چلیں آئیں مناتے ہیں دائمی میلاد النبی

0
0

سید ام ہانی بنت اسماعیل

ابھی کچھ سالوں سے ہماری مسلمان قوم میں عید میلاد النبی بہت زور و شور سے منائی جا رہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم عید میلادِ نبی کیوں منا رہے ہیں؟ جو لوگ یہ مناتے ہیں وہ یہ دعویٰ پیش کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ اب سوال یہ کہ کیا ہم صحیح میں محب رسول ہیں؟ یا ہم پھر ایک رواج کے طور پہ مناتے ہیں۔ رسم کے طور پر۔
کچھ افراد کا یہ کہنا ہے کہ عید میلاد نبی منانا بدعت( وہ چیز جو آپ کے زمانہ مبارک کے بعد دین میں ایجاد ہوئی ہو ) ہے یہ نہ ہی کسی صحابہ نے منائی اور نہ ہی ۰۰۸ ھجری سے پہلے کسی نیک شخصیت نے۔۔!!! لیکن اب زمانہ بدل رہا ہے اور لوگوں کے ذہن بھی۔! تو اس بدلتے زمانے کو دیکھ کر لوگوں کو کے دین کی طرف بلانا اور اللہ کے رسول کی زندگی سے وابستہ کرنا یہ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کیونکہ اصل ہدایت کا مرکز میرے نبی کی حیات مبارکہ ہی ہے۔۔ تو اگر ہم معاشرے میں ایسے کام کریں جو شریعت کے ممنوع اعمال سے بالکل پاک ہو اور کسی کام کو دین سمجھ کر بالکل نہ کیا جائے تو یہ بہتر ہے۔ لیکن مومن کا کوئی بھی فعل دین سے جدا نہیں ہوتا اس کا اٹھنا بیٹھنا غرض کے ہر افعال ہی احکام الہء سے مستور ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ عیدمیلادالنبی کے دن ہم اگر خصوصاً کچھ کرتے ہیں تو وہ مکمل احکام الہٰی کے تابع ہو۔ لیکن اگر کوئی اسے نہ منا? تو ہم اس پر لازم بھی نہیں کرسکتے ہیں کہ آپ کو یہ خصوصی یوم منانا ہی ہے کیوں کہ دین اسلام میں اس کی کوئی روایت انبیائ اور صحابہ کرام سے ثابت نہیں۔
مندرجہ بالا سطروں سے یہ بات واضح ہوئی کہ ایک اسلامی و اصلاحی معاشرے کی تکمیل کے لیے ہم عید میلاد النبی منائیں لیکن اگر کوئی نہیں منا رہا تو اسے لعن طعن کرنے سے بھی گریز کریں کیونکہ یہ اعمال ہمارے خود کے ایجاد کیے ہو ہیں اور ہمیں اپنے بھائی بہنوں کو تبھی روک ٹوک کرنی چاہیے جب وہ شریعت کے خلاف جائیں۔
اب ہمارے چند حضرات کا کہنا یہ ہے کہ عید میلاد النبی منانا بدعت ہے لیکن اگر ہم غور کریں تو وہ ہمارے منانے کے طریقے سے بیزار ہے اگر ہم صحیح طور سے منایں تو کسی کی کیا مجال کہ ہمیں روک ٹوک کریں۔ ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کوئی تمہارے عیب بتاتا ہے تو گویا وہ تم پہ احسان کرتا ہے تو کوئی ہمیں روک ٹوک کر رہا تو ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا ہمارے منانے کا طریقہ صحیح ہے۔
آئے اب ہم آگے کی سطروں میں اپنے آس پاس کے ماحول کی طرف نظر ڈالتے ہیں کہ ہمارے یہاں عید میلاد النبی کس طرح منائی جا رہی ہے۔ ہمارے یہاں ربیع الاول آتا ہے تو جگہ جگہ لائٹ سے گلی محلے سجا جاتے ہیں اور ہمارے حضرات اس طرح لائٹینگ سے گلی محلے کو روشناس کرنے کے پیچھے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جب آقا کی ولادت ہوئی تب چاند تارے بھی حضرت عبدللہ کے گھر کی طرف جھک گئے تھے۔ اس لیے ہم بھی لائٹینگ لگاتے ہیں اور اپنی گلیاں سجاتے ہیں۔ اب آپ ہی اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر پو چھے کہ یہ کتنی ناگوار اور ناقابل قبول دلیل ہے۔ یہ چند فرقوں کی سب سے ناگوار اور دین میں بدعت ایجاد کرنے والی عادت یہی رہی کہ یہ لوگ اپنے خود کے ایجاد کیے ہو اعمال و رسومات کو لوگوں کے سامنے دین بتا کر پیش کر دیتے ہیں اور پھر خود کو صحیح بتانے کے لیے پیچھے سے من گھڑت دلائل ڈھونڈتے ہیں؛ آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر پوچھیے کہ اللہ کے رسول ہوتے تو کیا وہ ہمارے ان امور کو پسند کرتے۔ کیونکہ میرے نبی تو اخلاقی معیار کی اعلیٰ مثال اور سادگی پسند تھے۔ کیا وہ ان لائٹینگ اور تزک و احتشام کو پسند کرتے؟ کیونکہ میرے نبی کی شخصیت تو ان مصنوعی اور بناوٹی چیزوں سے یکسر بیزار تھی اور لائٹینگ لگانا ، تعزیہ داری کرکے مکہ مدینہ کے ماڈلس بنانا، جلوس نکالنا، محض ایک تفریحی عمل ہے اور فضول خرچی کا مرکز ہے۔ آج ہم نے فضول خرچی بہت عام کردی ہے ہم اپنے ذاتی کاموں میں تو فضول خری کرہی رہے ہیں۔ لیکن ہم نے بے وقوفی کی انتہا کرکے ان فضول خرچی کو دین میں بھی ایجاد کردیا ہے اور اس طرح فضول خرچی کو ثواب کا کام سمجھ بیٹھے ہیں اور اس طرح کرنے سے ہمیں بدعت اور فضول خرچی دونوں کا عتاب ہوگا۔قرآن کریم میں سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالی نے فرمایابے شک فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں* اور سورہ اعراف میں اللہ نے فرمایا کہ اللہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اس لیے یاد رہے مسلمانوں آپ کے پاس جتنا بھی مال و رزق ہے وہ اللہ کی عطا ہے وہ چاہے تو پل میں چھین بھی سکتا ہے اور ہمیں اپنے ایک ایک روپیہ کا حساب روز قیامت اللہ کو دینا ہے تو ذرا سوچیے روز قیامت اللہ نے سوال کر دیا کہ جہاں لوگ بھوکے مر رہے تھے , قوم کے بچے مالیاتی مسائل کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر پا رہیتھے اور اسپتال میں لا علاج بیماریوں کی وجہ سے مریضوں کا برا حال تھا تو وہاں تم اپنے مال کو لگانے کی بجائے فضولیات میں پانی کی طرح خرچ کر رہے تھے۔ آج بھی ہندوستان اور کئی ممالک میں غریبی سر چڑھ کر بول رہی ہے آج بھی اگر سروے کیا گیا تو کئی لوگو کے کھانے کے لالے پڑے ہو? ہیں۔آج بھی کئی مریض اسپتال میں تڑپ رہے ہیں۔ اوسطاً لوگوں کی تنخواہ مہانہ ۰۰۰۳ سے بھی کم ہے اس لیے ہماری ہدایت والی کتاب قرآن کریم میں کئی مقامات پر *نطعم المسکین* کا ذکر کیا گیا ہے کہ مسکینوں کو کھانا کھلایا جا? اور اللہ کی راہ میں فی سبیل اللہ خرچ کریں . تو ذرا غور کریں ہم نے قرآن و سنت کو کس قدر پس پشت ڈال رکھا ہے اور ان نئے نئے رسومات کو دین سمجھ بیٹھے ہیں !
تو یہ تعزیہ داری کرنے والے لائٹنگ لگانے والے ان سے میں یہ کہنا چاہوں گی کہ ان ہی پیسوں کے بدلے اپنے آس پاس کے مسکینوں کا خیال کیا جائے اور ان کی مدد کی جا تو یہ اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی کے لیے سب سے خوبصورت عمل ہے اور یہ صرف اس مہینے میں یا اس ایک دن نہ کیا جاے بلکہ یہ اپنے قیمتی وقت میں وقت نکال کر کچھ ایسا نظام بنایا جائے کہ ہم کس طرح ہر مہینہ اپنا اور محلے کے مالدار حضرات کا پیسہ غرباء و مساکین میں پہنچا چلیں آئے اسطرح مناتے ہیں میلاد النبی کہ ہم اپنا مال ایسے کاموں میں لگا جہاں اللہ اور اس کے رسول نے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے
تعزیہ داری کرنے اور لائٹنگ لگانے اس نکتے پر بات ختم ہوئی اب ہم دوسری طرف نظر ڈالیں تو ہمارے یہاں اور کس طرح میلاد النبی منائی جارہی ہے اب ہمارے یہاں اسکول ، کالج و بڑے بڑے مدارس میں اس دن بڑے بڑے پروگرام و محفلوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے آئیے دیکھتے ہیں یہ کہاں تک صحیح ہے اگر ہم غیر مسلم اور مغربی تہذیب پر نظر ڈالیں تو یہاں ہر شخص کی بڑائی بیان کرنے کے لیے اور ہر کسی کی عظمت پر روشنی ڈالنے کے لیے لوگوں نے ایک ایک دن مختص کر رکھا ہے جیسے برتھ ڈے،فادر ڈے، مدر ڈے اور ٹیچر ڈے وغیرہ جبکہ اسلام میں ہر پل اپنے ماں باپ اور اساتذہ کے ساتھ حسن سلوک ، ادب و احترام اور اپنے مومن بھائی بہنوں اور عزیزوں کے ساتھ وفاداری اور اخلاقیات پر زور دیا گیا ہے جیسے وہ سال میں ایک دفعہ مدر ڈے و فادر ڈے وغیرہ مناتے ہیں جبکہ ہم دن میں پانچ دفعہ نماز میں سورہ ابراہیم کی آیت نمبر ( پروردگار، مجھے اور میرے ماں باپ اور سب ایمان والو کو بخش دے جس دن حساب قائم ہوگا ) پڑھتے ہیں تو اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور ہم قرآن و سنت پر نظر ڈالیں تو ہمارا دین اخلاقیات سے معمور ہے۔
لیکن یہاں لوگوں نے ایک دن مختص کر رکھا ہے۔ اسطرح ہر شخص کی عظمت و بڑائی کو دنوں پر مختص کرنا غیر مسلموں کا شیوہ اور اس زمانے کا ٹرینڈ ہے لیکن سب سے بڑا المیہ کا مقام یہ ہے کہ ہم دھیرے دھیرے یہ سب چیزوں کو دین میں شامل کر رہے ہیں یہاں اب ہر کوئی آقائے مدنی ? کی یوم پیدائش پر یا اسی مہینے آپ کی عظمت و بڑائی بیان کر رہا ہے۔آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر پوچھیے کیا میرے نبی اس ایک دن یا ایک مہینے کے لیے ہیں۔ بالکل نہیں میرے نبی تو پل پل کے لیے ہیں لمحے لمحے کے لیے ہیں ہمارا ہر لمحہ ان کی غلامی میں ہونا چاہیے۔ یہاں لوگ جلوس نکالتے ہیں تو اس کے پیچھے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں سورہ ضحیٰ میں اللہ نے فرمایا واما بنعمتی رب فحدث( اور جو نعمتیں ہیں تمہارے رب کی اسے خوب بیان کرنا ) چونکہ آقا ، اللہ کی طرف سے سب سے عظیم نعمت ہے اور اس دن آقا دنیا میں تشریف لائے اس لیے ہم جلوس نکال کر اس نعمت کو بیان کرتے ہیں اور چرچا کرتے ہیں۔ اب حضرات ذرا یہ سوچیں کہ قرآن میں کوئی خاص دن یا کوئی خاص مہینے تو بیان یا چرچا کرنے کیلیے تو نہیں کہا گیا۔اور لائٹنگ وغیرہ یہ اس جدید زمانے کی ایجاد ہے لیکن یہ جلوس نکالنا تو صحابہ کے زمانے میں بھی ممکن تھا کیونکہ الم، جھنڈیاں اس زمانے میں بھی تھیں۔ تو پھر ان شخصیات نے اس طرح نعمت کا بیان کیوں نہیں کیا ؟ پھر ان صحابہ کا سورہ ضحیٰ کی یہ آخری آیت پر عمل نہیں تھا ؟۔ نہیں بالکل نہیں بلکہ جیسے جیسے یہ قرآنی آیات نازل ہوتی جاتی تھی ویسے ہی صحابہ کرام اسے نصیحت میں لایا کرتے تھے اور صحابہ کے پاس نہ اتنا وقت تھا اور نہ ہی وہ دین میں خود سے کچھ ایجاد کرتے بلکہ وہ تو ہر وقت آقا ? کی نقل و پیروی کرنے میں اور سنتوں کو اختیار کرنے میں مشغول رہتے اور انہیں ہمیشہ آخرت کا ڈر ستاتا تھا تو وہ کس طرح آقا ? جیسی عظیم نعمت کا بیان کرتے تھے؟ صحابہ کرام تو آپ کی محبت میں اتنے محو تھے کی جب بھی ایک دوسرے سے ملتے تو آقا کی باتیں کرتے سب سے پہلے تو وہ اپنے اہل و عیال میں آقا کی تعریف بیان کرتے ان کی تعلیمات کا درس دیتے آپ کی سنتوں کو خود بھی اختیار کرتے اور اوروں کو بھی حکم دیتے اور جگہ جگہ جا کر کفار و مشرکین میں آپ کی شخصیت پر روشنی ڈالتے اور آپ کی تعلیمات کا ذکر کرتے
تو اس طرح وہ اپنے رب کی عظیم نعمت کا بیان کرتے۔ لیکن اب لوٹ آئیں اپنے زمانے میں کہ ہم کیا کر رہے ہیں ہم تو صرف اسی مہینے یا اس ایک دن پر ہی آپ کی عظمت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ غیر مسلم کا شیوہ ہے کہ کسی ایک اور خاص دن ہی کسی بھی شخصیت پر روشنی ڈالنا۔اور آپ نے غیر مزہب کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔ہمیں تو ہر پل نبی کی باتیں کرنا چاہیے۔ اپنے گھر میں اہل و عیال میں نبی کی شخصیت اور انکے اخلاق پر روشنی ڈال کر اپنے بچوں کے دل میں نبی کی محبت پیدا کرنی چاہیے۔
جب تک ہماری نوجوان نسل اور بچوں کے دل میں نبی کی سچی محبت نہیں پیدا ہو گی تب تک وہ نبی کی پیروی کیسے کریں گے اور ایسا نہیں ہوا تو ہمارے نوجوان آج کل کے ہیرو ہیروئنس کے ہی فین بنے گے اور ان ہی کی پیروی کریں گے جس َسے وہ اپنی دنیا بھی برباد کریں گے اور آخرت بھی۔! اس لیے گھر کے سر پرست کو چاہیے کہ روزانہ کچھ معمول بنا کر اپنے بچوں کو سنن نبوی سے آراستہ کریں اور میں ہمارے اساتذہ سے بھی کہنا چاہوں گی کہ وہ بھی اپنی درس و تدریس میں نبی کی بات اور چھوٹی چھوٹی احادیث شامل کریں. کیونکہ آج کل بچے والدین سے زیادہ اساتذہ کی نگرانی میں رہتے ہیں۔ اکثر بچوں کا معمول ہی یہ ہوتا کہ وہ صبح پہلے مدرسہ جاتے پھر اسکول اور پھر کوچنگ کلاسز ؛ اس لیے اخلاقیات ، تربیت اور نبی کی محبت پیدا کرنا یہ اساتذہ کی بھی ذمہ داری ہے اس لیے انہیں چاہیے کہ پہلے خود نبی کی زنگی پڑھیں اور پھر بچوں کو بھی بتائیں
آئیے اب ہم دیکھتے ہیں عید میلاد النبی کے دن بڑی بڑی محفلوں کا انعقاد کرنا کہاں تک صحیح ہے اگر ذرا غور کریں ہم صرف اس ایک دن ہی محفلوں اور پروگرام کا انعقاد کریں تو ایسا کرنے سے ہماری نئی نسل کے دلوں میں محض ریاکاری، ٹرینڈ اور صرف ایک دن کی دکھاوے والی محبت پیدا ہو گی جبکہ ہمیں اپنے بچوں کو دائمی و سچا محب رسول بنانا ہے لیکن ہم نے شروع کی سطروں میں ملاحظہ فرمایا کہ بدلتے زمانے کے ساتھ لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلانا اور آقا ? کی زندگی سے وابستہ کرنا یہ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے اور جب ہمارے لوگوں نے ان غیر مسلم کا طریقہ اپنا ہی لیا ہے اور ہمارے لوگ برتھ ڈے، فادر، مدر اور ٹیچرس ڈے؛ اس طرح کے ایام منانے لگ ہی گئے ہیں تو آئے پھر ہم ان ہی کی پسند کے ذریعے اللہ کے رسول کی حیات مبارک سے وابستہ کرتے ہیں اور اس مہینے میں پروگرامز ، محفلوں اور کانفرنس بٹھا کر لوگوں کو اللہ کے رسول کی زندگی سے واقف کراتے ہیں اور پورا سال بھی چھوٹی چھوٹی محفلوں کا انعقاد کرکے آپ کی سیرت اور سنتوں سے آراستہ کرتے ہیں کیونکہ آپ نے بھی اپنی ولادت کی خوشی منائی لیکن اس طرح تزک و احتشام یا جشن و جلوس کرکے یا غیر مزہب کا شیوہ اپناکر سال میں ایک بار نہیں۔ صحیح حدیث میں حضرت ابوقتادہ انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ سے سوموار کے روزے کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا میں اسی دن پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر قرآن نازل ہوا تو اس طرح آپ نے اپنی ولادت اور قرآن کے نزول کی خوشی میں ہر ہفتے پیر کے روز روزہ رکھتے۔
اور ربیع الاول کے مہینے میں کانفرنس بٹھانا اور محفلوں کا انعقاد کرنا کوئی بدعت نہیں بلکہ یہ اچھا طریقہ ہے کیونکہ سنن طبرانی میں عبداللہ بن مسعود کا قول ہے کہ جس کو امت اچھا سمجھنا شروع کر دے تو وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے لیکن امت کا ایک گروہ نہیں بلکہ پوری امت؛ اور لائٹنگ، تعزیہ داری اور جلوس نکالنا یہ صرف ایک فرقے نے اپنایا ہے لیکن کانفرنس وغیرہ بٹھا کر مختلف سرگرمیاں انجام دینا یہ آج کل سبھی کرتے ہیں جیسے بریلوی میلاد مصطفی کانفرنس کرتے ہیں دیوبندی سیرت مصطفی کانفرنس کرتے ہیں اور اہل حدیث محمد رسول اللہ کانفرنس کرتے ہیں اور شیعہ بھی اپنے طور سے پروگرام کرتے ہیں یعنی پوری امت اس بات پر جمع ہو گء ہے کہ ربیع الاول کے مہینے میں نبیﷺ کا ذکر خیر ہونا چاہیے
لیکن ذرا غور کریں تو ہم ربیع الاول کے مہینے میں ولادت اور ولادت کے پہلے کا پس منظر بیان کر دیتے ہیں پھر اس کے بعد اپنے اپنے کاروبار میں لگ جاتے ہیں اس لیے میں کہتی ہوں کہ ہمیں پورا سال بھی چھوٹی چھوٹی محفلوں کا انعقاد کرکے نبی کریم ? کی بقیہ زندگی کا بھی ذکر کرنا چاہیے جیسے نبی کے اخلاقیات، معجزات ، اسلامی جنگوں اور چھوٹے چھوٹے واقعات کا بھی بیان کرنا چاہے۔!
لہذا ہمیں چاہیے کہ یوم ولادت کیبعد بھی اپنی طرز زندگی مکمل طور پر آپ ? کی سنتوں پر عمل کرتے ہوئے ہی ہونا چاہیے۔ تب کہیں ہم آپ کی ولادت کیمقصد کو سمجھ سکتے ہیں۔ کوئی خاص دن عبادتوں کیلیے مرکوز کرکے بقیہ ایام گناہوں میں گزارنا یہ محض احمکانہ فعل ہے۔
اور ہم عید میلاد النبی مناتے ہیں تو یہ دعویٰ پیش کرتے ہیں نا کہ ہم نبی سے محبت کرتے ہیں تو آئے اس طرف بھی نظر ڈالیں کہ ہم کس طرح نبی سے محبت کریں۔ سب سے پہلے تو ہم غریبوں کے غم خوار آقائے مدنی پر بکثرت درود شریف پڑھا کریں اور اپنے لبوں کو ان کے ذکر سے تر رکھیں کہ جو رحمت للعالمین ہیں اور ان پر ہم ہی نہیں بلکہ سارے عالم کی مخلوق درودشریف پڑھتی ہیں۔
اور درود شریف پڑھنے کے کئی فضائل ہیں اور ایک حدیث میں آتا ہے کہ جبرئیل علیہ السلام نے تین آدمیوں پر لعنت بھیجی ہے اور اس پر نبی کریم نے آمین کہا ہے۔ ان میں سے ایک وہ ہے کہ جس کے سامنے نبی کا نام آیا اور اس نے آپ پر درود شریف نہیں پڑھا۔ اس لیے درود شریف کے کء فضائل، ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہمیشہ اور بکثرت درود و سلام پڑھیں اور نبی سے اپنی محبت کا ثبوت دیں اور سنن ابن ماجہ اور صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ رسول اللہ ? نے فرمایا :تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ اس کا مطلب اللہ کے رسول کی محبت ہی کامل ایمان ہے
اس لیے میں آج کے مسلمان کو یہ پیغام دینا چاہوں گی کہ پہلے قرآن پڑھیں اور اسے سمجھے کیونکہ وہی ہماری ہدایت والی کتاب ہے اور قرآن پڑھنا اور سمجھنا ہم پر فرض ہے اور اپنے آخری وقت میں حجتہ الوداع کے موقع پر اللہ کے رسول نے اونٹنی پر سوار ہو کر فرمایا : لوگوں بے شک میں تم میں اپنے بعد وہ چیز جھوڑ کر جا رہا ہوں جسے مظبوطی سے تھام لوگے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے ( صحیح مسلم ۰۵۹۲ ) اور یہاں آپ کی مراد اللہ کی کتاب قرآن مجید و الفرقان الحمید ہے پھر اس کے بعد احادیث اور ہنی کریم کی زندگی پڑھیں کیونکہ اللہ سبحان و تعالٰی نے قرآن مجید میں سورہ الاحزاب میں فرمایا ( بے شک تمہارے لیے بہترین نمونہ عمل اللہ کے رسول کی مقدس زندگی ہے ) پھر اس کے بعد صحابہ کرام کو پڑھیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کی بھی اقتدا کروگے ہدایت پاؤگے ( سلسلہ الصحیح، مشکا?) تو اس طرح قرآن و سنت پڑھنے کے بعد ہی اپنے اپنے مسلک کے علماء و ائمہ کی پیروی کریں اور یہ یاد رہے کہ سب سے پہلے ہمیں اللہ اور اس کے رسول سے ہی محبت کرنی ہے تبھی ہمارا ایمان مکمل ہے اس لیے کبھی اگر ہمارے علماء و ائمہ کی بات آپ سے اور قرآن و سنت سے ٹکرا تو ہمیں فوراً رد کرنی چاہیے کیونکہ سب سے پہلے ہمارے نبی ہے پھر ان کے بعد سب؛ تو اگر ہم آپ کو چھوڑ کر ہم سب کی بات ماننے لگ گئے تو ہمارے دلوں میں اللہ کے رسول کی کیا ہی عزت اور کیا ہی محبت رہ جا گی
اختتام :- ہو سکتا ہے میری بات آپ کو کء جگہ پر ناگوار گزری ہوں گی لیکن انسان میں ہمیشہ حقیقت قبول کرنے کا جزبہ ہو نا چاہیے تو آپ اللہ سے ہدایت کی دعا کرکے فرقوں کی تفریق سے بالاتر ہو کر پہلے قرآن و سنت اور صحابہ کی زندگی کو دیکھیں کیونکہ صحیح دین ہمیں یہی سے ملے گا۔ آخر میں اللہ سبحان و تعالٰی سے دعا ہے کہ ہمیں سچا اور دائمی محب رسول بنا اور دین کی صحیح سمجھ اور راہ ہدایت عطا فرمائے
٭٭٭

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا