے کا ہے، اس خطیر رقم کی کتنی اہمیت ہوسکتی تھی ، اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے ،پندرہ دن بعد دوبارہ پھر پندرہ سو روپے کا بل ا?یا، لیکن مکمل شفا نہ ہوسکی ،البتہ بیماری کا اس قدر زور اب نہیں رہا ، پھر اپنے وطن مالوف بھاگلپور میں دو الگ الگ مشہور ڈاکٹرز سے معائنہ کرایا ، ان سے بھی پندرہ بیس دن علاج و معالجہ کرایا ، تاہم یہاں بھی شفا ندارد ، بالاخر صوبہ بہار کی راجدھانی پٹنہ میں ایک ڈاکٹر سے علاج و معالجہ کیا ، الحمدللہ یہاں مکمل شفا یابی ہوگئی تھی ، ایک عرصے کے بعد پھر گردن کا وہ  درد لوٹ ایا ، سیکریٹری صاحب سے بتایا ، انہوں نے دوا دی ، پہلی مرتبہ دوا بے اثر ہوگئی ، میں نے دوسری جگہ سے دوا لی ، جو تقریباً دو سو کچھ روپے کی ہوئی، اور یہ دوا بھی اس قدر قیمتی ہونے کے باوجود شفا یابی میں بے قیمت ثابت ہوئی، بالاخر دوبارہ سیکریٹری صاحب کے استانہ پر حاضری دی ، اور سارا ماجرا کہہ سنایا ، دو ایک مرتبہ اپ سے دوا لی ، پھر ایک ادھ مرتبہ باہر سے ٹرائی کیا ، لیکن شنوائی نہیں ہوئی ،  انہوں نے تسلی دی ، فرمایا ، اچھا گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے ، دو تین دن میں ایک دوا منگوا کر دیتا ہوں ، ان شائاللہ شفا  ہوجائیگی، لیکن میرا ذہن و دماغ یہاں کے علاج سے مایوس ہوچکا تھا، بغرض علاج پٹنہ جانے کی پوری تیاری کر رکھی تھی ، بعض احباب سے اس کا تذکرہ بھی کردیا تھا ،صرف اتنا انتظار تھا ،کہ سیکریٹری صاحب کی دوا  دو ایک دن کھا کر ا?زما لوں ، چنانچہ دوا ا?ئی، دو ایک دن استعمال کیا ،خدا نے اس دوا میں جادوئی اثر رکھا تھا ، دو چار خوراک کھاتے ہی درد اس طرح غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ ، حیرت ہوگی ، جب اپ کو اس جادوئی اثر دوا کی قیمت معلوم ہوگی، پوری دوا صرف پچاس سے ساٹھ روپے کی تھی، (خدا ان کو اپنی شایان شان جزا و بدلہ عطا فرمائے) خدا ہی جانتا ہے کہ اس طرح کے کتنے واقعات ہونگے ،جو لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں، اور یہ ان کے تجربات اور فن طبابت سے گہرے لگاوکی بین دلیل ہے، واضح رہے کہ دو چیزیں الگ الگ ہیں ، ایک تو خدا نے ان کے ہاتھ شفا رکھی تھی، بسا اوقات  بیماری بڑی ہوتی ،وہ دوا تجویز کرتے ، اور ادھر بیماری رفو چکر ہوجاتی، یہ بھی ایک خصوصیت ہے، لیکن اس فن کے ماہرین اور بھی ہیں، دوسریایک چیز ہے، دوا ارزاں اور سستی فروخت کرنا، اس میں مرحوم کو امتیازی خصوصیت حاصل ہے، اس زمانے میں جس کے ہاتھ میں شفا کی تاثیر ہے ، وہ اس فن سے اپنی دنیا سنوار لیتے ہیں، اور مرحوم نے اس پیشے سے اپنی دنیا اراستہ و پیراستہ نہیں کی، بلکہ صرف اور صرف خدمتِ خلق کی، اور بس ، اس سے انہوں نے اپنی اخرت کی ذخیرہ اندوزی کی ،
اسی کا نتیجہ تھا کہ کتنوں کو وہ مفت دوا دے دیتے، ایک ادھ مرتبہ راقم الحروف کو بھی اس کا اتفاق ہوا ہے ، اور ان کی سخاوت و فیاضی کی چھینٹیں مجھ تک بھی پہونچی ہیں، دوا لیکر میں نے پوچھا ، کتنے پیسے ادا کرنے ہیں ، فرمایا ، جائیے پیسے نہیں دینے ہیں،  میں اپنی معلومات کی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ میرے سامنے کبھی سو روپے کی دوا کسی کو نہیں دی ہے ، اسی بناء پر مخلوق خدا ان کی طرف رجوع کرتی تھی ، بعد نماز مغرب ان کے مطب پر کسی قدر ہجوم ہوتا تھا، مرحوم نے سات دھائی سے کچھ زیادہ عمر پائی ، اورغریب پروری میں اپنی بیمثال خدمات سے لوگوں کو فیضیاب کیا ، اور اپنے پیچھے دو بچے جمیل احمد، خطیب احمد اور ایک بچی چھوڑی ، اور بفضلہ تعالیٰ سب شادی شدہ اور برسرِ کار ہیں، دعا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں اپنے بے مثال والد کے نقش قدم پر گامزن فرمائے ، اور اپنا بنا کر رکھے مین
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا